فہمیدہ یوسفی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوچ رہی ہوں میرے لعل کہاں سے شروع کروں کیسے لکھوں اور کیا کیا لکھوں لفظ ہیں سب گڈ مڈ ہوتے چلے جارہے ہیں ۔ آنکھیں ہیں بھیگی چلی جارہی ہیں ، سانسیں ہیں جو لگ رہا ہے بس اٹک رہی ہیں۔ یہ ظالم وقت ہے کہ گزر ہی نہیں رہا ۔
ابھی کچھ دیر میں تم واپس آجاؤگے ماں کی نگاہیں ہیں کہ دروازے پر لگی ہیں۔ پر میرے لعل یہ تو بتادو تمہاری آہٹ پر دروازہ کھولنے کا حوصلہ کہاں سے لائیگی تمہاری ماں تم کو اب یونی فارم میں نہیں کفن میں لپٹے دیکھنے کی ہمت کیسے کریگی۔ جانتی ہوں میرے لعل تم شہید ہو اور شہید کبھی مردہ نہیں کہلاتے مگر میرے لعل ماں کے دل کا حال کوئی پوچھے جو اب تم کو کبھی جیتا جاگتا نہیں دیکھ سکے گی۔
تم اس وطن کی مٹی پر قربان ہوگئے تمہارا فرض تھا مٹی کا قرض تھا تم پر تم نے نباہ دیا مگر میرے لعل میں کیا کروں کیسے صبر کروں اتنا آسان بھی تو نہیں ہے نا۔ میرے لعل پتہ ہے تمہاری ماں کو ہمیشہ سے یونی فارم پہنے یہ بانکے سجیلے جوان اچھے لگتے تھے ، سوچتی تھی جب خدا مجھے بیٹا دیگا تو اس کو میں بس فوجی بناونگی جو بس صرف اپنی ماں کا نہیں بلکہ سب ماؤں کا محافظ بنے جو ہر بہن کا مان بنے اور باپ کا سہارا ہو۔
جب تم آئے تھے نا میری گود میں تو میں نے آسمان کی طرف دیکھ کر بس اس مالک کا شکر ادا کیا تھا کہ اس نے میری دعا سن لی مجھے شہزادے جیسا بیٹا عطا کردیا اور میرے لعل ماؤں کے لیے تو ان کے بیٹے شہزادے ہی ہوتے ہیں ان کا فخر ہوتے ہیں جب منہ سے نکلتا ہے کہ ہاں یہ میرا بیٹا ہے۔ ۔ اور میرے لعل تمہاری شہادت کی خبر سن کر ایک بار پھر آسمان کی طرف دیکھا ہے اور اشک بار آنکھوں سے شکر ادا کیا ہے کہ اس نے مجھے سرخرو کردیا ۔
یاد ہے میرے لعل تمہارے منہ سے پہلا لفظ ماں نکلا تھا اور سوچ رہی ہوں جب تم کو گولیاں لگی ہونگی تو آخری لفظ جو تم نے کہا ہوگا وہ ماں ہی ہوگا ۔جب پاؤں پاؤں چلے تھے نا تم تو تم جب گرتے تھے نا میں بھاگ کر تم کو گود میں اٹھا لیتی تھی اب جب تم گرے ہوگے تو میں وہاں نہیں تھی جو تم کو گرنے نہ دیتی ۔ پتہ ہے تم کتنے ضدی تھے بس سارے گھر میں مجھے ڈھونڈتے رہتے تھے اب میرے لعل تمہیں ماں ڈھونڈیگی اور تم نہیں ہوگے۔ تمہاری سلامتی کی تمہاری لمبی عمر کی کتنی دعائیں مانگتی تھی اب کیا کروں کیا مانگوں میرے لعل خود بتادو۔ تم کو تو نظر بھر کر دیکھتی نہیں تھی کہ کہیں تم کو ماں کی نظر نہ لگ جائے پر میرے لعل تم کو نظر لگ ہی گئی نا ماں کچھ نہیں کرسکی ۔
یاد ہے جب تمہارا سلیکشن ہوا تھا کتنا روئی تھی میں اور تم نے کہا تھا آپ تو ایسے رورہی ہیں جیسے میں شہید ہوگیا اور مجھے کیا پتہ تھا کہ تمہارے الفاظ اس کی بارگاہ میں ایسے مقبول ہونگے کہ میں اب شہید کی ماں کہلاونگی جب پہلی بار تم نے یونی فارم میں مجھے سیلوٹ کیا تھا تو کیسے فخر سے میں نے تمہارا سراپا اپنی آنکھوں میں بھر لیا تھا تمہارے ماتھے کو چوما تھا اور اب پتہ نہیں تم کو کفن میں لپٹا دیکھ کر اس ظالم لمحے کو اپنی دھندلی آنکھوں میں رکھ سکونگی۔ یاد ہے جب پہلی بار ڈیوٹی گئے تھے تم سے رابطہ بھی نہیں ہورہا تھا میں نہ سورہی تھی نہ جاگ رہی تھی اور جب تم سے رابطہ ہوا تھا تو میری آواز سن کر تم نے کہا تھا ماما آپ فوجی کی ماں ہیں اپنا دل مضبوط کرلیں تومیرے لعل دل کو مضبوط کرلیا لیکن اتنا بھی نہیں کہ آنسو بھی نہ بہہ سکیں ۔
یاد ہے نا کتنا ارمان تھا مجھے تمہاری شادی کا تم کو دلہا بنے دیکھنے کا تمہاری چاند سے دلہن لانے کا ہر ماں کو ہوتا ہے نا اور جب تم کو سہرے میں دیکھا تھا تب پھر آنسو آگئے تھے اب بتادو کس حوصلے کس ہمت سے یہ خبر تمہاری بیوہ کو بتادوں ابھی تو اس کے ہاتھوں کی مہندی بھی نہیں اتری ہے۔
مانتی ہوں کہ شہادت قسمت والوں کا رتبہ ہے میں قسمت والی ہوں کہ میرا بیٹا میدان جنگ میں ہارا نہیں جیت گیا ہے ۔ یہ بھی مانتی ہوں کہ قرآن میں بشارت ہے
“اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے جاتے ہیں ان کے بارے میں یہ نہ کہو کہ وہ مردہ ہیں بلکہ وہ تو زندہ ہیں لیکن تمھیں خبر نہیں۔”
یہ بھی مانتی ہوں اور جانتی ہوں کہ تم میرے نہیں پاکستان کے ان بیٹوں میں شامل ہوگئے ہو جو اپنے سینے پر گولیاں کھاتے ہیں لیکن دشمن کے کاری وار کو ناکام بنادیتے ہیں ۔ تم اور سب شہید بیٹے اس قوم کا فخر ہیں ۔ تمہارے خون سے ہی وفا کی داستانیں رقم ہوتی ہیں وہ عہد جو تم نے اپنی جنم دینے والی سے نہیں پہچان دینے والی شناخت دینے والی ماں سے کیا تھا وہ نباہ دیا ہے۔
مگر میرے لعل صبر تو آتے آتے ہی آئے گا دل کو قرار اب کیسے آئیگا اور ہاں میرے لعل بس یہ بتادو کہ تمہاری ماں وہ ظرف کہاں سے لائے وہ حوصلہ کہاں سے لائے اور وہ دل کہاں سے لائے کہ تم کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خدا حافظ کہے
بس میرے لعل یہاں ماں کے الفاظ ختم إنّا لله وإنّا إليهِ رَاجعُون
یہ بھی پڑھیے:
لینڈ مافیا نے سمندر کو بھی نہیں چھوڑا مینگرووز خطرے میں|| فہمیدہ یوسفی
پاکستان کا سمندری نمک بہترین زرمبادلہ ثابت ہوسکتا ہے۔۔۔ فہمیدہ یوسفی
کون ہیں ہم لوگ ،انسان ہیں یا درندے؟۔۔۔ فہمیدہ یوسفی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر