نومبر 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

”کرونا:کپتان! گھبرانانہیں|| نصرت جاوید

دل دہلا دینے والے جائزے اور پیش گوئیوں کو غلط ثابت کرنا فی الوقت سیاستدانوں کا روپ دھارے ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ کو عبرت کا نشان بنانے سے کہیں زیادہ بڑا چیلنج ہے۔

نصرت جاوید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یوسف رضا گیلانی کے ہاتھوں 3مارچ 2021کے دن ڈاکٹر حفیظ شیخ کی شکست نے عمران خان صاحب کو حیران کردیا تھا۔ قومی اسمبلی کے اراکین کی اکثریت کی حمایت کی بدولت ہی وہ وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہیں۔ اسی ایوان میں تاہم سینٹ کی ایک نشست کے لئے ان کے نامزد کردہ امیدوار کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔وزیراعظم یہ سوچنے کو مجبور ہوگئے کہ وطن عزیز میں سازشوں کے ذریعے حکومتوں کو عدم استحکام کا شکار بنانے والے ان کے خلاف بھی متحرک ہوگئے ہیں۔ کرکٹ کی وجہ سے کرشمہ ساز مشہور ہوئے عمران خان کو مگر گھبرانے کی عادت نہیں۔

بنیادی طورپر فاسٹ بائولر ہیں۔ ’’وکٹ اُڑانا‘‘ فقط اپنا حق شمارکرتے ہیں۔طیش کے عالم میں یاد دلانا شروع ہوگئے کہ بطور ’’کپتان‘‘ وہ ’’اننگز‘‘ کوازخود (ڈیکلئر)کرنے کے عادی رہے ہیں۔کسی اور کا دبائو انہیں ’’پچ‘‘ سے باہر جانے کو مجبور نہیں کرسکتا۔ کرکٹ سے مستعار لئے استعارے کے ذریعے پیغام انہوں نے یہ دیا کہ سازشیوں کو مزید کھیلنے نہیں دیں گے۔ قومی اسمبلی کی تحلیل کی راہ پر چلتے ہوئے نئے انتخابات یا اننگزکی تیاری شروع کردیں گے۔ان کے بہی خواہ اس پیغام سے گھبرا گئے۔

حفیظ شیخ کی شکست کے تین دن بعد قومی اسمبلی سے اعتماد کا ازسرنو ووٹ بھی عمران خان صاحب کو مطمئن نہیں کرپایا۔اصرار یہ بھی ہوا کہ ان کے نامزد کردہ صادق سنجرانی کو یوسف رضا گیلانی کے مقابلے میں ہر صورت سینٹ کا چیئرمین منتخب کروایا جائے۔ گیلانی صاحب کی حمایت میں ڈالے گئے سات ووٹوں کو مسترد ٹھہرا کر ان کی یہ خواہش بھی پوری کردی گئی۔کئی خوش فہم لوگوں کو گماں تھا کہ یوسف رضا گیلانی اپنے ساتھ ہوئی ’’زیادتی‘‘کو برداشت نہیں کرپائیں گے۔ وہ مگر خاندانی ’’مخدوم‘‘ ہیں۔’’نذرانہ‘‘ اکثر ان کا جی بہلادیتا ہے۔ ’’باپ‘‘ نامی سیاسی جماعت سے بچھڑے چند اراکین سینٹ نے انہیں ایوان بالا میں قائد حزب اختلاف کا منصب دلواکر راضی کرلیا۔

عمران خان صاحب کو مگر اطمینان پھر بھی نصیب نہیں ہوا۔

ان کی جماعت کی ٹکٹ پر منتخب ہوئے گیارہ اراکین اسمبلی جہانگیر ترین کو ’’احتساب‘‘ سے بچانے کے لئے متحرک ہوگئے۔ پنجاب اسمبلی میں بھی ’’بغاوت‘‘ کی لہر چل پڑی۔ تحریک انصاف کی صفوں میں ہلچل کے ساتھ سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے نے عزت مآب فائزعیسیٰ صاحب کے خلاف بہت محنت سے بنائے ایک ریفرنس کو بھی کوڑے دان میں پھینک دیا۔ وہ فیصلہ آیاتو ایف آئی اے کے سابق سربراہ ٹی وی سکرین پرعمران خان صاحب کو منتقم مزاج ثابت کرنے کے لئے جھوٹی سچی کہانیاں بیان کرنا شروع ہوگئے۔ چل چلائو کا ماحول بناتی اس ہلچل کے دوران کراچی سے قومی اسمبلی کی ایک نشست کے لئے ضمنی انتخاب بھی ہوگیا۔ وہ نشست جسے تحریک انصاف کے طرح دار فیصل واوڈا نے نواز شریف کے بھائی اور ان کے نام سے منسوب ہوئی جماعت کے صدر کو ہرا کر جیتی تھی عمران حکومت کے ہاتھوں سے نکل گئی۔ تحریک انصاف کا امیدوار بلکہ پانچویںنمبر پر رہا۔

ان تمام واقعات نے باہم مل کر عمران خان صاحب کو قائل کردیا ہے کہ ’’سازش‘‘ وقتی طورپر ذرا سستانے کے بعد اب بیک وقت کئی محاذوں پر تازہ ہتھیاروں کے ساتھ حملہ آور ہوچکی ہے۔اس کا تدارک اب فقط قومی اسمبلی کی تحلیل کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اسد عمر کے ذریعے لہٰذا ارادے کا اظہار کردیا گیا ہے۔

روایتی اور سوشل میڈیا پر چھائے ’’ذہن ساز‘‘ اصرار کررہے ہیں کہ عمران خان صاحب کو بخوبی علم ہے کہ موجودہ حالات میں نئے انتخابات ہوئے تو ان کی جماعت کو شاید کئی نشستوں کے لئے امیدوار بھی نہ ملیں۔ ’’اننگز‘‘ کو ’’ڈیکلئر‘‘ کرنے کی گفتگو کرتے ہوئے وہ درحقیقت ’’سازشیوں‘‘ کو ’’ہم تو ڈوبے ہیں صنم -تم کو بھی…‘‘ والا پیغام دے رہے ہیں۔

ان کے بہی خواہ ایسے پیغام سے پریشان ہوجاتے ہیں۔اسی باعث اب بندوبست یہ ہورہا ہے کہ وزیر اعظم صاحب سعودی عرب کے دورے پر تشریف لے جائیں۔ پاک-سعودی تعلقات میں جو سردمہری نظر آرہی تھی اس دورے کی وجہ سے ختم ہوتی نظر آئے گی۔ ان کے دورے کی بدولت برادر ملک کی جانب سے چند ایسے اقدامات کا اعلان بھی ہوسکتا ہے جو عمران حکومت کو آئی ایم ایف کے احکامات نظرانداز کرتے ہوئے ایسا بجٹ بنانے میں آسانیاں فراہم کردیں گے جسے ’’عوام دوست‘‘ پکارا جاسکے۔ اس کی وجہ سے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں ناقابل برداشت اضافہ نہیں کرنا پڑے گا۔پیٹرول بھی مارکیٹ میں کم از کم موجودہ نرخوں پر ہی میسر رہے گا۔

’’عوام دوست‘‘ بجٹ کا یقینی نظر آنا عمران خان صاحب کو نئے انتخاب والا دشوار راستہ اختیار کرنے سے باز رکھنے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ٹھوس اطلاعات تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے میں یہ طے کرنے سے ہرگز قاصر ہوں کہ عمران خان صاحب کا دورئہ سعودی عرب کس حد تک کامیاب رہے گا۔ یہ بیان کرنا بھی میرے لئے ممکن نہیں کہ کئی مہینوں تک جاری رہی ’’سردمہری‘‘ اچانک ’’گرم جوشی‘‘ میں کیوں بدل جائے گی۔ دورِ حاضر میں ایسے سوالات کے جواب ڈھونڈنا ’’صحافی‘‘ کی ذمہ داری نہیں رہی۔ ہمارے فیصلہ ساز جو بتائیں اسے اب سرجھکا کر سناجاتا ہے۔تجسس اور شک ویسے بھی محبانِ وطن کا شیوہ نہیں۔صاحبوں کے بیان کردہ الفاظ کو ’’منشی‘‘ فقط من وعن کاغذ پر چڑھادیا کرتے ہیں۔روزمرہّ زندگی کے گوناگوں مسائل پر نظر ڈالیں تو گھبرائے دل سے درد بھری اگرچہ یہ فریاد ہی نکلتی ہے کہ جی کو تسلی دینے والا جو منظر بتایا جارہا ہے وہ عملاََ ہوتا بھی نظر آئے۔

وزیر اعظم سے تاہم یہ شکوہ کرنے کا حق ضرور رکھتا ہوں کہ وباء کی نئی لہر کی وحشت کے موسم میں انہیں اننگز کو ڈیکلئر کرنے والی گفتگو زیب نہیںدیتی۔ کرکٹ کے علاوہ انہوں نے مزید شہرت لاہور میں کینسر کے علاج کے لئے ایک جدید ترین ہسپتال کی تعمیر کے ذریعے بھی کمائی تھی۔ قوم کو کینسر جیسے موذی مرض کا مقابلہ کرنے کے قابل بناتے عمران خان صاحب سے یہ توقع رکھنا قطعاََ فطری ہے کہ بطور وزیر اعظم پاکستان وہ وباء کے بھرپور مقابلے کی کمان براہِ راست اپنے ہاتھوں میں لیں۔ کرونا پر کڑی نگاہ رکھنے والے کئی تحقیقی ادارے مصر ہیں کہ میرے منہ میں خاک بروقت اور مؤثر اقدام نہ لئے گئے تو مئی کے اختتام کے بعد پاکستان میں بھی ویسی ہی مشکلات کا آغاز ہوسکتا ہے جنہوں نے ان دنوں بھارت کو قطعاََ لاچار اور بے بس دکھانا شروع کردیا ہے۔

دل دہلا دینے والے جائزے اور پیش گوئیوں کو غلط ثابت کرنا فی الوقت سیاستدانوں کا روپ دھارے ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ کو عبرت کا نشان بنانے سے کہیں زیادہ بڑا چیلنج ہے۔ قومی اسمبلی کی تحلیل کے ذریعے ملک کو اس وقت نئے انتخاب کی جانب دھکیلنے کی ’’تڑی‘‘ موجودہ حالات میں پیغام یہ بھی دے گی کہ ’’کپتان‘‘ بالآخر گھبرا گیا۔اپنی زندگی کے ممکنہ طورپر سنگین ترین بحران یا چیلنج کا پیدائشی رہ نما کی طرح سامنا کرنے کے بجائے ’’باجو کی گلی‘‘ سے نکل گیا۔

کڑے احتساب کو ناممکن بنانے والی سیاسی اور قانونی نظام میں موجود خامیاں یقین مانیں فی الوقت خلقِ خدا کی بے پناہ اکثریت کا ہرگز دردِسر نہیں۔ وباء کا خوف اس حد تک لوگوں کے ذہن میں سوار ہوچکا ہے کہ ہفتے کے دن اسلام آباد کے سب سے بڑے ہسپتال ’’پمز‘‘ میں اپنی آنکھوں سے میں نے ایک لمبی قطار دیکھی۔ اس میں کھڑے لوگوں کی اکثریت کم آمدنی والے افراد یا دیہاڑی داروں پر مشتمل تھی۔ لائن کی آخری صفوں میں کھڑے ایک شخص نے اپنا ٹوکن نمبر436بتایا۔اس وقت دن کے بارہ بھی نہیں بجے تھے۔اس کے بتائے ٹوکن نمبر نے مجھے یہ گماں کرنے کو مجبور کیا کہ اسلام آباد کے مرکزی ہسپتال میں ہفتے کے دن کم از کم ایک ہزار افراد نے کرونا کا ٹیسٹ کروایا ہے۔ایسے ہی ایک شخص کے لواحقین سے میں نے ٹیسٹ ہوجانے کے بعد پوچھا کہ خدا نہ کر ے کہ تمہارا عزیز واقعی کرونا کی زد میں آیا ثابت ہوگیا تو اس کے بعد کیا ہوگا۔اس کے لواحقین نے بے بسی سے انکشاف کیا کہ ٹیسٹ لینے والے اہلکار نے اسے خبردار کیا ہے کہ ہسپتال میں کرونا مریضوں کے لئے وقف بستروں کی تعداد تیزی سے کم ہورہی ہے۔ ان کے عزیز کا رزلٹ اگر پازیٹو آیا تو اسے اپنے ہی گھر کہیں خلوت میں رہنا ہوگا۔ پمزکے فقط ایک چکر نے مجھے کرونا کی بڑھی ہوئی سنگینی کا شدت سے احساس دلایا ہے۔اس عالم میں عمران حکومت کے خلاف مبینہ طورپر متحرک ہوئے ’’سازشیوں‘‘کا نئے انتخاب کی راہ بناتے ہوئے ’’منہ توڑ جواب‘‘ والی باتیں مجھے اچھی نہیں لگیں۔

یہ بھی پڑھیں:

کاش بلھے شاہ ترکی میں پیدا ہوا ہوتا! ۔۔۔ نصرت جاوید

بھٹو کی پھانسی اور نواز شریف کی نااہلی ۔۔۔ نصرت جاوید

جلسے جلسیاں:عوامی جوش و بے اعتنائی ۔۔۔ نصرت جاوید

سینیٹ انتخاب کے لئے حکومت کی ’’کامیاب‘‘ حکمتِ عملی ۔۔۔ نصرت جاوید

نصرت جاوید کے مزید کالم پڑھیں

About The Author