محمود جان بابر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب یہ کالم لکھ رہاہوں آج مئی کی دو تاریخ ہے۔
ابھی کل ہی تین بیانات ایک ساتھ نظر سے گزرے ہیں۔ پہلا بیان امریکی صدر جو بائیڈن کا ہے جس میں افغانستان سے امریکی فوجوں کی واپسی کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ امریکہ جن مقاصد کے حصول کے لئے افغانستان آیا تھا وہ حاصل کیے جا چکے ہیں جن میں سب سے بڑا جواز القاعدہ کا کمزور ہونا اور اس کے سربراہ اسامہ بن لادن کا مارا جانا ہے۔
تاہم اسی بیان کے سنگ امریکی نشریاتی ادارے سی این این نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ اس کی ٹیم کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے خطے میں القاعدہ کے دو اہم رہنماؤں نے کہا ہے کہ یہ خام خیالی ہے کہ انہوں نے امریکہ کو معاف کر دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے امریکی حملے کے بعد اپنی افرادی قوت اور رہنماؤں کو شام، یمن اور دیگر ممالک میں منتقل کر دیا تھا اور اب بھی یہ سب مل کر امریکہ کو اس وقت تک معاف نہیں کریں گے جب تک وہ پوری مسلمان دنیا سے نکل نہ جائے۔
ان دو بیانات کے علاوہ جمعے کی شام افغان صوبہ لوگر کے ایک گیسٹ ہاؤس پر حملے کے نتیجے میں 30 افراد ہلاک اور اکیانوے زخمی ہوئے ہیں جن میں الجزیرہ کے مطابق کچھ تو وہ طلبہ تھے جنہوں نے یونیورسٹی میں داخلہ لینے کے لئے امتحان دینا تھا اور کچھ وہ حکومتی ملیشیا ممبرز تھے جنہیں یہاں سے ایک اور ضلع میں ڈیوٹی سنبھالنے کے لئے فلائٹ کا انتظار تھا۔
امریکہ افغانستان میں اپنے مقاصد کے حصول کے نام پر یہاں سے واپس جا رہا ہے ایسے میں امریکہ کے اس بیان کو اس کے اپنے مفاد تک محدود رکھ کر دیکھا جائے تو اس کو کسی حد تک قبول کیا جاسکتا ہے لیکن خود افغانستان کے اندر کے حالات کچھ اور کہہ رہے ہیں۔ تشدد میں اضافہ ہو چکا ہے طالبان ناراض ہیں اور لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں وہ مزید ردعمل دے سکتے ہیں۔
افغان طالبان کی ناراضگی کی بڑی وجہ ان کے ساتھ امریکی معاہدے میں غیرملکی فوجوں کی واپسی کے لئے مقرر یکم مئی کی تاریخ کو 11 ستمبر تک توسیع دینا تھا یوں تو سابق امریکی صدر ڈانلڈ ٹرمپ نے طالبان کے ساتھ معاہدے میں اس بات کا اعلان کیا تھا کہ وہ امریکی فوجوں کو یکم مئی تک واپس لے جائیں گے لیکن ان کے جانشین جو بائیڈن نے یک طرفہ طور پر اس تاریخ کو یکم مئی سے گیارہ ستمبر تک بڑھادیا ہے اس یک طرفہ اعلان کے بعد افغان طالبان نے ترکی میں افغانستان کے مسئلے پر ہونے والی ایک اعلی کانفرنس میں شرکت سے بھی انکار کر دیا تھا جس کے بعد اس کانفرنس کو منسوخ کر دیا گیا ہے۔
فوجوں کی واپسی کی تاریخ میں تبدیلی کے حوالے سے واشنگٹن کے اس بیان کو بھی اہم سمجھا جا رہا ہے کہ امریکہ افغانستان سے فوجیں نکالنے کے بعد افغانستان پر نظر رکھنے کے لئے اپنے فوجیوں کی ری پوزیشننگ کر رہا ہے یعنی انہیں کسی قریبی مقام یا ملک میں بھی رکھا جاسکتا ہے۔ یہ ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ افغانستان سے امریکی فوجیوں کا انخلا کہنے کو تو آسان ہے لیکن کرنا مشکل ہو گا۔
معاہدے پر عمل درآمد کے حالات پر بحث مباحثے کے دوران بعض امریکی حکام افغانستان سے فوجوں کی واپسی کو بڑی غلطی بھی قرار دے چکے ہیں اور کہتے ہیں کہ ایسا کرنے سے طالبان فائدہ اٹھائیں گے اور تشدد میں اضافہ ہو گا۔
امریکہ میں گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد اس نے اپنے اتحادی ممالک کے ساتھ افغانستان پر یہ کہہ کر چڑھائی کی کہ وہاں کی طالبان حکومت نے القاعدہ سربراہ اسامہ بن لادن اور اس کے ساتھیوں کو پناہ دے رکھی تھی اور وہ افغانستان کو امریکہ اور اس کے دوست ممالک کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔ افغانستان میں طالبان حکومت کو ختم کیا گیا پاکستان میں اس کے سفیر ملا ضعیف کو حراست میں لے لیا گیا سینکڑوں لوگ گرفتار ہو کر گوانتانامو کی جیلوں میں ڈال دیے گئے اور اعلان کیا گیا کہ دنیا پہلے سے زیادہ محفوظ ہو گئی ہے اور اب القاعدہ کچھ بھی کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہا۔
اس سارے عمل میں پاکستان امریکہ کا نان نیٹو الائی یعنی اتحادی رہا اور کبھی گرم کبھی سرد حالت میں یہ تعلقات چلتے رہے تاہم معاملات اس وقت خراب ہو گئے جب افغانستان میں امریکی افواج کی ایک ٹیم نے دس سال پہلے 2 مئی کو پاکستانی شہر ایبٹ آباد میں ایک کمپاونڈ پر حملہ کر دیا اور وہاں سے القاعدہ رہنما اسامہ بن لادن کو گرفتار کرنے کا اعلان کیا اور یہی سے دونوں ملکوں کے مابین دوستی اور باہمی اعتماد اپنی کم تر حد تک نیچے آ گئے۔ امریکہ کو ایک دوست کش ملک کی نظروں سے دیکھا جانے لگا تھا کیونکہ اس نے پاکستان کے اندر آپریشن شروع کر کے اس کی پوزیشن کو اقوام عالم میں بری طرح متاثر کیا۔
امریکہ کی افغانستان میں موجودگی کی بدولت پاکستان سب سے زیادہ متاثر ہوا اور دہشت گردی کے ہزاروں واقعات میں اس کے ستر ہزار سے زیادہ لوگ شہید ہوئے لاکھوں زخمی ہوئے اور کئی سو ارب روپے کا مالی نقصان ہوا اس کے چھوٹے بڑے شہر بدامنی کے دوران دھماکوں سے تباہ ہوئے۔
اس دوران ایسے ایسے واقعات بھی ہوئے کہ جنہوں نے پوری انسانیت کو جھنجوڑ کر رکھ دیا جن میں پشاور کے آرمی پبلک سکول پر حملہ بھی شامل تھا جس میں سو سے زائد بچے اور سکول سٹاف شہید اور کچھ زخمی ہوئے تھے۔
قصہ مختصر امریکہ کی جانب سے پاکستانی حدود کے اندر کارروائی کے ان دس سالوں میں کہنے کو تو دونوں ملکوں کے تعلقات اپنی جگہ پر قائم رہے تاہم اگر ان حالات کے نتائج پر غور کیا جائے تو دنیا سرد جنگ کے خاتمے سے پہلے کی پوزیشن پر جاتی نظر آ رہی ہے یہ ایک بار پھر دو واضح بلاکوں میں تقسیم ہو رہی ہے ایک بلاک امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا ہے اور دوسرا چین و روس کی قیادت میں اپنی جڑیں مضبوط کرچکا ہے اور پاکستان کا جھکاؤ امریکہ کی بجائے دوسرے بلاک میں نظر آ رہا ہے جس کے نتیجے میں اپنی سرزمین پر امریکہ کو فضائی اڈے دینے والے پاکستان سے ناراض روس اور پاکستان ایک دوسرے کے بہت قریب آچکے ہیں، چین بھی خطے کو مزید کسی جنگ سے بچانے کے لئے اپنی کوششیں کر رہا ہے اور ایسا لگ رہا ہے کہ وہ علاقے کو مزید متاثر ہونے سے بچانے اور اس میں کاروباری راہداریوں کا جال بچھانے کا ہدف حاصل کرنے کے لئے کچھ بھی کرے گا۔
ایک طرف افغانستان کے اندر حالات خرابی کی جانب کروٹ لے رہے ہیں تو دوسری جانب پاکستان کے خلاف بین الاقوامی اداروں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس اور یورپی یونین کے پھندے کستے ہوئے نظر آ رہے ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان یورپی یونین کے اپنے بارے میں جمعرات کو منظور شدہ قرارداد سے پیدا ہونے والی مشکل سے کیسے نمٹتا ہے اور ایف اے ٹی ایف کے پھندے سے بچنے کے لئے کیا اقدامات کرتا ہے۔ یورپی یونین کے قرارداد پاکستان میں فرانس کے خلاف مظاہروں اور بڑھتی نفرت کو بنیاد بنا کر پاکستان کو حاصل جی ایس پی پلس حیثیت ختم کر کے اس کی یورپی منڈیوں تک رسائی کو محدود کر دیا گیا ہے۔
ماضی قریب میں پاکستان سے امریکی مطالبات خصوصاً افغانستان اور ایران کے معاملے پر پاکستان کے ”ٹھنڈے جوابوں“ نے بھی پاکستان کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی کو واضح کیا ہے اور بظاہر پاکستان پہلے کے مقابلے میں امریکی اثر سے زیادہ آزاد حیثیت میں نظر آ رہا ہے اور یہی وہ آزادی ہے جسے بحال رکھنے کے ”جرم“ میں اسے مزید سخت اقدامات کا سامنا کرنے کی تیاری کرنی ہوگی۔
قصہ مختصر پاکستان کے بارے میں وقتاً فوقتاً تنہا ہونے کے اشارے اور بیانات بھی منظرعام پر آئیں گے اس کے سعودی عرب، ترکی، ایران یہاں تک کہ چین سے بھی تعلقات میں سردمہری و خرابی کے تاثرات دیے جائیں گے لیکن واقفان حال یہ بھی جانتے ہیں کہ ان دوست ممالک سے وقتی ناراضگیوں سے پاکستان کی اہمیت اس حد تک کبھی بھی کم نہیں ہوگی جس سے یہ دوست ممالک اس سے اپنی راہیں مستقل جدا کرنے کا بھی سوچ سکیں۔
یہ بھی پڑھیے:
افغانستان، جنگ کے پلٹتے سائے۔۔۔ محمود جان بابر
کانچ کا وجود اور پتھر سے دشمنی۔۔۔ محمود جان بابر
پاکستان میں افغانوں کے چالیس سال ۔۔۔ محمود جان بابر
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر