نومبر 13, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پاک بحریہ ۔ انگیج افریقہ پالیسی|| ثاقب لودھی

پاکستان کی اس پالیسی میں پاک بحریہ کلیدی کردار ادا کر رہی ہے ۔ خیر سگالی دورے اور امدادی مشنز اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ بحری قیادت بھی ملک و قوم کی معاشی و اقتصادی حالت کو بدلنے کی خاطر کمر بستہ ہو چکی ہے

 

تحریر کنندہ : ثاقب حسن لودھی ، سکالر نیشنل ڈیفنس یونیور سٹی اسلام آباد

ای میل : Saqiblodhi1@gmail.com

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بلاشبہ موجودہ دنیا میں ہر ملک نہ صرف فوجی بلکہ اقتصادی اور سفارتی طور پر بھی مضبوط ہونے کی خواہش رکھتا ہے ۔ سرد جنگ کے بعد دنیا روایتی کے ساتھ ساتھ غیر روایتی چیلنجز کا بھی سامنا کر رہی ہے جن کے حل کے لیے "مشترکہ جدو جہد ” کا نظریہ مقبول ہوتا جا رہا ہے ۔ اس بات سے قطعا انکار نہیں کیا جا سکتا کہ دنیا بھر میں کوئی بھی ملک موجودہ روایتی و غیر روایتی چیلنجز سے اکیلا نبرد آزما نہیں ہو سکتا جس کی تازہ مثال موسمیاتی تبدیلیوں سے مل کر جدو جہد کرنے کا فیصلہ ہے ۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دنیا نے ٹیکنالوجی کے میدان میں خاطر خواہ ترقی کر لی ہے مگر آج بھی قدرتی آفات سے نمٹنے میں ترقی یافتہ ممالک کو خاصی جدوجہد کرنا پڑتی ہے ۔ قدرتی آفات میں زلزلہ ، سیلاب اور موسمیاتی تبدیلیا ں شامل ہیں جنکی وجہ سے ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ ساتھ ترقی پذیر ممالک بھی اس سوچ میں مبتلا ہیں کہ آخر کس طرح موسمیاتی تبدیلی کے چیلنج سے نمٹا جا سکتا ہے ؟ اسی تناظر میں 2016 میں فرانس میں موسمیاتی تبدیلی سے متعلق معاہدے میں 195 ممالک نے دستخط کیے جس کا بنیادی مقصد موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے میں ترقی پذیر ممالک کی مدد کرنا مقصود تھا ۔ اس معاہدے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کس طرح دنیا اس ایشو سے نمٹنے میں ایک دوسرے کی مدد کرنے کی خواہاں ہیں ۔

اسی تناظر میں اگر پاکستان کی بات کی جائے تو سخت ترین معاشی و اقتصادی چیلنج سے نبرد آزما ہونے کے باوجود اس کے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کی جدو جہد قابل تعریف ہے ۔ اس ضمن میں سول و عسکری قیادت مشترکہ طور پر اپنی جدوجہد کو جاری رکھے ہوئے ہیں جس کا دائرہ کار دیگر خطوں تک پھیل چکا ہے ۔ حال ہی میں پاک بحریہ کی جانب سے "نصر ” اپنے امدادی مشن کو مکمل کر کے واپس پہنچا ہے جس نے خطہ افریقہ کے کئی ممالک کا خیر سگالی دورہ کیا جن میں جبوتی ، سوڈان ، بینن اور نائیجر شامل ہیں ۔ ان ممالک میں پاک بحریہ کی جانب سے ایک ہزار ٹن چاول راشن کی صورت میں پہنچائے گئے جسکا بنیادی مقصد گزشتہ سال نائیجر کے شدید سیلاب اور خشک سالی سے نمٹنے میں مقامی حکومت کی مدد کرنا مقصود تھا ۔ خیر سگالی کے یہ دورے پاکستان کی ” افریقہ پالیسی ” کی عکاسی کرتے ہیں ۔ اس پالیسی کا بنیادی مقصد افریقی ممالک کو عالمی سطح پر مین سٹریم میں لانا مقصود ہے جس کے لیے پاک بحریہ نے ماضی کی طرح دوبارہ ان ممالک کو حکومتی پالیسی کے مطابق بہترین انداز میں انگیج کیا ہے ۔ مذکورہ ممالک کی جانب سے بھی پاک بحریہ کے ذریعے پہنچنے والی اس فوری امداد کا گرم جوشی سے استقبال کیا گیا ۔ پاک بحریہ کے اعلی افسران سے ہونے والی ملاقاتوں میں ان تمام ممالک نے انسانی ہمدردی اور ڈیزاسٹر ریلیف مشن (HADR) پروگرام کے تحت فوری امداد پہنچانے پر حکومت پاکستان اور بالخصوص پاک بحریہ کی کوششوں پر زبردست الفاظ میں تعریف کی ۔ اس کے علاوہ اپنے تقریبا تین ماہ کے خیر سگالی دورے کے دوران پی ۔ این ۔ایس نصر کینیا کے ممباسا پورٹ پر بھی لنگر انداز ہوا جس کا بنیادی مقصد قزاقوں جیسے اہم ایشو کے علاوہ میری ٹائم سیکیورٹی کے حوالے سے کوششوں کو فروغ دینا تھا ۔ اس حوالے سے پاک بحریہ کی میری ٹائم سیکیورٹی کے تناظر میں کی جانے والی کوششوں کو بھی اجاگر کیا گیا ۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس سے پہلے بھی پاک بحریہ مراکش ، موریطانیہ ، گھانا ، نائیجر ، جنوبی افریقہ اور تنزانیہ کے دورے کر چکی ہے جس میں میری ٹائم سیکیورٹی ، پاک افریقہ تاریخی تعلقات ، بحری سفارت کاری ، سمندری دہشت گردی اور بالخصوص کشمیر میں جاری بھارتی مظالم کو اجاگر کیا گیا جس پر پاکستان کی خطے و دنیا کے امن کے خاطر کاوشوں کو خراج تحسین پیش کیا گیا ۔ پاک بحریہ کی جانب سے گزشتہ دوروں میں گھانا ، موریطانیہ اور نائیجر میں امداد کے علاوہ میڈیکل کیمپ بھی لگائے گئے جہاں پاک بحریہ کے ڈاکٹروں کی جانب سے مختلف امراض میں مبتلا مریضوں کو مفت امداد مہیا کی گئی ۔

موجودہ پاک بحریہ کے دورے پاکستان کی خارجہ پالیسی میں افریقی ممالک کی نمایاں پوزیشن کو ظاہر کرتے ہیں ۔ چین کی جانب سے ‘ون بیلٹ ون روڈ ‘ منصوبے کے آغاز کے بعد سے افریقی خطہ توجہ کا مرکز بنا رہا ہے ۔ سی پیک جیسے اہم منصوبے کا پاکستان میں ہونا اور پھر چین کے لیے گیٹ وے کی حیثیت کی وجہ سے پاکستان بھی دنیا بھر کی توجہ اپنی جغرافیائی حیثیت کی جانب مبذول کرانے میں کامیاب ہوا ہے ۔ یہ دورے افریقی ممالک کے ساتھ ملکر سمندروں سے متعلق مسائل کا حل تلاش کرنے کی جدوجہد کا حصہ ہیں ۔ خطہ افریقہ کے بارے میں بات کی جائے تو غربت و افلاس ، دہشت گردی ، بد امنی ، بے روزگاری اور سیلاب جیسے موسمیاتی تبدیلی کا مرکز ہونے کے با وجود عزم و حوصلے کی مثال ہے ۔ یہاں کے ممالک دیگر ممالک کو تجارت اور سرمایہ کاری کے لیے بہترین ماحول فراہم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ یہ افریقی ممالک کی اہمیت ہی ہے کہ گزشتہ سال نومبر میں پاکستان میں اس حوالے سے سفیروں کی 2 روزہ کانفرس کا بھی انعقاد کی گیا تھا جس سے خطاب کرتے ہوئے صدر مملکت نے کہا تھا کہ ‘ افریقی خطے میں موجود مواقع سے فائدہ اٹھانا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔’ اس حوالے سے انہوں نے اس بات کا بھی اظہار کیا تھا کہ مستقبل قریب میں پاکستان اور خطہ افریقہ کے درمیان کی جانے والی تجارت نئی بلندیوں کو چھوئے گی ۔

پاکستان کی اس پالیسی میں پاک بحریہ کلیدی کردار ادا کر رہی ہے ۔ خیر سگالی دورے اور امدادی مشنز اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ بحری قیادت بھی ملک و قوم کی معاشی و اقتصادی حالت کو بدلنے کی خاطر کمر بستہ ہو چکی ہے ۔ حال ہی میں ‘امن ‘ مشقوں کا کامیاب انعقاد بھی قابل تعریف ہے جس کی وجہ سے روس و مغربی ممالک عرصہ دراز کے بعد پہلی بار کسی پلیٹ فارم پر اکھٹے نظر آئے۔ ان مشقوں کی وجہ سے مملکت خداداد کا بیرون ملک سوفٹ امیج اجاگر کرنے میں بھی مدد ملی ۔ بعد ازاں روسی وزیر خارجہ کا دورہ بھی اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ پاکستان کا مستقبل انتہائی روشن ہے ۔ اس کے علاوہ بحیرہ عرب میں پاک بحریہ کی جانب سے امن کے لیے کی جانے والی کوششوں کی تعریف بھی اس بات کی گواہی دیتی نظر آ رہی ہے کہ مستقبل قریب میں گوادر پورٹ کے آپریشنل ہوجانے کے بعد پاک بحریہ کی قوت میں مزید اضافہ ہو گا اور وہ پہلے سے بڑھ کر مزید فعال انداز میں خطہ و دنیا کے امن کے لیے کردار ادا کرے گی ۔

ثاقب لودھی کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author