امتیاز عالم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت چرچا رہا آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی چنیدہ صحافیوں سے بات چیت کا۔ ہم پہلے ہی سے ان کے سلامتی کے نئے پیراڈائم (نظریہ) سے آگاہ تھے تو کھسر پھسر پہ کان دھرنے کی بجائے ان کے اسلام آباد میں سکیورٹی سیمینار سے خطاب کو رجوع کرنے پر مجبور ہوئے۔ اب وہ شدومد سے نئے عوامی سلامتی و معاشی خوشحالی کے نظریے پر اصرار کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ان کی چار نکاتی حکمتِ عملی، عدم مداخلت اور علاقائی پائیدار ترقی سے بھلا کسے اختلاف ہوسکتا ہے‘ سوائے اس کے کہ پاکستان یا بھارت پھر سے ’’کور ایشوز‘‘کو پہلے طے کرنے پہ اصرار کریں۔ صحافیوں سے بات چیت میں انہوں نے اس کی فصاحت سے وضاحت کردی ہے کہ پاک بھارت بات چیت بیک وقت تمام پہلوئوں اور ایشوز پہ ہوگی اور ہورہی ہے۔ پہلے اگر جنرل باجوہ نے اسٹریٹیجک ’’تصادم‘‘ کی بجائے اسٹریٹیجک اکنامک کو آپریشن پہ اصرار کیا تھا تو اب اسٹریٹیجک پاز (توقف) بھی ضرور دیا ہے۔ یہ بہت ہی دانشمندانہ توقف ہے اور جنگ نہ امن کی صورتحال سے نکل کر امن کا پلو پکڑنے کی راہ دکھلاتا ہے۔ جس بیک ڈور چینل سے ہمارے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سفید انکار کرتے رہے، اس بابت جنرل باجوہ نے تصدیق کردی ہے۔ مصدقہ اطلاعات ہیں کہ ہر دو اطراف کے انٹیلی جنس چیف گفت و شنید میں مصروف ہیں تو جان کر خوشی ہوئی کہ جو مسئلہ میں مسئلہ بنے ہوئے تھے اب مسئلے کے حل کا حصہ بننے پہ راضی ہیں۔ یہ بہت ہی بے مثال تبدیلی ہے اور نئی معروضی حقیقتوں کا اعتراف بھی۔ پاک بھارت بات چیت کی تاریخ بتاتی ہے کہ دو طرفہ تعلقات کو بہتر کرنے کی تمام کاوشوں کو کس طرح ہر دو اطراف کے طاقتور جنگجو حلقوں نے ناکام بنایا۔ اب اگر جنگجو حلقے ہی ’’فیئر ویل ٹو آرمز‘‘ اور امن کی مالا جپنے لگیں تو برصغیر کی فاختائوں اور امن کی آشا والوں کے لیے اس سے زیادہ اطمینان کی گھڑی کیا ہوگی!
جنرل باجوہ نے صحافیوں سے بات چیت میں دو بنیادی مسئلوں پہ کافی واضح موقف اختیار کیا۔ اول، پاک بھارت تعلقات کو باہمی مفاد میں ازسر نو بہتر خطوط پر استوار کرنے پر اصرار کیا ہے ۔ دوم، ایک معمول سے ہٹے ہوئے (Abnormal) پاکستان کو ایک معمول کا پاکستان (Normal) بنانے پہ زور دیا ہے۔ یہ دونوں اندرونی و بیرونی پہلو پاکستان کے لیے ایک تاریخی جنجال کا باعث ہیں جن سے نکلنا پاکستان اور خطے کے لیے نہایت ضروری ہے۔ پاک بھارت تاریخی کشیدگی نے پاکستان کو معمول سے ہٹ کر ایک جنگجویئت پسند ملک بنا دیا جس سے اس کی اندرونی، نظریاتی و معاشی اور سیاسی و سماجی حیثیت بھی بگاڑ کا شکار ہوگئی۔ مملکت ایک جمہوریہ بننے کی بجائے آمرانہ روش پہ چل نکلی جس کی معیشت عوامی فلاح کی بجائے نیشنل سکیورٹی کا جہنم بھرنے پہ لگ گئی اور جو جدید روشن خیال آگاہی کی بجائے قرونِ وسطیٰ کی قدامت کی جانب راغب ہوکر ترقی کی راہ سے ہٹ گئی۔ ہر سو غیر معمولی بگاڑ ہے کہ بڑھتا چلا گیا تاآنکہ پاکستان دست نگر معیشت کے بحران اور کِرم خوردہ ڈھانچے اور ناقابل برداشت بھاری بھرکم بالائی ریاستی ڈھانچے کے لاینحل بحران میں پھنس کے رہ گیا۔ اب یا تو ریاست معمول کے آئینی، سیاسی، معاشی اور سماجی دہانے کی جانب لوٹے یا خود اندرونی تضاد کے ہاتھوں اندرونی طور پر پھٹ (Implosion) جائے ۔اب ہم غیر معمولی انحرافات کی انتہائوں پہ ہیں اور تباہی کے انتہائی دہانے (Brink) سے پلٹنے کی ضرورت ہے۔ اس احساس کے ساتھ ساتھ اس ادراک کی بھی ضرورت ہے کہ آخر اسی بگڑی ہوئی ریاست کے آخر بڑے بگاڑ کیا ہیں؟ میرے اور پولیٹکل سائنس و اکانومی کے اساتذہ کے خیال میں چند ایک یہ ہیں: (1) غیر متناسب پاوراسٹرکچر جو نیشنل سکیورٹی اسٹیٹ میں متشکل ہے اور جو بعداز نو آبادیاتی، ریاستی ڈھانچوں کے ذریعہ حاوی ہے جس میں ناہموار سول ملٹری تعلقات بنیادی عامل ہیں۔ (2) دست نگر اور مفت خور معیشت اور کرپٹ نظام۔ (3) مرکز یت پسندانہ ڈھانچے اور وفاقی شراکت داری اور قومی اکائیوں کا اطمینان۔ (4) محنت کش عوام کی خوشحالی اور استحصالی پیداواری و غیر پیداواری رشتوں کی تبدیلی۔ (5)ایک جدید ترقی پسند جمہوریہ کا قیام جس میں عوام اقتدار اعلیٰ کے مالک ہوں۔ (6) شدت پسند نظریات سے خلاصی اور غیر فرقہ وارانہ انسان دوستی جس میں سبھی کو اپنے عقائد کے مطابق روحانی زندگی گزارنے کا حق ہو اور جس میں ریاست مداخلت نہ کرے۔
یہ معمول پہ آنے کی ہمہ گیر راہ عمل ہے، جس کے لیے ہر سطح اور ہر میدان میں کایا پلٹ کی ضرورت ہے۔ ظاہر ہے اس کے لیے ایک انقلاب پیدا کرنے کی ضرورت ہوگی، لیکن ہم یہاں فقط ایک مستقل ارتقائی عمل پہ زور دے رہے ہیں۔ اس پراسس کے تین نازک پہلو ہیں۔ اول، قومی بیانیے کو بدلنے کی ضرورت۔ دوم، پاک بھارت تعلقات کے بارے میں کرم خوردہ نعرہ بازی سے اجتناب۔ سوئم، سیاسی پختگی اور عوامی بیداری۔ اور اس سب کے لیے ایک کھلے، آزادانہ اور ناقدانہ ماحول کی فراہمی جو ایک قومی مکالمے کی راہ ہموار کرے۔ دہائیوں تک جمہوری و روشن خیال حلقے یہ راہ سجھاتے رہے ہیں، لیکن اب مسخ شدہ اور پژ مردہ جمہوری تحریک کے فکری سوتے سوکھ گئے ہیں۔ اناڑیوں کی حکمرانی اور بے اصولی سیاست اس کار خیر میں ممد نہیں۔ تو پھر تو اسی جانب خیال جاتا ہے جو بولے وہ کنڈی کھولے۔ بولنے والے کو سیاسی میوزیکل چیئر گیم سے ہاتھ ہٹا کر جیسے کیسے منتخب ادارے سے رجوع کرنا چاہیے اور پارلیمنٹ کو قومی مباحثے کا مرکز بننا چاہیے۔ آئینی معمول اور اداراتی ضبط کی بحالی، معیشت کی انسانی ترقی کی بنیاد پر تعمیر نو اور پیداواری بنیاد میں توسیع ، عوامی نمائندگی اور سیاسی نظام اور سیاسی جماعتوں کی جمہوری کایا پلٹ ، وفاق اور اکائیوں کے مابین شراکتی و جمہوری توازن، سلامتی کی انسانی قلب ماہیت اور امن و دوستی کی آزاد خارجہ پالیسی اور پاک بھارت تعلقات کی تشکیل نو وہ موضوعات ہیں جس پر پارلیمنٹ غوروخوض کرے۔ اس کے لیے ایک آزاد میڈیا کے ساتھ ساتھ ذمہ دارانہ سیاست کی جانب رجوع ضروری ہے۔ سیاست میں جو جاری تلخی ہے اسے خیر باد کہنے کے لیے انتظامی احتساب کو بالائے طاق رکھنا ہوگا۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ سیاسی کھلاڑی کسی رولز آف گیم پہ متفق ہونے کو تیار نہیں۔ بے اصولی سیاست چالو سکہ ہے۔ جو بات اب جنرل باجوہ کہہ رہے ہیں کیا وزیراعظم نواز شریف او راس سے پہلے بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری نے نہیں کہی تھی جس کی انہیں بڑی قیمت ادا کرنی پڑی۔ اب اگر جنرل باجوہ وہی بات کررہے ہیں تو اس پر مخالفانہ سیاست کیوں؟
تم ہی نے درد دیا ہے، تم ہی دوا دینا
یہ بھی پڑھیے:
قضائے الٰہی اور انسانی گناہوں کی سزا۔۔۔امتیازعالم
بدلتا علاقائی منظر اور او آئی سی کا زوال۔۔۔امتیازعالم
امریکہ کی واپسی اور چین کے بدلتے تیور۔۔۔امتیازعالم
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر