کہاہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تحرِیر (ملک خلیل الرحمن واسنی حاجی پورشریف)
آج یکم مئی ہے اور مزدوروں کے عالمی دن کے طور پرحسب سابق اور روایتی طور پراسے منایا جارہا ہے ہر فورم اور ہر شعبہ زندگی کے لوگ مزدوروں کے حقوق کے حوالے سے سیمینار پریس کانفرنس ریلیاں منعقد کر رہے ہیں مگر بدقسمتی سے مزدور جس کے نام پر یہ عالمی دن منایا جارہاہے
اپنی روزی روٹی کے حصول اپنےاوراپنے خاندان کے کفالت کے لئے اپنے حقوق سےبے خبر مزدوری کرنے پر آج بھی مجبور ہے
اور آج کے مہنگائی کے اس طوفان زدہ دور اور جس کی رہی سہی کسر کرونا کی عالمی وبا نے پوری کر رکھی ہے آج بھی مسائل کا شکار ہیں مزدور کا کوئی بھی پرسان حال نہیں ہے یہ کہو تو کوئی شک نہیں کہ آج کے مزدور کو آج تک اپنے حقوق کی آگہی تک نہ ہے
حالانکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے 1973 کےمتفہ آئین کے آرٹیکل 38 کے تحت جس کا مفہوم یہ ہے کہ لیبرکا تحفظ سماجی انصاف اور مثبت ادارے ریاست کی ذمہ داری ہیں مگر ہر فورم پر صنعتی کارکن اور مزدور کا استحصال کیا جارہا ہے جس کا پوچھنے والا کوئی نہیں ہے
اور صنعتی اداروں کے کارکن اور مزدوروں کو تحفظ فراہم کرنے والے ادارے بھی استحصال کر رہے ہیں
حالانکہ پاکستان دنیا کا سب سے بڑا نواں ملک ہے جہاں پر باآسانی انسانی ورکرفورس دستیاب ہے جس میں خواتین اور بچوں کی بھی ایک بہت بڑی تعداد شامل ہے
اور ایک محتاط اندازے کے مطابق مکمل آبادی کا بطور لیبر زراعت میں 43 فیصد انڈسٹری میں 20.3 فیصد اور دیگر سروسز میں 36.6 فیصد ورکرز مصروف عمل ہیں اور پاکستان کی تقریبا مجموعی آبادی کا 57.2فیصد بطور ورکر اپنی زندگی بسر کر رہے ہیں
ایک اور بڑا المیہ یہ ہے کہ 12.5 ملین چائلڈ لیبر بھی ہے اور اگر تنخواہ کی بات کی جائے تو 1998 میں 1950 روپے 2001 میں 25 سو روپے 2005 میں 4000 روپے 2016 میں 14000 روپے اور 2017 میں 15000 روپے اور
موجودہ 17500 کم سے کم ماہانہ مقرر ہے ہفتے میں چھ دن یعنی 48گھنٹے کام اور اضافی کام کی صورت میں اوور ٹائم ورکرز پالیسی کے اقتباسات ہیں
مگر ورکرز کو کو ملتی 3000 سے 8000 ،15000،10000 ہیں اور غریب و مجبور ورکرز دس دس بارہ بارہ گھنٹے کام کرنے پر مجبور ہیں
اور بہت ہی کم ادارے ہیں جو مجموعی طور پر لیبر پالیسی کے مطابق ورکرز کو تنخواہوں کی ادائیگی کرتے ہیں
اوریوں لیبر ورکر کا تحفظ کرنے والے ادارے فیکٹری مالکان سے ملکر منتھلی اور مٹھی گرم کے چکر
میں اپنے حقوق و فرائض اختیارات بھول کر ورکرز کے دشمن بن جاتے ہیں
حالانکہ ورکرز یونینز بھی موجود ہیں جو کہ بعض اوقات ورکرز یونین کے
سربراہان اپنے مفادات کے چکر میں عام طبقے کو پس پشت ڈال دیتے ہیں حالانکہ اد ارےان ورکرز کے خون پسینے اورمحنت سے چلتے ہیں
مگر انکا استحصال کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتے
اور اگر موجودہ حکومت بالخصوص زراعت اور دیگر شعبہ ہائے زندگی کو بھی ایک صنعت قرار دے دے تو بہت بڑی معاشی تبدیلی لائی جاسکتی ہے
اور یوں کسان کے ساتھ ساتھ اس کی فصل اور مال مویشیوں کی انشورنس محکمہ ایمپلائز سوشل سیکیورٹی انسٹی ٹیوشن محکمہ اولڈ ایج بینیفٹس انسٹی ٹیوشن کا دائرہ کار ویلج اورنیبر ہڈ کونسلزتک بڑھا کراس سے سہولیات سے استفادہ حاصل کرنے کی پالیسی کو مجوزہ قرار دےکر
قانون سازی کیجائے تو ملک کیساتھ ساتھ قوم کوبھی معاشی اور اقتصادی طورپر مستحکم اور اپنے پائوں پر کھڑا کیاجا سکتا ہے
کیونکہ مبینہ طور پر ہر وہ ادارہ جہاں کم سے کم تین سے پانچ افراد کام کرتے ہوں وہ درج بالا اداروں کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں جہاں تھوڑا سا ماہانہ کنڑی بیوشن جمع کر کے بہت بڑے بڑے مفاد حاصل کیئے جا سکتے ہیں
جو کہ ایک زندہ اور محنتی قوموں کا شعار ہے اور دنیا کےترقی یافتہ ممالک جن میں چائنہ صف اول میں شامل ہے اور پوری دنیامیں کثیر آبادی والا ملک ہے نے بہت ہی کم عرصے
میں قانون اوراصولوں کی حکمرانی کی روشنی میں اپنے مسائل پرقابو پایا اور پوری دنیا میں چائنا ماڈل متعارف کرایا بحیثیت مسلمان اور اول المرسلین نبی آخر الزماں سیدنا محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کی پیاری شریعت اور پیاری سنت مبارک اور آپکے بہترین اسوہ حسنہ
جوکہ دنیا کے وجود میں آنے سےلیکر قیامت کی صبح تک پوری دنیا کے لیئےمشعل راہ اور روز روشن کیطرح عیاں ہے کے مطابق قوانین،اصول وضوابط اورفرامین پاک پرعمل کریں
جیسا کہ فرمان عالیشان ہے "مزدور کی مزدوری اسکے پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کرو”
حالانکہ حکومت وقت اگر چاہے تو موجودہ ملکی اور بین الاقوامی حالات اور عالمی وبا کے تناظر میں ان درج بالا اداروں میں مثبت تبدیلی لا کر بہت کچھ کر سکتی ہے
اور تھوڑی سی توجہ سے حالات یکسر بدل سکتے ہیں کیونکہ یہی ادارے اگر سہولت دینے پر آجائیں تو ورکر اور اس کے خاندان کو بہت کچھ تحفظ مل سکتا ہے اور ملتا ہے
جس سے پوری معیشت کو فائدہ پہنچ سکتا ہے اور انڈسٹریل اسٹیٹ ورکرز کالونیاں ورکرز ویلفیئر ہسپتال ورکرز ویلفئیر سکول کالج یونیورسٹیاں بناکر ورکرز کو سہولیات فراہم کی جا سکتی ہیں بلکہ ورکرز کو
معاشی تحفظ بھی فراہم کیا جا سکتا ہے
کیونکہ اکثر اداروں میں لیبر سے متعلقہ اداروں سے مل کر ورکر کو ورکرزہی ظاہر نہیں کیا جاتا ہے اور اگر ورکر ظاہر بھی کیا جائے تو مکمل سہولیات نہیں مل پاتی ہیں
جیساکہ بیماری کی صورت میں تنخواہ وفات کی صورت میں کفن دفن بیماری کی صورت میں علاج معالجہ تعلیمی سہولیات میرج گرانٹ ڈیتھ گرانٹ حادثہ پینشن اور موت کی صورت میں
لواحقین کو پینشن اور محکمہ اولڈایج بینیفٹس کی طرف سے بڑھاپا پینشن وغیرہ وغیرہ
یہ اتنی سہولیات ہیں کہ انسان کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کا سوچیں بھی نہ مگر کیونکہ یہ سب چیزیں ہر ورکر کی دسترس سے باہر ہیں
جو کہ لمحہ فکریہ ہے اور بعض اوقات یہ سہولیات حاصل کرنے کے لئے ورکرز اوراس کے لواحقین کو کئی کئی سال لگ جاتے ہیں کہ وہ میرج گرانٹ اور ڈیتھ گرانٹ کی مدمیں محکمہ لیبر ڈیپارٹمنٹ سے مستفید ہوسکیں
جس میں سرمایہ دار جاگیردار وڈیرے صنعتی مالکان اور حکومتی ارکان بھی برابر کے شریک ہیں لیکن لیبر پالیسی اس کے برعکس ہیں اس حوالے سے متعلقہ اداروں افسران وحکام کوچاہیئے کہ
اس کےلئے آسان اور کم وقتی پالیسیاں وضع کریں تاکہ عام ورکر جلد سےجلدبمستفید ہوسکے مافیا اور مٹھی گرم کاسلسلہ بھی ختم ہوسکے
بے شک وفاقی وصوبائی حکومتیں اس حوالے سے بہت کچھ کر رہی ہیں
مگر موجودہ صورتحال کے پیش نظر یہ سب کچھ اونٹ کے منہ میں زیرے کےبرابر ہیں اور اسی کے سبب ایک مزدور دو وقت کی روٹی کو بھی ترستا ہے
لیکن اگر ادارے نےخدمات کے مقابلے میں کچھ دینے سے قاصر ہیں
اچھے ہیں تو وہاں پر کچھ ورکر صحیح نہیں ہوتے اور اکثر ورکر صحیح ہوتے ہیں مگر ادارے ورکرز کی
راجن پور
صوبائی وزیر وائلڈ لائف اینڈ فشریز پنجاب سید صمصام علی شاہ بخاری
اس سلسلے میں محکمہ لیبر ڈیپارٹمنٹ محکمہ سوشل سیکورٹی اور
اولڈایج بینیفیٹس مکمل طور پر بااختیار اور بغیر کسی دباؤ لالچ کے اپنے فرائض سرانجام دیں تو پورے ملک میں خوشحالی آ سکتی ہے اور بہتری آرہی ہے
مگر اس میں مزید ٹیکنالوجی اور اصلاحات کی فوری ضرورت ہےکیونکہ ماہانہ ایک ورکر کنٹری بیوشن کی مد میں فیکڑی مالک اور ورکر کی طرف سے متعلقہ اداروں کو سیکڑوں روپے جمع کرائے جاتے ہیں جس کے تحت درج بالا ادارے اس کنٹری بیوشن اور
حکومتی تعاون سے واپس ورکر کو ادا کرتے ہیں اور ورکرز بھی معاشی طور پر مستحکم ہو سکتے ہیں کیوں کہ پاکستان کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں صنعتیں فیکٹریاں اور ادارے موجود ہیں
جن کو ان اداروں کے وسیع تر دائرہ کار میں لاکر ملک و قوم کی معاشی میں اہم کردار ادا کیا جاسکتا ہے اور ایک عام مزدورکے روزمرہ بڑھتے مسائل پر بھی قابو پایاجاسکتا ہے
جہاں پر ورکرز مصروف عمل ہے اور ورکرز کو مکمل بنیادی انسانی زندگی کی سہولیات پہنچانا ایک ریاست اور حکومت وقت کی اہم ترین ذمہ داری ہے. ہے کہ فش سیڈ ہیچری فاضل پور کی تکمیل سے ضلع راجن پور اور گردونواح کے اضلاع کی شورزدہ اور بے
کار زمینوں کو مچھلی کی پیداوار کے لیے قابل استعمال بنانے میں مدد ملے گی اور لوگوں کے لئے ذرائع آمدن اور روزگار میں بھی مددگار ثابت ہوگی۔
یہ باتیں انہوں نے فش سیڈ ہیچری فاضل پور کے افتتاح کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم پاکستان عمران خان اور وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان احمد خان بزدار کے ویثرن کے مطابق تعمیر و ترقی کے لئے دن رات کوشاں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان خان بزدار نے اس منصوبہ کی تکمیل کے لئے خصوصی دلچسپی لی اور پایہ تکمیل تک پہنچایا۔
اس موقع پر صوبائی وزیر کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ یہ منصوبہ 140 ملین روپے کی خطیر رقم سے مکمل کیا گیا ہے۔ جس سے سالانہ پچاس لاکھ بچہ مچھلی پیدا کیا جائے گا۔
اس موقع پر ڈائریکٹر جنرل فشریز پنجاب ڈاکٹر سکندر حیات، ڈائریکٹر فشریز پنجاب چودھری افتخار، ڈپٹی ڈائریکٹر فشریز فش ہیچری فاضل پور رضا محمد بلوچ،
ڈپٹی ڈائریکٹر فشریز ڈیرہ غازی خان ، ڈپٹی ڈائریکٹر وائلڈ لائف اور معززین علاقہ نے شرکت کی۔
راجن پور
ڈپٹی کمشنر راجن پور احمر نائیک نے کہا ہے کہ رمضان المبارک میں اشیائے
خوردونوش کی فراہمی اور نرخوں کو اعتدال میں رکھنے کے لئے حکومت پنجاب مانیٹرنگ کا عمل جاری رکھے ہوئے ہے۔
ضلع بھر میں سبزی و فروٹ منڈیوں میں نیلامی کے عمل سے لیکر رمضان بازاروں اور عام مارکیٹ میں اشیاءکے معیار و نرخوں کو تسلسل کے ساتھ چیک کیا جا رہا ہے۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے رمضان بازار تحصیل روجھان کا دورہ کرتے ہوئے کیا۔ڈپٹی کمشنر نے کہا کہ ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری کو چیک کریں
جبکہ اس میں ملوث عناصر کے خلاف کوئی رعایت نہیں کی جائے گی۔بعد ازاں انہوں نے تحصیل ہیڈ کوارٹر اسپتال روجھان کا بھی دورہ کیا۔
انہوں جنرل وارڈ،میڈیسن اسٹور کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر اور پیرا میڈیکل اسٹاف کی حاضری کو بھی چیک کیا۔ڈپٹی کمشنر نے مریضوں سے خیریت دریافت کی اور فری طبی سہولیات بارے استفسار کیا۔
راجن پور
ڈپٹی کمشنر راجن پور احمر نائیک نے کہا ہے کہ گندم کی غیر قانونی نقل و حمل کرنے والوں کے خلاف سخت قانونی کاروائی عمل میں لائی جائے گی۔
اس سلسلے میں کوئی رعائت نہ برتی جائے۔گندم کو جتنا جلدی ممکن ہو ان لوڈ کیا جائے تاکہ کسانوں کو کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
یہ باتیں انہوں نے گندم خریدمرکز مٹ واہ کے دورہ کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا مقصد کسانوں کو زیادہ سے زیادہ ریلیف اور سہولیات فراہم کرنا ہے ۔
انہوں نے تمام مراکز گندم کو اپنا اپنا ٹارگٹ پورا کرنے کی ہدایت کی۔
اس موقع پر محکمہ خوراک کے افسران بھی موجود تھے۔
اے وی پڑھو
موہری سرائیکی تحریک دی کہاݨی…||ڈاکٹر احسن واگھا
محبوب تابش دے پرنے تے موہن بھگت دا گاون
جیسل کلاسرا ضلع لیہ ، سرائیکی لوک سانجھ دے کٹھ اچ مشتاق گاڈی دی گالھ مہاڑ