عفت حسن رضوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’کچا ریفرنس تھا اتنا ہی کچا جتنا کہ اس نالائق آپریشن کے لیے سب سے پہلے والے استعمال ہونے والا بندہ وحید ڈوگر المعروف تحقیقاتی صحافی۔ جسے کبھی چلنا ہی نہیں چاہیے تھا وہ کیس تھا۔ ٹیکس ریٹرن، ایف بی آر کا معاملہ تھا وہی نمٹ لیتا۔ عدالت کے پورے دو سال برباد کیے، عوامی وسائل بہائے گئے، بتائیں ازالہ کون کرے گا؟‘
جس وقت میں یہ جلی کٹی سنا رہی تھی دوسری طرف ماضی کے ایک مصروف اور معروف صحافی فون بند کر کے جا چکے تھے۔ وہ ایک یوٹیوبر کی جاندار ویڈیوز سے زیادہ کچھ نہیں سننا چاہتے تھے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں جاسوسی، تحقیقات، کمیٹی، ذرائع، انکشاف کے لوازمات ڈالے گئے۔ مگر کسی مرحلے پہ یہ نہیں بتایا گیا کہ قاضی نے پاکستانی عوام کا پیسہ کس طرح لوٹا؟
ایک شخص جن تاریخوں میں جج تھا ہی نہیں، اس کے پاس کوئی عوامی یا سرکاری عہدہ نہ تھا، اسے پاکستانی خزانے سے کوئی آمدن نہ تھی، وہ کسی حلف کے تحت بندھا ہوا نہیں تھا، اس دوران اس کی بیگم کی جانب سے کی گئی رقوم کی ادائیگی بتائی یا چھپائی ہر دو صورتوں میں ایک قومی مسئلہ کیسے بن گیا؟
مجھے آخری وقت تک انتظار رہا کہ کیس تیار کرنے والی حکومتی ٹیم شاید کہ کوئی تُرپ کا پتا کبھی پھینکے، ہمیں بھی قائل کر لے کہ جناب یہ ہیں سیرینا عیسیٰ کے وہ ڈاکے جو پاکستانی عوام کے حقوق پہ ڈالے گئے۔ دو سال تک قانون کی بھول بھلیاں گھمایا کسی نے یہ نہیں بتایا۔
انتظار رہا کہ کوئی تو سرا ہاتھ آئے جس کے بخیے ادھیڑیں تو یہ ثابت ہو جائے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے حدیبیہ پیپر ملز کیس میں شریف خاندان کو ریلیف 2018 میں دیا مگر اس کام کے لیے پیسے 2014 سے پہلے پکڑ لیے تھے۔ ثابت کرنا تو رہنے ہی دیں کم از کم ریفرنس بنانے والے لوگ یہ الزام ہی لگا دیتے تاکہ کیس کچھ تو جان پکڑتا۔
اکثر انکشافات سے بھرپور یوٹیوب چینلز ٹٹولتی رہی کہ کوئی لیک آڈیو، خفیہ ویڈیو ارے کچھ نہیں تو کوئی چھپ چھپا کہ لی گئی تصویر ہی منظر عام پہ آ جائے جو ہمیں بتائے کہ قاضی اور ان کی بیگم سیرینا عیسیٰ ہنڈی حوالہ والوں سے ملتے ہوئے پکڑے گئے۔
جب جب عدالت میں تمام ججز یہ قبول کرتے تھے کہ قاضی خاندان نے پیسوں والے سارے کام بینکنگ چینلز کے ذریعے کیے قسم سے بڑی مایوسی ہوتی تھی۔
ایف بی آر کے نام نہاد ’انتہائی حساس دستاویزات‘ بھی ذرائع سے جاری کرائے گئے بات اس سے آگے نہ بڑھ سکی کہ سیرینا عیسیٰ کے ساتھ قاضی فائز عیسیٰ ایک مقبول بینک میں مشترکہ اکاونٹ رکھتے ہیں۔
یاد رہے لندن فلیٹس کی خریداری کے لیے ادائیگی سیرینا عیسیٰ کے اکاونٹ سے ہوئی۔
میاں بیوی کا مشترکہ اکاونٹ رکھنا، اس اکاونٹ سے کوئی قابل ذکر لین دین نہ کرنا اور اس بات کا ایف بی آر کو نہ بتانا۔ ان تینوں باتوں میں کوئی مجرمانہ فعل یا ملک و قوم کا نقصان نہیں ہوا۔ بات بن جاتی اگر شہزاد اکبر اینڈ کومپنی ریفرنس دائر کرنے سے قبل یہ کھوج نکالتے کہ میاں بیوی کے اکاونٹ کے تانے بانے انڈر ورلڈ، منی لانڈرر سے ملتے ہیں۔
ٹوئٹر پہ آئے روز قاضی کو کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا رہا۔ جو الزام ریفرنس تک میں نہیں لگائے گئے سوشل میڈیا پر پھیلائے گئے۔ کیس لیگل گراونڈ سے نکال کر پبلک ڈومین میں لایا گیا تاکہ فیصلہ جو بھی آئے ان کا شخصی تاثر بگاڑ دیا جائے۔ نتیجہ یہ کہ اب فیصلہ تو حق میں آگیا مگر جسٹس قاضی آج بھی سوشل میڈیا کے کٹہرے میں کھڑے ہیں۔
میں اکثر ان ٹوئٹر اکاونٹس کو یہ سوچ کہ چیک کر لیتی ہوں کہ کیا پتا یہ قاضی فائز عیسیٰ کی فیملی یا قرابت دار کی کوئی گواہی لے آئیں جو یوٹیوبرز کی طرح ’سب سچ بتا دے۔‘ بتا دے کہ کیسے ہوائی جہاز میں بیگ بھر بھر کہ ملکی خزانہ آف شور کمپنیوں کو منتقل کیا گیا۔ مگر وائے وائے۔ گواہی تو تب آتی جب ایسا ویسا کوئی الزام داغا جاتا۔
2014 میں قاضی فائز عیسیٰ کے جج بننے سے قبل ان کے اہل خانہ نے لگ بھگ ۱۱ کروڑ پاکستانی روپے کے عوض فلیٹ خریدے، کچھ تو روشنی ڈالتے کہ قاضی فائز عیسیٰ کا خاندان اپنے ہی پیسوں سے جائیداد خرید کر قوم کا مجرم کیسے بن گیا۔
یہ سارے مل کر دو سال تک قانونی اکڑ بکڑ اور ججز کی اندرونی سیاست پر بےتکان تجزیے دیتے رہے، دماغ کھپاتے رہے۔ عوام کو ٹیکس ریٹرن جمع کرانے کی تکنیک سمجھاتے رہے، یہ بتاتے رہے کہ قاضی اور ان کی بیگم کے پاس فلاں کاغذ نہیں ہے، فلاں اکاونٹ ریکارڈ میں نہیں مل رہا۔
کوئی بھی یہ الزام نہ لگا سکا کہ قاضی فائز عیسیٰ اور فیملی نے قومی خزانہ چرایا، کک بیکس لیے، کرپشن کی، عہدے کا فائدہ اٹھا کر لندن فلیٹ بنائے، ملک کا خون چوس کر اپنے اکاونٹس بھر لیے۔
کیونکہ ریفرنس اس زمانے کی لین دین پر بنایا گیا جب قاضی فائز عیسیٰ نامی پاکستانی کسی عوامی سرکاری پوزیشن پر تھا ہی نہیں کہ ریاست پاکستان کے وسائل یا معاملات میں ہیر پھیر کر پاتا۔
اگر جسٹس قاضی کا عدالتی رویہ جارحانہ، جذباتی ہے، لہجے میں رعونت ہے تو سپریم کورٹ رولز کھنگالیں شاید کوئی تادیبی کارروائی ہو جائے۔ قاضی نے ریاستی اداروں پر جو الزامات لگائے اگر غلط ہیں تو اداروں کو چاہیے کہ قانونی چارہ جوئی کریں اور قاضی کو غلط، جھوٹا، سازشی ثابت کریں۔ اگر کسی یوٹیوبر سے اس کا مذہب پوچھا تو اسے بھی چاہیے عدالت سے ریلیف حاصل کرے۔
جسٹس قاضی کی شخصیت کے تمام جھول قابل اعتراض، قابل مذمت، قابل گرفت سہی مگر یہ مل کر بھی ثابت نہیں کرسکتے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس سچا تھا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کے دعویٰ کی حمایت کرنے والے ججز کو بھی چاہیے کہ اپنی گنتی سیدھی کر لیں، کیا پتہ کل آپ سے سانسوں کا حساب بھی مانگ لیا جائے۔
میر صاحب زمانہ نازک ہے
دونوں ہاتھوں سے تھامیے دستار
اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات مصنفہ کے ہیں ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
یہ بھی پڑھیے:
کامریڈ خدا حافظ۔۔۔عفت حسن رضوی
ابا جان کی نصیحت لے ڈوبی۔۔۔عفت حسن رضوی
ہزارہ: میں اسی قبیلے کا آدمی ہوں۔۔۔عفت حسن رضوی
خاں صاحب! آپ کو گمراہ کیا جارہا ہے۔۔۔عفت حسن رضوی
فحاشی (وہ مضمون جسے کئی بار لکھا اور مٹایا گیا)۔۔۔عفت حسن رضوی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر