نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

آرمی چیف کی خواہش۔۔۔۔||ملک سراج احمد

ملکی سیاسی منظر نامے پر غور کیا جائے تو چیزیں بہت تیزی سے تبدیل ہورہی ہیں۔بظاہر جو بگاڑ نظر آرہا تھا وہ اب آہستہ آہستہ ٹھیک ہوتا نظر آرہا ہے تاہم گزشتہ ڈھائی سال میں جو کچھ ہوا ہے اس کو دوبارہ سے اپنی جگہ پر آنے میں وقت لگے گا

ملک سراج احمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ملکی سیاسی منظر نامے پر غور کیا جائے تو چیزیں بہت تیزی سے تبدیل ہورہی ہیں۔بظاہر جو بگاڑ نظر آرہا تھا وہ اب آہستہ آہستہ ٹھیک ہوتا نظر آرہا ہے تاہم گزشتہ ڈھائی سال میں جو کچھ ہوا ہے اس کو دوبارہ سے اپنی جگہ پر آنے میں وقت لگے گا۔کتنا وقت لگے گا تو اس کا جواب افتخار عارف کے اس شعر سے ملتا ہے کہ
کہانی آپ الجھی ہے کہ الجھائی گئی ہے
یہ عقدہ تب کھلے گا جب تماشہ ختم ہوگا
توسوال یہ ہےکہ کیا تماشہ ختم ہونے جارہا ہے ؟بظاہر جو کچھ ہورہا ہے اس سے تو یہی لگ رہا ہے کہ تماشہ ختم ہونے جارہا ہے اس کی دلیل مریم نواز شریف کا وہ بیان ہے کہ میں چاہتی ہوں کہ حکومت اپنی مدت پوری کرئے تاکہ اس کو سیاسی شہید ہونے کا موقع نا مل سکے ۔اس کیفیت پر بھی افتخار عارف کا شعر پیش خدمت ہے کہ
تماشہ کرنے والوں کے خبر دی جاچکی ہے
پردہ کب گرے گا ، کب تماشہ ختم ہوگا
شاید اسی خبر کو بنیاد بناتے ہوے مدت اقتدار پورا کرنے کا بیان دیا گیا۔موقف دے دیا بات ختم ہوگئی باقی کا کام پارٹی کے موجودہ صدر کے زمہ ہے ۔شہباز شریف نے اندرون لاہور سے اپنی پرواز شروع کی ہے ۔فی الوقت ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے اور سب سے مل رہے ہیں سب کی سن رہے ہیں مگر فی الحال بول نہیں رہے خاموش ہیں۔بات وہ بھی حکومت کی مدت پوری کرنے کی ہی کریں گے مگر مناسب وقت پر اور وہ مناسب وقت بھی قریب ہی ہے باقی سیاسی بیان بازی ان کا حق ہے عوام کی تکالیف کے اوپر وہ ضرور اپنے خیالات کا اظہار کریں گے۔
اپنے خیالات کا اظہار تو قاضی فائز عیسیٰ نے بھی خوب کیا اور اسی سبب کامیاب بھی ہوئے اور دوبارہ سے قاضی کے منصب پر فائز ہوگئے۔چار کے مقابلے میں چھ ججز نے ان کے حق میں فیصلہ دیا اور بلاشبہ اس فیصلے سے ملک کی سیاست پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے ۔یہ فیصلہ بنیادی طورپر حالات کی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوا ہے۔اور ممکنہ تبدیلی کیا ہوسکتی ہے اس کا اندازہ آئندہ کچھ مدت میں عدالتوں میں ہونے والے فیصلوں سے ہوجائے گا۔
فیصلہ توشائد کپتان کے قریب "ترین”سے متعلق بھی ہوچکا ہے اورکپتان کی اُن اراکین اسمبلی سے ملاقات طے ہوگئی ہے جو مشکل ترین حالات میں ڈٹ گئے۔شائد کچھ بہتر ہونے جارہا ہے اس کا اندازہ کپتان کے دورہ ملتان کے دوران مخدوم کی تقریر سے کیا جاسکتا ہے مگر شائد یہ تقریر کافی دیر سے ہوئی جس کی وجہ سے موثر نہیں رہی۔ویسے بھی حقیقت یہی ہے کہ کماو پوت گھر والوں کو عزیز ترین ہوتے ہیں۔
تو عیزیزو کہانی کا خلاصہ یہ ہوا کہ ہر کوئی مطمئن ہے چاہے وہ حکومت میں ہے یا پھر اپوزیشن میں ۔حصہ بقدر جثہ کی پختہ یقین دہانی نے حالات کو نارمل کیا ہے جس کی بنا پر طے ہوا کہ موجودہ حکومت اپنی مدت پوری کرئے گی۔سیاسی محاذ آرائی میں قدرے سکون ملا توآرمی چیف کی سینئر صحافیوں کے ساتھ ایک خفیہ ملاقات جو کہ اب خفیہ نہیں رہی ہوئی ۔سوالات اور پھر ان کے جوابات کا ایک طویل سیشن ہوا۔کھل کر ہر موضوع پر بات ہوئی۔آف دی ریکارڈ بہت کچھ بتایا گیا آن دی ریکارڈ فریقین کی طرف سے گلے شکوے بھی ہوئے مگر خوشگوار ماحول میں۔
سوشل میڈیا کے زریعے اس میٹنگ کا جو حال احوال ملا اس کے مطابق آرمی چیف نے کہا کہ وہ ملک کو نارمل حالات کی طرف لے جانا چاہتے ہیں اور میرے نزدیک اس میٹنگ کا مقصد ہی اس نقطے کی وضاحت تھی۔آرمی چیف کی ملک کو نارمل بنانے کی خواہش بلاشبہ ایک مثبت اور حوصلہ افزا بات ہے۔دوسروں کی جنگوں کے لیے ہم نے جو حال اپنے ملک کا کیا ہے اور جو حشر یہاں کی نسلوں کا ہوا ہے الامان الحفیظ۔کولیشن فنڈز کے حصول کی خاطر جس طرح نوجوان نسل کو شدت پسندی اور انتہاپسندی کے جس بیانیے کے تحت پروان چڑھایا گیا ایسی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔
اگر ملک کے مقتدر حلقے اس پر سوچ رہے ہیں اور اس کو تبدیل بھی کرنا چاہتے ہیں تو اس سے اچھی بات اور کوئی نہیں ہوسکتی۔دیر آید درست آید۔اگر مقتدر حلقے روایتی حریف کے ساتھ معاملات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنا چاہتے ہیں تو اس کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے ۔اس عمل کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے۔کیونکہ طے ہوچکا ہے کہ جنگوں سے مسائل حل نہیں ہوتے اورمہذب اقوام باہمی تنازعات کو بات چیت کے زریعے ہی حل کرتی ہیں۔اور اس رویے کی ضرورت اس وقت بھی زیادہ ہوتی ہے جب جھگڑا دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان ہو۔
ویسے بھی جھگڑا اب بنتا نہیں ہے ۔ایٹم بم سلامتی کی ضمانت تو ہیں مگر معروضی حالات یہ ہیں کہ دونوں ملکوں کی کروڑوں عوام کو پینے کا صاف پانی ، صحت کی سہولیات ، روزگار اور امن وامان نصیب نہیں ہے۔زرعی ملک ہونے کے باوجود دونوں ملکوں کے عوام بھوک سے تنگ آکر خودکشی پرمجبور ہیں۔غربت اور افلاس سے انتہاپسندی جنم لے رہی ہے امن وامان غارت ہوچکا ہے۔ان حالات میں تو ایٹم بم کسی غریب کے دروازے پر بندھا ہوا وہ ہاتھی ہے جس کے کھانے کے گنے ہی پورے نہیں ہورہے۔ان حالات میں کہاں کی دشمنی اور کیسی دشمنی جب کورونا کے سبب شہری سڑکوں پر مررہے ہوں۔
اگرآرمی چیف حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے حالات کو بہتر کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور اسی خاطر جنرل فیض کی اجیت ڈوول کی ملاقاتیں ہوئی ہیں تو یہ بروقت اور مناسب ہے۔اس عمل کی مزید آگے بڑھنا چاہیے اور خطے کے پائیدار امن کے لیے کور ایشوز کو بات زریعے حل ہونا چاہیے۔جنرل صاحب آپ ٹھیک وقت پر ٹھیک سوچ رہے ہیں۔ہمت کریں اور برسوں سے جاری اس تماشے کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔یہ مرحلہ مشکل سہی مگر ناممکن نہیں ہے اور اسی میں کروڑوں انسانوں کی بھلائی ہے انسانیت کی فلاح ہے ۔قوم کو ٹھیک سمت میں لے جانے کے لیے کوشش کریں اللہ آپ کا حامی وناصر ہوگا
براے رابطہ 03334429707
وٹس ایپ 03352644777

ڈانسنگ ایلیفینٹ ۔۔۔ ملک سراج احمد

وہ لڑکی لال قلندر تھی ۔۔۔ملک سراج احمد

حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو ۔۔۔ ملک سراج احمد

بے نظیر بھٹو کی پکار: الوداع پاپا ۔۔۔ملک سراج احمد

عوام کے حق حاکمیت کی فیصلہ کن جنگ۔۔۔ ملک سراج احمد

حضرت خواجہ غلام فرید ؒ – پیلوں پکیاں نی وے، آ چنوں رل یار ۔۔۔ ملک سراج احمد

ملک سراج احمد کے مزید کالم پڑھیے

About The Author