ملک سراج احمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی یہ ایک کہاوت سنی تھی جس کا معانی و مفہوم یہ تھا کہ ایک سرے سے دوسرے تک ہر کام بے ڈھنگا اور عیب ہی عیب ۔اور اس کہاوت کی عملی تفیسر موجودہ حکومت کی تحریک لبیک کے تنازعہ پر دیکھ لی ۔ابتدا سے لے کر انتہا تک یہ معاملہ ہی سمجھ سے باہر ہے پہلے حکومت نے اس جماعت کے ساتھ جان چھڑانے کے لیے معاہدہ کرلیا حالانکہ حکومتیں جان چھڑانے کے لیے کبھی معاہدے نہیں کرتیں اور جو معاہدے کرتی ہیں ان کی پاسداری کرتی ہیں خیرجب معاہدہ پورا کرنے کا وقت قریب آنے لگا تو سعد رضوی کو بظاہر بنا کسی تیاری کے گرفتار کرلیا ۔نتیجہ یہ نکلا کہ پورے ملک میں مظاہرئے شروع ہوگئے اور دیکھتے ہی دیکھتے ملک جام ہوگیا۔تحریک لبیک کے مشتعل کارکنان نے پہلے پولیس کو مارا پھر پولیس نے ورکرز کو چھتر مارنے کی ویڈیوز اپ لوڈ کرکے اپنے مورال کو بلند کیا۔دونوں کام غلط ہوئے نہیں ہونے چاہیے تھے۔
مگر یہ سلسلہ رکا نہیں حکومت نے ورکرز گرفتار کرکے مقدمے درج کرنے شروع کردئیے اور بہت سے ورکرز کو شیڈول چہارم میں ڈال دیا۔حکومت نے سوچا کہ شاید یہ دب جائیں گے مگر ایسا نا ہوا اور انتشار بڑھتاگیا۔ایسے میں لاہور چوک یتیم خانہ پر ہونے والے سانحہ میں حکومت نے اپنی رہی سہی ساکھ بھی گنوا دی۔ایک طرف شیڈول چہارم قرار دئیے جانے والے ورکرز کے ساتھ مذاکرات شروع ہوئے تو دوسری طرف طاقت کا استعمال شروع کردیا گیا۔اور نتیجہ یہ نکلا کہ کچھ لوگ جان کی بازی ہار گئے۔ایسے میں دینی طبقے کی طرف سے سعد رضوی کی حمایت میں اضافہ ہونے لگا ۔حکومت پر دباو بڑھا تو فوری طورپر مذاکرات کی راہ لی اور جیسے تیسے کرکے تحریک لبیک سے معاہدہ طے پاگیا۔اسی دوران وزیراعظم نے بھی اس مسلئے پر خطاب کیا اور قوم کواپنی خود اعتمادی میں کمی کے باوجود اعتماد میں لینے کی کوشش کی
اس سارے معاملے کا اگر بغور جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ حکومت نے جس طرح اس سارے معاملے میں جو رویہ اپنایا ہے وہ سوائے نااہلی اور نالائقی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے اگر حکومت چاہتی تو اس کو بہتر انداز میں بھی ہینڈل کرسکتی تھی مگر بات وہی کہ اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی۔اب صورتحال یہ ہے کہ سانحہ ساہیوال کے بعد سانحہ چوک یتیم خانہ کے داغ بھی حکومت کے دامن پر ہیں اب خدا جانے یہ داغ کیسے دھلیں گے اور زمینی حقائق تو یہ ہیں کہ سانحہ ماڈل ٹاون کے داغ بھی ن لیگ پرسے نہیں دھل سکے تو مطلب یہ کہ موجودہ حکومت کا دامن بھی اب داغدار ہی رہے گا۔ابھی دو سال کی مدت باقی ہے دعا ہے کہ حکومتی دامن مزید داغدار نا ہو ویسے کارکردگی کا عالم یہی رہا تو دامن محض داغدار ہی نہیں تار تار بھی ہونے جارہا ہے۔کیونکہ اسمبلی میں بات جوتا مارنے کی دھمکی تک پہن چکی ہے لہذا صائب مشورہ تو یہی ہے کہ اپنی تردامنی پر توجہ دی جاے
اور زرا سی توجہ اس پر بھی کہ شہبازشریف کی ضمانت بھی ہوگئی ہے ۔اور مریم نواز کی کچھ مدت سے خاموشی کا مطلب یہ کہ اب شہباز ہی پرواز کرئے گا مطلب کہ اب اگلا راونڈ شہباز شریف کھیلیں گے دیکھنا یہ ہے کہ شہباز شریف کھیل کے طے شدہ اصول وضوابط کے تحت کھیلیں گے یا کسی وقت جذبات میں آکر ایسے دستور کو صبح بے نور کو میں نہیں مانتا میں نہیں مانتا گنگنانا شروع کردیں گے ۔لگے ہاتھوں 26 اپریل کو پی ڈی ایم کی اسٹیئرنگ کمیٹی کا اجلاس بھی طلب کرلیا گیا ہے۔اس سے ن لیگ کی مستقبل کی سیاسی سرگرمیوں کا اندازہ ہوجاے گا۔تاہم ایک سوال جس پر سب کی توجہ مرکوز ہے کہ کیا شہبازشریف مفاہمت کی راہ اپنائیں گے یا پھر تصادم کا راستہ اختیار کریں گے ۔
اگر شہبازشریف نے مفاہمت کی راہ اپنائی تو پھر مریم نواز نے اینٹی اسٹیبلشمنٹ پالیسی اپنا کر جن لیگی ورکرز کو چارج کیا تھا ان کا کیا بنے گا۔کیا ن لیگی ورکر مفاہمت کے بیانیے پر خاموشی اختیار کرلے گا ۔کیا شہبازشریف کی ممکنہ مفاہمت نوازشریف اور مریم نواز کے لیے قابل قبول ہوگی۔کیا حکومتی کارکردگی ایسی ہے کہ اس پر مفاہمت کی جاسکے، خاموش رہا جاسکے۔اوراگر شہبازشریف تصادم کی راہ اپناتے ہیں تو ان کا سیاسی مستقبل کیا ہوگا۔کیونکہ فی الوقت تو نوازشریف اور مریم نواز دونوں قانونی طورپر نااہل ہوچکے ہیں لہذا ن لیگ کی کشتی کو کنارے لگانے کے لیے بہرحال شہبازشریف کو ناخدا بنانا پڑے گا۔ہر دوصورتوں میں شہبازشریف کے لیے ایک مشکل سیاسی وقت شروع ہوچکا ہے۔تاہم حکومتی کارکردگی کودیکھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ شہبازشریف کبھی نرم کبھی سخت پالیسی اپناتے ہوے نوازشریف کے لیے سہولتیں حاصل کرلیں گے۔
مشکل وقت تو حکومت کے لیے کورونا کی حالیہ لہر کی وجہ سے بھی چل رہا ہے۔این سی او سی کے سربراہ وفاقی وزیر براے منصوبہ بندی اسد عمر کا کہنا ہے کہ ملک میں کورونا کی مثبت شرح 38فیصد تک پہنچ چکی ہے اور کیسز کی شرح اسی طرح بڑھتی رہی تو بڑے شہروں کو بند کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا۔بلاشبہ یہ شرح جس تیزی سے بڑھ رہی ہے اس پر حکومت کو فوری اور سخت فیصلے کرنے چاہیں تاکہ اس کی روک تھام کی جاسکے۔
حرف آخر کہ ہندوستان سے تعلق رکھنے والے عالم اسلام کے ممتاز عالم دین مولانا وحیدالدین خان 96 برس کی عمر میں دہلی کے ایک نجی ہسپتال میں کورونا کے سبب علالت کے بعد انتقال کرگئے ۔پانچ زبانوں پر عبور رکھنے والے مولانا وحید الدین خان نے دو سو سے زائد اسلامی کتب تصنیف کی ہیں ان کی علمی خدمات کے پیش نظر بھارتی حکومت نے انہیں دوسرے اعلیٰ ترین سول ایوارڈ پدماوی بھوش سے نوازا۔مولانا وحید الدین خاں کی خودنوشت تحریروں پر سوانح عمری اوراق حیات بھی شائع ہوچکی ہے ۔12 مئی 1989 کو حکومت پاکستان نے ان کی کتاب پیغمبر انقلاب پر پہلا بین الاقوامی انعام دیا۔مسلمانوں اوردیگر مذاہب کے مابین ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کرنے والے اور دانشورطبقہ کے نزدیگ امن پسند مانے جانے والے مولانا وحیدالدین خان کی خدمات کو دنیا کبھی فراموش نہیں کرسکے گی۔
براے رابطہ 03334429707
وٹس ایپ 03352644777
ڈانسنگ ایلیفینٹ ۔۔۔ ملک سراج احمد
وہ لڑکی لال قلندر تھی ۔۔۔ملک سراج احمد
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو ۔۔۔ ملک سراج احمد
بے نظیر بھٹو کی پکار: الوداع پاپا ۔۔۔ملک سراج احمد
عوام کے حق حاکمیت کی فیصلہ کن جنگ۔۔۔ ملک سراج احمد
حضرت خواجہ غلام فرید ؒ – پیلوں پکیاں نی وے، آ چنوں رل یار ۔۔۔ ملک سراج احمد
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر