محمود جان بابر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستانی سیاست بھی کیا خوب ہے کہ ہر کوئی چاہتا ہے کہ عوام کے مسائل اگر حل ہونے ہیں تو صرف ان ہی کے ذریعے ہوں اوراگر ان مسائل کے حل کا ذکر ہونا ہے تو انہی کے حوالے سے ہو تاکہ ان کا کریڈٹ بھی انہیں ہی ملے وہ چاہتے ہیں ہر بیماری ختم ہونی ہو تو اس کے علاج کے لئے لوگوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ یہ صرف انہی کے ذریعے ممکن ہوسکا ہے ہمارا المیہ ہے کہ حکومت چاہے موجودہ ہو یا سابقہ سب کی ایک ہی خواہش ہوتی ہے کہ اگر کوئی اچھا کام ہو رہا ہوتو اس کے لئے ان کا ذکر ضرور ہونا چاہیے۔
اب یہی دیکھ لیں چند ماہ قبل جب پاکستان میں حکومت اوراپوزیشن کا کھڑاگ شروع ہوا تواس میں جس بات کا سب سے زیادہ ذکر یا پروپیگنڈا کیا گیا وہ یہی تھا کہ موجودہ حکومت اپنی خارجہ پالیسی کے ذریعے چین کو ناراض کر بیٹھی ہے اوراسی وجہ سے وہ سی پیک پر کام بند کرنے کے قریب پہنچ چکا ہے، کہنے کو تو یہ ایک سیاسی بیان تھا جس کا مقصد عمران خان کی حکومت کو خارجہ محاذ پر ناکام قراردے کر یہ ثابت کرنا تھا کہ وہ اس کامیاب منصوبے کو بھی لے ڈوبی ہے یہ خبریں پڑھنے والوں میں وہ لوگ زیادہ پریشان تھے جنہیں سی پیک اوراس سے منسلک ترقیاتی کاموں کا تھوڑا بہت بھی ادراک تھا۔
حکومت بھی اس معاملے پر کوئی زیادہ توجہ نہیں دے رہی تھی جس سے ان پاک چین تعلقات کے خیرخواہوں کے دلوں کا ہولنا کم نہ ہوسکا۔ وقت گزرتا گیا اورپھر اچانک چند دن پہلے پاکستان میں تعینات چین کے نئے سفیرنونگ رونگ نے اپنے پیش رو ہی کی طرح سی پیک کے حوالے سے سب سے زیادہ اہم صوبہ خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور کا دورہ کیا یہاں پر ہر اس مکتبہ فکر کے لوگوں سے ملاقات کی جو ان کے پیش رو اس وقت کیا کرتے تھے جب پاکستان اورچین کے تعلقات کی اڑتی گڈی (پتنگ) ابھی سیاسی تنقید کی زد میں نہیں آئی تھی۔ چینی سفیر کے اس دورے نے جہاں اورمقاصد حاصل کیے ہوں گے وہی پر اس نے سی پیک سے منسلک ترقی کے خواب دیکھنے والے عوام کی آنکھوں میں پھر سپنے سجا دیے ہیں کہ بات اتنی بھی نہیں بگڑی جتنی کہی جا رہی تھی۔
خصوصاً جب پشاورکے چائنا ونڈو میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے چینی سفیر مسٹرنونگ رونگ نے اس بات کا اعلان کیا کہ سی پیک کے پراجیکٹس پر کام پوری تیزی سے جاری ہے ان کے اس اعلان نے بھی خوشگوار حیرت میں اضافہ کیا کہ سی پیک کے تحت پاکستان میں بننے والے توانائی کے تمام منصوبے مکمل ہو چکے ہیں اورچین نے پاکستان کو کرونا کی وبا کے دوران اس کی ضرورت کی ایک تہائی بجلی کم ترین قیمت پر فراہم کی۔ انہوں نے لاہور میں چلنے والی اورنج لائن میٹرو کو بھی سی پیک ہی سے متعلق منصوبہ قراردیا اوراس وقت تو ہمیں یقین ہی ہو گیا کہ پاکستان میں سیاسی جماعتوں اوردنیا میں پاک چین مخالفین کے تمام تر بیانات کے باوجود سی پیک پر جاری تمام اہم ترین کام کبھی نہیں رکے جس کی ایک واضح مثال چینی سفیر کا وہ بیان تھا کہ پاکستانی بندرگاہ گوادر کے ذریعے افغانستان کا کارگو کا کچھ سامان بھی لایا جا چکا ہے۔ سمجھنے والوں کے لئے ان تمام باتوں میں بہت ساری نشانیاں ہیں۔
چینی سفیرنے وزیراعلی محمود خان سے ملاقات میں انہیں چین کی جانب سے ضلع خیبر میں لڑکوں اورلڑکیوں کے پچاس ایسے سکولوں کی مکمل تعمیر کرنے کے اقدام سے آگاہ کیا جو دہشت گردی کے دوران تباہ ہوئے تھے۔
چین کا سفیر یوں تو ہمارے لئے ایک مہمان ہی تھا اوراس کا مطمح نظر صرف اس کے ملک کا مفاد ہونا چاہیے تھا لیکن اس سے ایک قدم آگے جا کر مسٹر نونگ رونگ نے جس طریقے سے پاکستانی تاجروں پر زور دیا کہ وہ کسی کا انتظار کرنے کی بجائے خود آگے بڑھیں اوران کے ملک کے تجربے سے فائدہ اٹھائیں اوروہاں پر کاروبار میں بھی سرمایہ کاری کو بڑھائیں تاکہ وہ مکمل شراکت داری کے عمل کا حصہ ہوں اورپاکستان میں مختلف شعبوں میں ہونے والی سرمایہ کاری میں بھی شامل ہوں۔
پاکستان چین فرینڈ شپ ایسوسی ایشن کے ساتھ ایک مختصرنشست میں چینی سفیر اورصوبے کے وزیر بلدیات اکبر ایوب کے علاوہ دیگر شخصیات نے شرکت کی چینی سفیرنے شجرکاری مہم میں بھی حصہ لیا۔ اس موقع پر چینی سفیر کو بتایا گیا کہ پشاور کو چین کے شہر ارومچی اورایبٹ آباد کو چین کے شہر کاشغر سے جڑواں شہرقراردیے جانے کا ذکر کرتے ہوئے ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری علی نواز گیلانی نے بتایا کہ بالترتیب 1985 اور 2007 میں یہ پیش رفت ہوئی تھی جس سے دونوں ملک بہت قریب آئے تھے۔
اس موقع پر ایک سوال کے ذریعے جب چینی سفیرکی توجہ مغربی میڈیا میں چین کے اندرسنکیانگ میں مسلمانوں کے ساتھ مبینہ رویے کی جانب دلائی گئی تو چینی سفیر نے کہا کہ کرونا سے متاثرہ ان حالات میں بہتری آتے ہی ان کی کوشش ہوگی کہ پشاور کے صحافیوں کو ان علاقوں کا دورہ کرایا جائے تاکہ اس حوالے سے معلومات کی کمی سے پیدا شدہ صورتحال کا سدباب کیا جا سکے۔
یہ بھی پڑھیے:
افغانستان، جنگ کے پلٹتے سائے۔۔۔ محمود جان بابر
کانچ کا وجود اور پتھر سے دشمنی۔۔۔ محمود جان بابر
پاکستان میں افغانوں کے چالیس سال ۔۔۔ محمود جان بابر
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر