دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

علمائے کرام کی ہر بات کی عمر 20 سال کیوں ہوتی ہے؟||شرافت رانا

اگر سرسیداحمدخان پیدا نہ ہوتا اور انڈیا میں مسلمان علماء کرام ہجرت اور جہاد پر لگے رہتے اور آج ہندوستان اور پاکستان میں ایک مسلمان باقی نہ بچتا یہ سب کو قتل کروا کر چھوڑتے ۔
علمائے کرام کی ہر بات کی عمر 20 سال کیوں ہوتی ہے۔20 سال بعد انہیں رجوع کرنا پڑتا ہے ۔
ڈھٹائی اور بے شرمی سے رجوع کرتے ہیں۔ ٹی وی کا معاملہ ہی دیکھ لو جب تک ان کی دسترس میں نہیں تھا گناہ کبیرہ تھا۔
جب موبائل فون میں ویڈیو ریکارڈنگ آگئی تو کسی بھی ملا کیلئے یہ گناہ نہیں ہے ۔
افغان جہاد میں لاکھوں مروائے پاکستان تباہ کروایا۔
کل کی بات ہے ۔
ہر ملا دوسرے فرقہ کو کافر کہتا ہے ۔ کیا اس بات کو دنیا میں کوئی دیگر ریاست مان لے گی ۔
ریل گاڑی کے لیے کیا کیا فتویٰ نہیں دیا گیا۔
ادویات اور خصوصی طور پر پولیو ویکسین کے لیے کیا کیا بیہودہ اور احمقانہ فتاوی نہیں دیے گئے گئے۔
اگر سرسیداحمدخان پیدا نہ ہوتا اور انڈیا میں مسلمان علماء کرام ہجرت اور جہاد پر لگے رہتے اور آج ہندوستان اور پاکستان میں ایک مسلمان باقی نہ بچتا یہ سب کو قتل کروا کر چھوڑتے ۔
فہم عمومی یعنی کامن سینس کی کوئی بات نہیں سمجھ نہیں آتی ۔
احمقانہ اور بچپنے والی باتیں کرتے رہتے ہیں ۔منبر رسول ص پر بیٹھ کر بلاتکان جھوٹ بولتے چلے جاتے ہیں۔
باقی اپنا تعارف کروا دو مذہبی علوم میں آپ کے سب سے بڑے عالم کا بھی باپ ہوں۔
حافظ ہوں عالم ہوں اور مفتی ہوں ۔ مگر دین فروش نہیں ہوں ۔
دین کی نسبت کو لوگوں کی گردن میں پٹہ ڈال کر عزت نہیں کمانا چاہتا۔ لوگوں کو غلام بنانے پر یقین نہیں رکھتا
سب لوگوں کی عزت کرتا ہوں۔ چونکہ آپ جیسے جہلا کو ایکسپوز کرتا ہوں۔ تو جواب میں آپ کے پاس ایک ہی ڈائیلاگ ہے کہ آپ کے پاس اللہ کی دی ہوئی ایک مہر ہے جو آپ لگاتے ہیں تو کسی کو مسلمان کہا جا سکتا ہے بصورت دیگر نہیں ۔
خناس ہی خناس بھرا ہے ۔ عام انسان کی طرح نہ آپ گفتگو کر سکتے ہیں۔ نہ دلیل دے سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے:

مقبول بیانیہ یا بنائی گئی پرسیپشن۔۔۔قانون فہم

قومی اردو میڈیا اور احساس محرومی۔۔۔قانون فہم

تاریخ بدل دینے والے سوشل سائنٹسٹ کے جنم دن پر۔۔۔ قانون فہم

سرے محل بینظیر کا تھا۔ آپ کو ننانوے فیصد یقین کیوں ہے؟۔۔۔قانون فہم

شرافت رانا کی مزید تحریریں پڑھیں

شرافت رانا کے تجزیے اور تبصرے سُنیے

 

About The Author