گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
.
٫٫
1۔ مسلسل معاشی بد حالی جمہوریت کو نقصان پہنچاتی ھے جبکہ معاشی خوشحالی آمریت کو بھی قابل قبول بنا دیتی ھے ۔ اس بات کا ادراک اب دنیا کے تمام لوگوں کو ھے یہی وجہ تھی کہ ترکی کے طیب اردگان نے 23 ارب ڈالر کے بیرونی قرضے اتار کر اپنی قوم کو آزادی کی آکسیجن فراھم کی اور کئ سالوں تک آمریت کی گود میں پلنے والی قوم جمہوریت کی خاطر ٹینکوں کے نیچے لیٹ گئ ۔
2۔ پاکستان کا سفر جمہوریت سے شروع ہوا لیکن یہ سفر غیر یقینی رہا ۔ مازشلاوں کی مداخلت کے باوجود ایڈمنسٹریٹرز ہمیشہ جمہوریت ہی کی بحالی کا وعدہ کرتے یا کسی شکل میں نافذ کرتے رھے کیونکہ قوم کا مزاج جمھوریت ھے ۔
3۔صدر ایوب کے بعد بدقسمتی سے جو سیاستدان بر سر اقتدار رھے وہ مارشلا کی کوکھ سے نکلے اور وہ اس بات کا ادراک ہی نہیں کر سکے کہ معاشی طور پر کمزور ریاستوں کی قومی سلامتی اور خود مختاری کے حوالے سے فیصلہ سازی کی قوت کمزور ہو جاتی ھے ۔
4۔ سیاستدان اور حکمران ہمیشہ نعروں کو حکمرانی کا فارمولا بناتے اور معیشت کی طرف توجہ نہیں دیتے ۔ ایسے منصوبے شروع کئے گئے جن سے عوام کا مفاد کم اور ان کا کمیشن زیادہ بنتا ۔ عوام کی بنیادی ضرورتوں تعلیم صحت روزگار انصاف کرپشن کا خاتمہ پینے کا صاف پانی جیسے مسائل سے چشم پوشی کر کے اپنے بیرون ملک اکاٶنٹ مضبوط کئے گئے۔ ملک اس وقت 115 ارب ڈالر کا مقروض ھے مگر لوٹ مار ھے کہ دن بدن بڑھ رہی ھے ۔
6۔ دلچسب بات یہ ھے کہ پچھلے 72 سالوں میں اندرونی اور بیرونی بھیانک حالات کے باوجود حکمرانوں نے کوئ سبق نہیں سیکھا اور وہی روش جاری ہے۔
7۔ اب یہ بات اہم ھے کہ معاشی سلامتی ہی ریاست کی سلامتی ھےاگر ملک میں غربت جہالت بھوک نا انصافی جاری رہتی ھے تو پھر دشمنوں کو آپ کی صفوں سے غدار آسانی سے مل جاتے ہیں ۔
بھائیو خدا کا خوف کرو ۔نعرہ بازی ۔polirazation ۔ فرقہ واریت۔ناانصافی کو ختم کرو ملک میں وسائل بہت ہیں آزادی کی قدر کرو۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر