نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

وزیروں کی تبدیلی اور حوالدار کے پکوڑے|| محمود جان بابر

اس حکومتی فیصلے کو تینوں وزرا اور ان کے بعض پس پردہ ساتھیوں کے سیاسی کیرئیر کے خاتمے سے تعبیر کیا گیا لیکن پھر حالات نے پلٹا کھایا اور پلوں کے نیچے سے کچھ پانی بہہ جانے کے بعد یہ تینوں وزرا اب واپس صوبائی کابینہ کا حصہ ہیں۔

محمود جان بابر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

.

اپنے پسندیدہ شاعر احمد فراز کے فرزند شبلی فراز کو جب بھی باضابطہ سیاست کے بعد ان کے لئے مشکل ترین کام یعنی وزارت اطلاعات چلانے (حکومتی اقدامات کا دفاع کرنے ) میں لتھڑتے دیکھا افسوس ہی ہوا کہ اس کام کے لئے کیا مس فٹ بندہ ہے؟ کہاں آ پھنسا ہے؟ اتنی محنت کرنے کے بعد بھی اب خبریں گرم ہیں کہ شاید ان کو بدلنے کا موسم ہو چلا ہے۔ اپنی وزارت اطلاعات کے اس سارے عرصے میں میڈیا کو جوابات دیتے ہوئے ان کے منہ کے جو زاویے بنتے دیکھے اتنے شاید ہی کبھی دیکھے تھے۔ کبھی کبھی تو بہت واضح لگتا تھا کہ انہیں خود بھی اپنے جواب پر یقین نہیں ہے اور ان کے الفاظ اور زبان ایک دوسرے کا ساتھ نہیں دیتے تھے لیکن چونکہ ان کا کام ہی حکومت کا دفاع کرنا تھا تو وہ ایسا کرتے رہے۔

شنید ہے کہ ان کی جگہ ایک بار پھر فواد چوہدری وزارت اطلاعات کا قلمدان سنبھالنے والے ہیں، ہاں وہ اس کام کے لئے ایک بہت موزوں امیدوار ہیں کہ ایک تو ان کا منہ حکومتوں کے دفاع کرتے کرتے ایسا ٹیون ہو چکا ہے کہ ان سے کچھ بھی کہنے کی توقع کی جا سکتی ہے۔ پاکستان میں وزارت اطلاعات انہی کے ساتھ جچتی ہے جو ہر قسم کی بات کہہ سکیں اور اس سے خود انہیں بھی کوئی فرق نہ پڑے۔ ویسے بھی فواد چوہدری میں ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ اپنے بارے میں سچ بولنے اور اپنی حکومت کے بارے میں سچ کو تسلیم کرنے سے بھی نہیں کتراتے۔

خیبرپختونخوا میں بھی پھر دوبارہ چار وزیر کابینہ کا حصہ بن گئے ہیں ان میں سے دو عاطف خان اور شکیل خان تو وہ تھے جو گزشتہ سال جنوری کے اواخر میں اپنے ایک اور ساتھی شہرام ترکئی کے ساتھ اکٹھے ہی کابینہ سے نکال لئے گئے تھے۔ ان کے بارے میں یہ تاثر تھا کہ وہ موجودہ وزیراعلی محمود خان کے خلاف گروپ بندیوں اور انہیں کمزور کرنے میں ملوث تھے اور اس مقصد کے لئے وہ پارٹی ایم پی ایز کو اپنا ہم نوا بنا رہے تھے۔ ایک ہی نوٹیفکیشن میں تین وزرا کو نکالنے کا حکومت پر اثر ہو ناں ہو لیکن عوامی سطح پر پارٹی کارکن پر ضرور ہوا جن پر سب سے زیادہ بوجھ تھا کہ وہ عوام کو پارٹی کی حکومت کی کارکردگی اور مشکلات کے بارے میں کیا جواب دیں اور یہی وہ وقت تھا جب انہوں نے اس حکومتی اقدام کو فخر کے طور پر کیش کیا کہ یہ کام صرف تحریک انصاف ہی کر سکتی ہے۔

اس حکومتی فیصلے کو تینوں وزرا اور ان کے بعض پس پردہ ساتھیوں کے سیاسی کیرئیر کے خاتمے سے تعبیر کیا گیا لیکن پھر حالات نے پلٹا کھایا اور پلوں کے نیچے سے کچھ پانی بہہ جانے کے بعد یہ تینوں وزرا اب واپس صوبائی کابینہ کا حصہ ہیں۔

اس سارے عمل میں کچھ ہو نا ہو ایک معاملے پر تشنگی اب بھی برقرار ہے کہ اگر یہ تینوں وزرا عاطف خان، شہرام خان اور شکیل خان غلط تھے اور ان کو نکال کر اصولوں پر مبنی اقدام کیا گیا تھا تو ان کو ان غلط کاموں کی کیا سزا مل سکی ہے اور کس کس عمل سے ان کو گزار کر واپس لایا گیا ہے اور اگر وہ غلط نہیں تھے تو ان کے بارے میں غلط رپورٹ دے کر ان کو نقصان پہنچانے والے کے ساتھ کیا عمل ہوا؟ وہ کارکن جو ان وزرا کے نکالے جانے پر عوام کے بیچ سینہ تان کر اپنی پارٹی کو سب سے بہتر پارٹی ثابت کرنے کی کوشش کرتے تھے ان کارکنوں کو کون جواب دے گا کہ ان کی پارٹی ان تینوں کو واپس کیوں لائی اور ان تینوں کے علاوہ وفاقی وزیر علی امین گنڈاپور کے بھائی فیصل امین گنڈاپور کو بھی صوبائی کابینہ میں کیوں شامل کیا گیا ہے؟

موروثی سیاست کی مخالفت کے نام پر وجود میں آنے والی جماعت تحریک انصاف کی کیا مجبوریاں ہیں کہ وہ سزایافتہ لوگوں کو واپس لانے پر مجبور ہے اور ایک بھائی کو وفاق اور دوسرے کو صوبے میں کیوں وزارتیں دے رہی ہے؟ کیا اس حوالے سے وزیردفاع پرویز خٹک کے ہاں کیا جانے والا تجربہ کافی نہیں تھا؟ پارٹی نے اے این پی اور جمعیت علما اسلام ف سے ہوتے ہوئے تحریک انصاف میں پہنچنے والے فضل شکور کو بھی وزیر بنا دیا ہے جو اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ تحریک انصاف کے پاس یا تو وزارتوں میں لانے کے لئے اپنے لوگ نہیں ہیں یا جو ہیں بھی تو اسے ان پر اتنا اعتماد نہیں ہے کہ وہ کسی کام کے ہیں۔

وزرا کی تبدیلی کے اس سارے عمل کا ایک اور پہلو تکنیکی بھی ہے اس پہلو پر آنے سے پہلے میں ایک واقعہ لکھنا چاہوں گا تاکہ آپ کو وضاحت کے ساتھ معاملے کا علم ہو سکے۔

فوج کے ترجمان ادارے سے کافی عرصے تک وابستہ کرنل اشفاق حسین اپنی کتاب جنٹل مین الحمد للہ میں لکھتے ہیں کہ ایک بار ان کی تعیناتی گلگت کے کسی دوردراز پہاڑی علاقے میں اس وقت ہوئی جب برفباری کے باعث راستے چھہ ماہ سے زائد کے لئے بند ہوچکے تھے۔ اسی دوران رمضان کا مہینہ آیا تو یونٹ کے لوگوں نے رمضان کے لئے دستیاب وسائل سے مینو تشکیل دینا شروع کیا کہ کس کس دن افطاری اور سحری میں کیا کیا پکایا جائے گا۔

میٹنگ شروع ہونے سے پہلے ان کو بتایا گیا کہ میس میں صرف آلو، بیسن اور مٹر ہی موجود ہیں اور پہلے دن کی افطاری کا وقت آیا تو یہ فیصلہ ہوا کہ اس سامان سے پکوڑے پکائے جائیں، دوسرے دن کی افطاری کا پھر ذکر آیا تو پوچھا گیا کہ اب کیا پکایا جائے تو بتایا گیا کہ پکوڑے ہی بہتر ہوں گے اس طرح ہوتے ہوتے جب کئی دن کی افطاری کے لئے اس سامان سے پکوڑے ہی بنانے کی بات ہوتی رہی تو یونٹ افسر کو غصہ آ گیا کہ اس طرح تو لوگ پکوڑے پکاتے پکاتے اکتا جائیں گے تو معصوم صورت میس حوالدار نے سیلوٹ مار کر کہا کہ سر جب آپ کے پاس پکانے کو صرف آلو، بیسن اور مٹر ہوں گے توان سے تو صرف پکوڑے ہی بنیں گے ناں، اور اس کے ساتھ ہی اجلاس ملتوی کر دیا گیا۔

یہی حال عمران خان صاحب اور صوبوں میں ان کی حکومتوں کا بھی ہے کہ وہ چاہے کچھ بھی کر لیں ان کے پاس دستیاب ایم پی ایز اور پھر ان میں وہ ایم پی ایز جن کو ہر صورت وزارتوں میں رکھنا ہوتا ہے سے جو بھی کام لینے کی کوشش کریں گے ان سے وہی کچھ حاصل ہوگا جو اب تک ان حکومتوں سے حاصل ہوسکا ہے۔

بات سیدھی ہے کہ آپ کچھ بھی کر لیں جب تک اوپر سے کمپنی یعنی پارٹی کا پروگرام اور سربراہ کے پاس ویژن ہی وہی ہوگا جو چلا آ رہا ہے تو ان استعمال شدہ وزرا کو ہی آگے پیچھے کرنے سے کوئی کیا نئے نتائج حاصل کرسکے گا؟

یہ بھی پڑھیے:

افغانستان، جنگ کے پلٹتے سائے۔۔۔ محمود جان بابر

کانچ کا وجود اور پتھر سے دشمنی۔۔۔ محمود جان بابر

پاکستان میں افغانوں کے چالیس سال ۔۔۔ محمود جان بابر

محمود جان بابر کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author