فہمیدہ یوسفی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بڑے فخر سے جہانگیر ترین نے کہا تھا کہ عمران خان ان کا مشورہ بہت غور سے سنتے ہیں۔ ’یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے کیونکہ عمران خان اس ملک کا مستقبل اور آخری امید ہیں۔ اس لحاظ سے اس ملک کی بہت بڑی ذمہ داری مجھ پر عائد ہوتی ہے۔‘
پاکستان تحریک انصاف میں حرف آخر کی حیثیت رکھنے والے عمران خان کے سب سے محبوب ترین جہانگیرترین اب نہ حرف آخررہے نہ قریب ترین ۔
جس کو ہاتھ لگادیا سونا کردیا ملک کے کامیاب ترین جہانگیرترین جن کی کاروباری کامیبایوں کی نظیر ملنا مشکل ہی ہے۔ تاہم ان کی کاروباری کامیابیاں اپنی جگہ لیکن ان کا شمار ہمیشہ ہی پاکستان کی متنازعہ ترین سیاسی شخصیات میں کیا جاتا ہے۔ محتاط اندازوں کے مطابق جہانگیر ترین جنوبی پنجاب سے سندھ تک 45 ہزار ایکڑ زمین ہے۔
اب ذرا نظر ڈالتےہیں وسیع و عریض زرعی اراضی، جدید ترین ڈیری فارمنگ یونٹس، متعدد شوگر ملوں اور پاور جنریشن پلانٹس پر مشتمل ترین فیملی ملک کے چند بڑے صنعتی گروپس میں شمار بااثر ترین جہانگیر ترین کے کامیاب لیکن متنازعہ سیاسی کئیریر پر
جہانگیر ترین سب سے پہلے مسلم لیگ ق میں شامل ہوئے اور 2002 کے انتخاب میں قومی اسمبلی کے لودھراں سے رکن منتخب ہوئے۔ انھیں وفاقی وزیر بننے کی پیشکش ہوئی جسے انھوں نے ٹھکرا دیا کچھ عرصے بعد وہ وزیر اعظم شوکت عزیز کےوزیر صنعت و پیداوار بن گئے2008 میں وہ اپنے ایک اور رشتہ دار پیر صاحب پگارا کی مدد اور ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے رکن بن گئے۔
2011 میں انھوں نے درجن بھر ’ہم خیال‘ ارکان اسمبلی کو اکٹھا کیا اور ایک مضبوط سیاسی پریشر گروپ کے طور پر ابھر کر سامنے آئے اور سب اندازوں کو غلط ثابت کرتے ہوئے جہانگیر ترین عمران خان کی تحریک انصاف میں شامل ہو گئے ۔
پاکستان تحریک انصاف میں ان کی آمد اور پھر اہم ترین عہدے تک ترقی بھی ان اثرورسوخ کی مرہون منت رہی ۔ سنہ 2015 میں پی ٹی آئی میں پارٹی انتخابات کروانے والے پارٹی رہنما جسٹس وجیہہ الدین احمد نے الزام لگایا کہ جہانگیر ترین نے دولت کے بل پر پارٹی انتخابات میں دھاندلی کی کوشش کی ہے۔ عمران خان نے جسٹس وجیہہ کی بات سنی ان سنی کر دی جس پر جسٹس صاحب پی ٹی آئی سے علیحدہ ہو گئے۔
جہانگیر ترین کے مشورے سننے عمران خان کی ایک طرح کی مجبوری تھی ایک وقت تھا عمران خان دن کا سب سے زیادہ وقت جہانگیر ترین کے ساتھ گزارتے تھے
تاہم جہانگیر ترین کے نااہل قرار ہونے کے بعد سے ہی جہانگیر ترین کا اثر ورسوخ عمران خان پر کم ہونے لگا تھا دوسری جانب اسلام آباد میں تحریک انصاف کے طاقتور ستونوں جن میں اعظم خان ، شہزاد اکبر اور اسد عمر شامل ہیں ان سے جہانگیر ترین کی نہیں بنتی اور کہنے والے کہتے ہیں کہ اس لابی کی وجہ سے جہانگیر ترین اور عمران خان میں فاصلے آگئے ۔
جہناگیر ترین کو پہلا جھٹکا
اس وقت لگا جب صوبہ پنجاب کا وزیر اعلیٰ ان کی مرضی کے بغیر لگ گیا۔ رہی سہی کسر شوگر اسیکنڈل نے پوری کردی شوگر سکینڈل کے بعد جب بیرون ملک گئے تو ان کی عمران خان سے ملاقاتیں اور بات چیت بند تھی مگر بیرون ملک قیام کے دوران ان کا عمران خان سے رابطہ بحال ہو گیا تھا۔ تاہم وطن واپسی کے بعد بھی ملاقاتوں کا سلسلہ بحال نہ ہوسکا اور دل میں پڑی کھٹاس دور نہ ہوسکی ۔ شوگر ملز کیسز میں پیشی کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہان تھا کہ ’ان کے خلاف جو انتقامی کارروائی کی جا رہی ہے، اب وقت آ گیا ہے کہ اسے بے نقاب کیا جائے۔‘
’ہم تو تحریک انصاف سے انصاف مانگ رہے ہیں۔ میں تو دوست تھا۔ مجھے دشمنی کی طرف کیوں دھکیل رہے ہو؟ میں تو دوست تھا، دوست ہی رکھو۔‘
جبکہ جہانگیر ترین نے سیاسی دعوت کا اہتمام کرکے اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کر دیا ہے۔ اس دعوت میں رپورٹس کے مطابق تقریباً 30 ارکان قومی و صوبائی اسمبلی شریک ہوئے، جن میں سے کچھ وزیر اعلیٰ پنجاب کے وزرا اور مشیران بھی تھے۔ یہ اس طات کی طرف بھی واضح اشارہ ہے کہ اگر اب بھی جہانگیر ترین کی بات کو نہ سنا گیا تو بیساکھیوں پر کھڑی پنجاب حکومت کو گرانے میں جہانگیر ترین زیادہ وقت نہیں لگے گا اور تحریک انصاف میں بنتے فاورڈ بلاک پر سب کی نظریں ٹکی ہیں
تاہم اس تماترصورتحال میں ایک شعر یاد آگیا جو حسب حال ہے
بس ایک شام بڑی خاموشی سے ٹوٹ گیا
ہمیں جو مان تیری دوستی پر رہتا تھا.
یہ بھی پڑھیے:
لینڈ مافیا نے سمندر کو بھی نہیں چھوڑا مینگرووز خطرے میں|| فہمیدہ یوسفی
پاکستان کا سمندری نمک بہترین زرمبادلہ ثابت ہوسکتا ہے۔۔۔ فہمیدہ یوسفی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر