نومبر 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

آبروریزی: تقسیم کے فسادات میں فحاشی کی تلاش||ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

ہمیں نیلم کی تحریر یوں یاد آئی کہ حال ہی میں اہل اقتدار نے مذہبی پرچاریوں کے زیر اثر، خود ساختہ خیال و فکر اور ذاتی تعصبات کی بنیاد پہ جنسی تشدد کا سبب فحاشی بیان کیا ہے!

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نیلم احمد بشیر کے قلم کی کاٹ سہنا اہل درد کے لئے قطعی آسان نہیں!

” اس نے تو کبھی سلطانہ کے چہرے کو بھی نظر بھر کے غور سے اچھی طرح مکمل طور پر دیکھا نہیں تھا۔ کہاں یہ کہ وہ اس کے سامنے مکمل طور پر بے لباس پڑی تھی۔ متوحش آنکھوں والی خوف سے لرزتی ہوئی منہ سے عجیب سی خرخر کی سی آوازیں نکالتی یہ غیر انسانی دکھتی مخلوق کیا وہی تھی؟

خون آلود ٹوٹے ہوئے پروں والے کسی فرشتے کو اس نے اس سے پہلے تو کبھی نہیں دیکھا تھا۔ سلطانہ کی چھاتیوں کی جگہ اب خوفناک سوراخ تھے۔ اس کی ٹانگوں کے بیچ سے آگ کا سرخ دریا بہہ کر ٹانگوں کو رنگتے ہوئے خشک ہوتا دکھائی دیتا تھا”

(افسانہ، قیمتی- وحشت ہی سہی)

ہمیں نیلم کی تحریر یوں یاد آئی کہ حال ہی میں اہل اقتدار نے مذہبی پرچاریوں کے زیر اثر، خود ساختہ خیال و فکر اور ذاتی تعصبات کی بنیاد پہ جنسی تشدد کا سبب فحاشی بیان کیا ہے!

کیا ہی ستم ہے کہ مرد کی کوتاہیوں اور وحشتوں کا بوجھ اسی کے کندھوں پہ لاد دیا گیا ہے جو پہلے سے ہی ستم گزیدہ اور زخموں سے چور چور ہے۔ انصاف کی زنجیر انصاف طلب کرنے والی ہی کے قدموں میں باندھ دی گئی ہے۔ اگر کوتاہ بین اہل اقتدار اسباب جاننے کی صلاحیت نہیں رکھتے تو کیا ہی اچھا ہوتا کہ کبھی کسی کتاب کی مدد سے تاریخ کے ان بدنما داغوں کو جاننے کی کوشش کر لیتے جو آج بھی انسانیت کے دامن پہ دھبہ ہیں۔

مذہب کے نام پہ ایک خطہ زمین کی تقسیم کا فیصلہ کرنے والے، لکیر کھینچنے والے، کچھ مان کے الحاق کرنے والے ، کچھ نہ مان کے احتجاج کرنے والے، جشن منانے والے، کھیت کھلیان جلانے والے، خون کی ندیاں بہانے والے، آخر یہ سب کون تھے ؟

نفرت، ضد، انتقام، بدلہ، جلاؤ گھیراؤ، اغوا، ریپ اور قتل وغارت کی آگ چاروں طرف کس نے بھڑکائی؟

ایک ہی زمین کے باسی اور ایک ہی دھرتی سے جنم لینے والوں نے جب ایک دوسرے کو زک پہنچانے کا سوچا تو سوچ بھی ایک جیسی نکلی کہ ضرب کاری تب ہی ہو گی جب نام نہاد عزت اور غیرت کا پرستار اس غیرت کو دشمن کے ہاتھوں روندے جانے پہ رہ رہ کے تڑپ اٹھے گا۔

چونکہ خمیر ایک ہی مٹی سے اٹھا تھا سو لکیر کے آرپار کھڑے ہونے والوں کی عزت و غیرت کا اثاثہ گھر میں بندھی بے زبان مخلوق کے دامن سے لپٹا ہوا تھا۔ سو اسی ملکیت کو مسخ کرنے، کچلنے، مسلنے، روندنے، اور حاملہ کرنے کے فیصلے سے ایک اپنے ہی جیسے غیرت مند مرد کو مزا چکھانے کا فیصلہ کیا گیا!

یقین جانیے، جئے ہند اور پاکستان زندہ باد لکھنے کے لئے عورت کے جسم سے بہتر کوئی چیز نہیں تھی اور لکیر کے دونوں طرف دیوار اٹھانے کے لئے عورت کے کٹے ہوئے پستانوں سے بہتر سمینٹ اور گارا دنیا میں کہیں دستیاب نہیں تھا۔

ایک طرف لہو میں تر ہندو پستانوں کے ڈھیر اور دوسری طرف اسی رنگ کے خون میں لت پت مسلمان پستانوں کا انبار! ان پستانوں کے ڈھیر پہ کرپانیں اور خنجر لہراتے بد مست مرد جو دشمن کو مزا چکھانے کے نشے میں چور ان پستانوں کو ہوا میں اچھالتے تھے۔ کئی پستانوں کے ساتھ تو ابھی تک وہ نوزائیدہ چپکے ہوئے تھے جن کے لئے وہ پستان زندگی کی نوید سناتے تھے۔

بپسی سدھوا کے ناول آئس کینڈی مین کا بنیادی کردار اپنے ہوش کھو بیٹھتا ہے جب ٹرین میں مردہ عورتوں کے ساتھ پستانوں سے بھرے ہوئے تھیلے پائے جاتے ہیں۔ لیکن ستم ظریفی دیکھئے کہ انتقام کی آگ بجھانے کے لئے اسے بھی ایک عورت ہی نظر آتی ہے، پدرسری معاشرے کے مرد کی ملکیت عورت! پدرسری معاشرے کے مرد کی ذہنی اڑان اس سے آگے ہی نہیں بڑھتی۔

دیوانگی کا یہ کھیل گزرے پچھتر برس ہونے کو آئے لیکن کچھ بھی تو نہیں بدلا۔ نہ جھوٹی مردانگی کا جوہر، نہ بے قابو وحشتیں، نہ عورت کو روندنے کا چاؤ، نہ ملکیت کا تصور، اور نہ ہی مرد کی بربریت کو سہارا دینے کی تاویلات!

اگر ایوان اقتدار سے ریپ کی تاویل عورت کے جسم کی نمائش پہ ڈالی جا رہی ہے تو اپنی مردانگی پہ ناز کرنے والوں سے یہ سوال کرنا ہمارا حق بنتا ہے کہ آج اگر تمہاری وحشت کو بے لگام ہونے کے لئے فحاشی لفظ کا سہارا چاہیے تو تقسیم میں جو کچھ ہوا اس کو نقاب اوڑھانے کے لئے کس لفظ کا سہارا لو گے تم؟

ہمیں معلوم ہے کہ کل تم نے مذہب کی اوٹ میں اپنی وحشت کو بےلگام کیا تھا اور آج فحاشی کے چادر کے پیچھے چھپنا چاہتے ہو۔ تمہارے پاس دلیل ہو نہ ہو، ہمارے پاس تمہارے لئے ایک نظم موجود ہے جسے تقسیم پاک و ہند میں تمہارے جنگلی پن کی قید سے رہائی پانے والی عورتوں کے المیے سے متاثر ہونے والے ایک مہذب انسان مختار صدیقی نے لکھا تھا، عنوان تھا “باز یافتہ”۔

اچھا خاصا سبک سا نقشہ

چہرہ پیلا، لباس سادہ

ماحول سے جیسے تھک چکی ہو

تنہا ، تنہا، بلا ارادہ

آنکھیں جو کبھی رسیلی ہوں گی

اب ان کی اداسیوں کی تہ میں

کیا کیا نہ تھے جاں گسل فسانے

ہم آپ تو بے سنے ہی سہمیں

طوفان میں جو ناؤ کھو گئی تھی

پھر آن لگی ہے اس کنارے

یوں تو ہے خدا کا شکر واجب

لیکن کسے ناخدا پکارے

About The Author