رؤف کلاسرا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دنیا کیا سے کیا ہو گئی کہ عمران خان اور جہانگیر ترین‘ جو ہر وقت اکٹھے جہاز پر سوار رہتے تھے‘ اچانک لڑ پڑے ہیں۔ یہ جہاز بھی‘ جس پر خان صاحب برسوں سواری کرتے رہے‘ مبینہ طور پر اس شوگر مل کی ملکیت ہے جس پر اب منی لانڈرنگ کے الزامات کے تحت مقدمے درج ہو رہے ہیں۔ حالات کیسے بدلتے ہیں کہ عمران خان کو جہانگیر ترین نے مبینہ طور پر کروڑوں روپے کی لینڈ کروزر باقاعدہ دبئی سے منگوا کر دی‘ بنی گالہ کا کچن سنبھالا‘ دودھ، دہی، انڈے، چینی‘ آٹا‘ نمک‘ دالیں سب کچھ ان کے کچن میں ڈالا، جہاز پر اڑانا شروع کیا۔ جہاز پر بندے ڈھو ڈھو کر خان صاحب کی حکومت بنوائی۔ آج انہی عمران خان کے دور میں ترین کی بیٹیوں کے نام مقدمے میں ڈال دیے گئے ہیں، بینک اکائونٹس منجمد ہیں، ترین کے بچوں سمیت وارنٹ نکلے ہوئے ہیں۔ وہ عدالتوں سے ضمانتیں کراتے پھر رہے ہیں اور وہی عمران خان وزیر اعظم ہیں جن پر ترین نے مبینہ طور پر کروڑوں خرچ کیے۔ یقینا ترین صاحب سوچتے ہوں گے کہ انہیں اس سارے کھیل سے کیا ملا؟ خیر جہانگیر ترین کو ملا تو بہت کچھ‘ ایک ہی ہلے میں انہوں نے اپنا نقصان اور خرچہ پورا کر لیا جب چینی کی ایکسپورٹ کے نام پر پچاس کروڑ روپے کی سبسڈی لے لی۔ اگلے پچھلے سب حساب برابر۔ ترین صاحب نے عوام کی جیبوں سے لمبے نوٹ نکالے اور خان صاحب پر خرچ کیے تھے تو خان صاحب نے بھی وزیر اعظم بننے پر عوام ہی کی جیب سے پچاس کروڑ روپے جہانگیر ترین کو دلوا دیے۔ یوں عوام ہی کی جیبوں سے دونوں نے خرچہ نکال لیا اور مزے کر لیے۔ اب وہی خان صاحب انہی جہانگیر ترین کو ان کی فیملی سمیت جیل کی سلاخوں کے پیچھے دیکھنا چاہتے ہیں جو انہیں وزیراعظم بنوانے میں پیش پیش تھے۔
پاکستانی سیاست اچانک بدل گئی ہے اور اس پر حیرانی کسی کو نہیں ہونی چاہئے اور شاید ہو بھی نہیں رہی۔ اس ملک میں ایک ہی کام مستقل بنیادوں پر ہوتا ہے اور وہ ہے سیاسی چالبازیاں اور چالاکیاں۔ شاید انسانی نفسیات ہے کہ ایک دوسرے کو نیچا دکھاکر ہم خوش ہوتے ہیں۔ خود کو دوسرے سے ذہین اور بہتر ثابت کرکے ہمیں خوشی ملتی ہے۔ یہ انسانی جبلت ہے کہ ہم دوسروں سے بہتر اور ممتاز لگیں۔ اس چکر میں انسانوں نے اپنے جیسے انسانوں پر جنگیں مسلط کیں۔ قتلِ عام کیے۔ انسانی آبادیاں برباد کیں۔ کھوپڑیوں کے مینار کھڑے کیے۔ اس کے پیچھے وجہ ایک ہی تھی کہ دوسروں پر برتری قائم رہے۔ سمجھا جائے کہ ہم برتر ہیں‘ ہم بہتر ہیں‘ دوسرے کمزور اور کمتر ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ تلوار کی طاقت کم ہوئی تو انسان نے دماغی صلاحیتوں کو استعمال لانا شروع کیا‘ اور چالاکیوں اور مکاریوں میں نام پیدا کرنا شروع کیا۔ مقصد وہی کہ ہم دوسروں سے بہتر ہیں۔ دوسرے ہماری برتری مان لیں۔ ہمارے پیچھے چلیں۔ ہمیں اپنا لیڈر مان لیں‘ اور پھر ہم عوامی تاریخ میں دیکھتے ہیں کہ لاکھوں لوگوں نے کسی ایک فرد کی محبت یا اس کی برتری کے چکر میں لاکھوں جانیں گنوا دیں۔ آج اس ایک بندے کو تو سب جانتے ہیں لیکن ان لاکھوں کو کوئی نہیں جانتا جو اپنے دور میں ان چالاک، تیز، مکار اور اپنی اہمیت کے لالچی لوگوں کی عظمت کے جھنڈے گاڑ رہے تھے۔ آج نپولین، چنگیز خان کا نام سب جانتے ہیں لیکن ان لاکھوں فوجیوں میں سے کسی ایک کا نام بھی شاید ہمیں معلوم نہیں ہو گا جو ان کیلئے مرکھپ رہے تھے۔یہ سب باتیں مجھے اس وقت یاد آئیں جب میں نے میجر عامر کو کہا: آپ انسانوں اور انکی سیاست بارے اتنے پرفیکٹ اندازے کیسے لگا لیتے ہیں؟ وہ ہنس کر بولے: اب کیا کر دیا میں نے؟
میں نے کہا: فروری میں آپ سے بات ہوئی تھی کہ یہ آصف زرداری نے کیا نیا تاش کا پتا کھیلا ہے کہ وہ گیلانی کو ملتان سے اُٹھا کر سینیٹ کا الیکشن لڑا رہے ہیں؟ اس پر آپ نے زرداری صاحب کی سیاست کا نیا پہلو مجھے بتایا تھا کہ اگر وہ چاہیں گے تو گیلانی جیت جائیں گے۔ حالانکہ اس وقت یہ سب کچھ ناممکن سا لگ رہا تھا۔ آج تک اسلام آباد سے کون حکومت کے خلاف سینیٹ کا الیکشن جیتا ہے کہ گیلانی جیت جائیں گے۔ اس پر آپ نے پھر کہا تھا: میں کہہ تو رہا ہوں‘ زرداری اگر گیلانی کو جتوانے میں سنجیدہ ہیں تو وہ جیت جائے گے۔ ہاں اگر وہ گیلانی کو ایک کارڈ کے طور پر استعمال کرکے اپنے لیے کچھ فائدے اٹھانا چاہتے ہیں تو الگ بات ہے۔
میں نے پوچھا: ‘الگ بات‘ سے کیا مراد ہے؟
میجر عامر بولے کہ جتنا وہ پاکستانی سیاست کو سمجھتے ہیں اس کے مطابق زرداری صاحب میں ایک بہت بڑی سیاسی خوبی ہے جو انہیں دوسرے سیاستدانوں میں نظر نہیں آتی۔ زرداری وہ اکیلے سیاستدان ہیں جو کوئی بھی situation پیدا کر سکتے ہیں اور اس سچویشن سے فائدہ بھی اٹھا سکتے ہیں۔ دنیا میں بہت سے لوگ کسی بھی وقت کوئی سچویشن پیدا کرسکتے ہیں‘ لیکن اس سے فائدہ ہر بندہ نہیں اٹھا سکتا۔ اور تو اور امریکی بھی یہ چمتکار نہیں کر سکتے۔ وہ صورتحال پیدا کر سکتے ہیں‘ لیکن اس کو اپنے حق میں استعمال کرنا انہیں بھی نہیں آتا۔ اس کے برعکس زرداری صاحب میں یہ خوبی ہے کہ صورتحال پیدا بھی کرتے ہیں اور اس سے فائدہ بھی اٹھاتے ہیں۔ میجر عامر نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا تھا: میں نے اسی لیے کہا کہ اگر زرداری سنجیدہ ہیں تو وہ گیلانی کو جتوائیں گے یا انہیں استعمال کرکے اپنے فائدے لیں گے‘ یہ طے ہے کہ زرداری اس سیاسی کھیل میں اپنے لیے کچھ دیکھیں گے۔
گیلانی کے نام سے اچانک سب ڈر گئے تھے اور یہی زرداری صاحب کا مقصد تھا کہ کھیل اپنے ہاتھ کیا جائے۔ حکمرانوں کو بتایا جائے کہ وہ ان کی گیم پلٹ سکتے ہیں لہٰذا ان کے رکے ہوئے کام یا وعدے پورے کریں‘ ورنہ وہ سینیٹ پر قبضہ کر سکتے ہیں۔ گیلانی کو سینیٹ کی سیٹ جتوا کر انہوں نے بتا دیاکہ وہ اس کھیل میں کتنے ماہر اور سنجیدہ ہیں۔ اس لیے سب نے انہیں سیریس لیا‘ لیکن جب صورتحال عروج پر پہنچی تو اپنے لیے سیاسی فائدے اٹھا لیے۔ اس وقت وہ نواز شریف سے دور ہو چکے ہیں‘ جو مقتدرہ چاہتی تھی، حکومت ان کے خلاف بات نہیں کررہی‘ اور اگلے الیکشن کے بعد پی پی پی‘ بلاول بھٹو کی ابھی سے باتیں ہونا شروع ہوگئی ہیں۔ مریم نواز نے بھی ٹویٹ کرکے بلاول پر ہٹ کی کہ ایک اور سلیکٹڈ تیارہو رہا ہے۔ اب حالت یہ ہے کہ زرداری جو فائدے لے سکتے تھے‘ وہ لے رہے ہیں۔
میجر عامر میرے پچھلے کالم پر‘ جو مصطفیٰ نواز کھوکھر پر لکھا تھا‘ کہنے لگے کہ ان کے خیال میں مصطفیٰ نواز کا جھکائو نواز لیگ کی طرف ہے۔ شاید وہ اپنا مستقبل پنجاب کی حد تک نواز لیگ میں دیکھتے ہیں‘ اسی لیے مصطفیٰ نواز نے اصولی موقف کی بات کہ پیپلز پارٹی کو کسی کے ووٹ لے کر گیلانی کو اپوزیشن لیڈر نہیں بنوانا چاہئے تھا‘ اسکے پیچھے بھی یہی سوچ ہے کہ اگلا الیکشن نواز لیگ کی حمایت سے لڑا جائے۔ اپنی پارٹی سے نواز لیگ کا موقف وہ زیادہ اہم سمجھ رہے ہیں جس سے بلاول اور زرداری کو شرمندگی ہوئی۔
خیر دوسری طرف عمران خان اور جہانگیر ترین کے مابین جاری لڑائی اہمیت اختیار کر گئی ہے۔ ترین صاحب کا حال بھی وہی ہوا ہے کہ کروڑوں خرچ کرنے اور کئی برس خان صاحب پر ضائع کرنے بعد اب بیوی بچوں سمیت جیل کا سامنا کررہے ہیں۔ ترین اگر پیپلز پارٹی میں جا رہے ہیں تو یقینا انہیں آصف زرداری سے سیکھنے کا موقع ملے گا کہ صورت حال پیدا کرنا کوئی بڑا کارنامہ نہیں ہوتا، اصل بات یہ ہے کہ صورت حال سے فائدہ کیسے اٹھانا ہے۔ جہانگیر ترین کو ابھی بہت کچھ سیکھنا ہے۔ پیسہ اور دولت ہی سب کچھ نہیں ہوتے۔ ترین صاحب نے بہت پیسہ کما کر دیکھ لیا‘ لیکن وہ پیسہ انہیں پھر بھی جیل سے نہیں بچا پا رہا‘ جس کا مطلب ہے‘ پیسے سے زیادہ اہم ہے دماغ۔ اب دماغ تو پیسوں سے نہیں خریدا جا سکتا!
یہ بھی پڑھیے:
ملتان میں قتلِ آم||رؤف کلاسرا
آخر سیکھ ہی گئے!۔۔۔رؤف کلاسرا
پُرانے جال ، پُرانے شکاری۔۔۔ رؤف کلاسرا
ایک بڑا ڈاکا اور بڑی واردات تیار… ۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(1)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(2)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(3)۔۔۔ رؤف کلاسرا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر