امام بخش
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریکِ اِنصاف کے سرکردہ رہنما شاہ محمود قریشی نے 9 اپریل 2021ء کو برملا اعتراف کیا ہے کہ ہمارے پاس اکثریت نہیں، اِس لیے جنوبی پنجاب صوبے کا قیام ممکن نہیں۔ جنوبی پنجاب صوبے کا قیام تحریکِ اِنصاف کے منشور میں شامل ہے، حکومت نے سیکرٹریٹ قائم کر کے جنوبی پنجاب صوبے کی سیڑھی رکھ دی ہے۔ پیپلز پارٹی اور نُون لیگ جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کے لیے مخلص نہیں ہیں۔ اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتیں اپنے دورِ اِقتدار میں جنوبی پنجاب صوبہ بنا سکتی تھیں مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔
2018ء کے الیکشنز میں تحریکِ اِنصاف کا وعدہ تھا کہ اگر اُن کی حکومت آ گئی تو پہلے 100 دنوں میں وہ جنوبی پنجاب صوبہ بنا دیں گے۔ لیکن اب تین سال بعد یہ یُوٹرنی ٹولا اعتراف فرما رہا ہے کہ یہ ہمارے بس کا روگ نہیں ہے۔
یاد رہے کہ یہ آصف علی زرداری ہے، جس نے نصف صدی سے جنوبی پنجاب کے سوئے ہوئے "مطمئن غیرت مندوں” کو جگایا اور اُن کے لیے علیحدہ صُوبے کی مہم چلائی۔ یہ مہم خالی پیلی سیاسی پوائنٹ سکورنگ نہیں تھی بلکہ 2012ء میں پاکستان پیپلز پارٹی نے اسٹیبلشمنٹ کی بھرپور مخالفت کے باوجود جنوبی پنجاب کے نام سے نئے صوبے کا ترمیمی بِل سینیٹ سے دو تہائی اکثریت سے پاس کروانے کا مشکل مرحلہ طے کیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے اس ترمیمی بِل کو قومی اسمبلی میں بھی پیش کیا تھا لیکن نُون لیگ نے بھرپور مخالفت کی اور دو تہائی اکثریت نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان پیپلز پارٹی یہ بِل پاس نہ کروا سکی۔ جنوبی پنجاب کے صُوبے کا معاملہ جب پنجاب اسمبلی میں آیا تو وہاں اکثریت رکھنے والی نُون لیگ سامنے رُکاوٹ بن کر کھڑی ہو گئی۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے جنوبی پنجاب کے صوبے کا ترمیمی بِل پنجاب اسمبلی میں پیش کیا لیکن ٹیبل نہ ہو سکا۔ نُون لیگ نے جنوبی پنجاب میں ایک کے بجائے دو صوبے بنانے کے لیے اپنے ترمیمی بِلز پیش کر دیئے، پاکستان پیپلز پارٹی نے دو صوبوں کے بِلز میں کسی قسم مخاصمت کے بغیر عوام کے مفاد کے لیے نُون لیگ کا ساتھ دیا اور یہ دونوں بِلز پاس ہوئے۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے اِس کے بعد جنوبی پنجاب صوبہ کے حوالہ سے پنجاب اسمبلی اور قومی اسمبلی میں بار بار قردادیں پیش کیں لیکن نُون لیگ کی بھرپور مخالفت کی وجہ سے وہ ٹیبل نہ ہو سکیں۔ اِس طرح 2013ء کے الیکشن تک نُون لیگ نے یہ معاملہ حیلے بہانوں سے اَٹکائی رکھا۔ اِس طرح قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں بِل کی حمایت میں دو تہائی اکثریت حاصل نہ کر سکنے پر پاکستان پیپلز پارٹی اپنی حتی المقدور کوششوں کے باوجود صُوبہ جنوبی پنجاب بنانے میں کامیاب نہ ہو سکی
یہاں اِس بات کا ذکر ضروری ہے کہ صدر آصف علی زرداری نے ملتان میں صنعت کاروں سے ملاقات کے دوران کہا تھا کہ سرائیکی صوبے کی مالیات کے لیے سرائیکی بنک ضروری ہے۔ اِس لیے ہم ڈیرہ غازیخان اور ملتان میں سرائیکی بنک کے قیام کے سلسلے میں اِقدامات کر رہے ہیں لیکن سرائیکی بنک کے قیام کی تجویز بھی اسٹیبلشمنٹ کے لیے ناقابل قبول ٹھہری۔
2013ء کے انتخابات میں نُون لیگ نے اپنے منشور میں جنوبی پنجاب، بہاولپور اور ہزارہ کے الگ الگ صوبے شامل کیے۔ 2013ء کے الیکشن کے بعد نُون لیگ کی پنجاب اور مرکز میں حکومت بنی مگر نُونیوں نے جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کے لیے رتی برابر عمل کرنے کی بجائے اُلٹا اِس ایشو پر سرائیکی اور پنجابی زبان بولنے والوں میں تفرقہ ڈالنے کی بھرپور کوشش کی حالانکہ علیحدہ صوبہ بننے میں وہاں کے سبھی لوگوں کا فائدہ ہے۔
یہ واضح رہے کہ 2013 کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کے منشور میں کوئی نیا صوبہ بنانا شامل نہیں تھا۔ پی ٹی آئی نے 2018ء کے انتخابات میں اپنے منشور میں جنوبی پنجاب صوبہ اس وقت شامل کیا جب اپریل 2018ء میں جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے درجن بھر لوٹے سیاست دان خسرو بختیار کی قیادت میں پی ٹی آئی میں اس ڈرامہ شرط پر شامل ہوئے کہ جنوبی پنجاب صوبہ پی ٹی آئی حکومت 100 دنوں میں بنائے گی۔ موجودہ وزیرِ اعلیٰ عثمان بزدار بھی 2018ء کے انتخابات سے چند ماہ پہلے تک نُون لیگ میں شامل تھا۔
اب پی ٹی آئی کے اعترافِ ناکامی کی طرف واپس آتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ آئین کے تحت نیا صوبہ بنانے کے لیے قومی اسمبلی اور سینیٹ کے علاوہ صوبائی اسمبلی میں بھی دو تہائی اکثریت کی منظوری درکار ہوتی ہے لیکن پی ٹی آئی کو چاہیئے تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی طرح یہ معاملہ پارلیمنٹ میں لے آتی تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جاتا کیونکہ اس وقت جنوبی پنجاب صوبہ بنانا تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کے منشور میں شامل ہے، اِس طرح جو سیاسی جماعت پارلیمنٹ میں جنوبی پنجاب کے صوبہ بننے کے بِل کے لیے حکومت کا ساتھ نہ دیتی وہ عوام کے سامنے خود بخود ایکسپوز ہو جاتی لیکن پی ٹی آئی اس طرف جانے کی بجائے خود ایکسپوز ہو چکی ہے لیکن اپنے من حرامی کی حُجتیں فرما کر عوام کو بے وقوف بنانے پر مُصر ہے۔
اب حقائق سامنے ہیں کہ جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کے لیے کون مخلص ہے اور کون منافقت کر رہا ہے، "پاکستان کھپے” کا نعرہ لگانے والا آصف علی زرداری، جس نے صوبہ بنانے کی مہم کو مہمیز کیا، سینیٹ سے صوبہ بنانے کا ترمیمی بِل پاس کروایا اور قومی اسمبلی کے ساتھ ساتھ پنجاب اسمبلی میں بھی ترمیمی بِل پاس کروانے کی بھرپور کوششیں کیں؟ "جاگ پنجابی جاگ تیری پگ نُوں لگ گیا داغ” کا نعرہ لگانے اور لسانیت و صوبائیت کا تفرقہ پھیلانے والا نواز شریف، جس نے صُوبہ جنوبی پنجاب بننے کی راہ میں قدم قدم پر رکاوٹیں کھڑی کیں؟ یا پھر سرائیکی باپ کا بیٹا لیکن سرائیکی کہلانے پر اِحساس کمتری کا شکار ہونے والا وزیر اعظم کے طور پر اپنے نام کے ساتھ لفظ نیازی کی ممانعت کا سرکلر جاری کرنے والا عمران احمد خان نیازی، جِس نے 100 دن میں جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کا وعدہ کیا تھا، لیکن پورے تین سال کے عرصے میں یہ معاملہ پارلیمنٹ تک نہیں لایا اور اب یُوٹرن فرما چکا ہے؟
اگر جنوبی پنجاب کے عوام ڈھونگی جمُوروں کے علاوہ اُن چڑھتے سُورج کے پجاری میر جعفروں اور میر صادقوں کو دُھتکارنے کی بجائے چُومیں چاٹیں گے اور جھولیاں بھر بھر کر ووٹ دیں گے تو پھر وہ پچھلی پون صدی کی طرح مستقبل میں بھی تختِ لاہور کے سامنے بَلی چڑھتے رہیں گے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر