قدیم ترین تہذیب و ثقافت اور عظیم روایات کا گہوارہ داجل
تحریر : آفتاب نوازمستوئی
دور حاضر میں ریونیو آبادی اور رقبہ کے لحاظ سے سب سے بڑی تحصیل
( جسے ضلع نہیں بننے دیا
جارھا )
جام پور کا اھم ترین تجارتی قصبہ داجل جسکی تاریخ صدیوں پرانی ھے جو کہ نہ صرف کسی ایماندار محقق کی تحقیق کی متلاشی ھے بلکہ اپنی زبوں حالی پر نوحہ کناں بھی نظر آتی ھے ایک مسلمہ حقیقت یہ بھی تو ھے کہ جب خلافت پر ملوکیت کا غلبہ ھوا اسی وقت سے لیکر آج تک ھر دور کے ” شاہ ” نے اپنے
من پسند درباری ” منشیوں ” سے نہ صرف اپنی مدح سرائی اور خودنمائی کو فروغ دیا
بلکہ اپنے سے پہلے معزول کیئے گئے یا قتل کرائے گئے ” شاھوں ” کی غیبت اور کردار کشی اس انداز
میں کروائی کہ رعایا کو ” ماضی کا شاہ ” فرعون اور حال کا ” شاہ ” ظل الہی غریب پرور ان داتا نظر آنے لگا ستم ظریفی یہ بھی ھوئی کہ ھر قدیم تاریخ کو آھستہ آھستہ مسخ کیا جاتا رھا اور من مرضی کی تاریخ مرتب کروائی جاتی رھی گوکہ طور طریقے اور انداز تنسیخ تاریخ ھر دور میں بدلتے رھے
مگر ایجنڈا بدستور اصل حقائق کو گم کرنے اور نت نئی کہانی تخلیق کرنا ھی رھا اور آج خود اسی شہر داجل کے ایم اے ۔
ایم فل ۔ڈبل ایم اے پی ایچ ڈی کی ڈگریوں کے حامل نوجوانوں کو اپنی جنم بھومی کی اصل تاریخ اسکی حیثیت اور اھمیت و افادیت کا مکمل ادراک حاصل نہیں ۔۔
( اس پر لکھنے کو بہت دل چاھتا ھے مگر پھر کبھی سہی )۔۔برصغیر پاک و ھند کی تقسیم سے قبل کا تحصیل ھیڈ کوارٹر اور ٹاون کمیٹی داجل ۔قیام پاکستان کے بعد تحصیل ھیڈ کوارٹر تو نہ رھا
مگر اسکی ٹاون کمیٹی کی حیثیت بھی ختم کر دی گئی ھمیں یاد ھے سب ذرا ذرا کے مصداق کبھی ٹاون کمیٹی تو کبھی یونین کونسل کتنا مرتبہ اس شہر کے ساتھ یہ بھونڈا مذاق ھوتا رھا کسی صاحب اقتدار واختیار کو ترس نہ آیا چند سر پھرے قلمکاروں نے آوازاٹھانے کی کوششیں کیں تو ” ھر دور کے
یزید کے نامزد کردہ شمر ” ان کی راہ کی رکاوٹ بنے ۔کسی مقامی سیاسی ورکر نے ” زور آوروں یا طاقت کے نشے میں سرشار گودے یا سردار ” کے سامنے لب کشائی کی ھمت کر بھی لی تو حسب روایت ” وقت کے شاہ کے ملا دو پیازہ نما "چالبازوں اور خوشامدیوں نے اسکی "بولتی ” ھی بند کروا دی ۔ایک دور وہ بھی تھا کہ مشترکہ ضلع ڈیرہ غازیخان کے ڈپٹی کمشنرز
اور ایس پی داجل کا نام سنتے ھی کانپ جاتے تھے کیونکہ اس دور کے لوگ بھی تو سچے جذبوں کے امین ھوا کرتے تھے بلا تفریق فرقہ و مسلک اور سیاسی وابستگی داجل کے شہری متحد اور متفق ھو کر اپنا اجتماعی مسلہ حل کروا لیتے تھے جی ھاں نہ بجلی نہ پینے کا پانی ٹوٹی پھوٹی سنگل
روڈ اور گورنمنٹ ٹرانسپورٹ سروس کی ایک بس جو صبح سویرے نکلتی تھی اور مغرب کے وقت واپس آتی تھی اور جو لوگ بس کے ٹائم پر بس اسٹاپ نہ پہنچ پاتے وہ جام پور تک پیدل بھی چل پڑتے تھے چند گھرانوں کے پاس گھوڑی ۔
ڈاچی ۔یا پھر بائی سائیکل ھوتا تھا اور وھی اس وقت کے معززین یا معتبر لوگ ھوا کرتے تھے جن میں نہ تو رعونت ھوا کرتی تھی نہ تکبر عاجزی وانکساری اور محبتوں کے پیکر ان لوگوں کے
بچے مڈل اور میٹرک کی تعلیم کے حصول کیلیے جام پور سکول کے ھاسٹلز یا اپنے عزیز واقارب کے ھاں قیام پذیر ھوتے تھے ۔۔
اور آج کا داجل جہاں بجلی پانی گرلز کالج بوائز ھائر سیکنڈری سکول نادرا آفس ۔نیشنل بنک کے علاوہ کمرشل بنک ۔رورل ھیلتھ سینٹر ۔پولیس تھانہ ‘انٹر نیٹ اور بہت بڑی کاروباری منڈی کا
حامل ھونے کے باوجود مسلسل سیوریج کے غلیظ پانی اور گندگی کی لپیٹ میں ۔۔تعلیم کی شرح میں اضافہ مگر کچھ لوگوں میں ذھنی پستی اور اخلاقی گراوٹ کی حد یہ کہ علاقائی ",سیاہ ست دانوں ” کی غلامی اور خوشامد میں ایک دوسرے سے باھم دست و گریباں ۔سوشل میڈیا پر کسی دیوانے شخص نے
کبھی کوئی مسلہ اجاگر کرنے کی ھمت بھی کی تو کومنٹس میں بے جا غیر ضروری غیر اخلاقی گفتگو کے ذریعے اس کے اس قدر بخئیے ادھیڑ ڈالے کہ دوسری یا تیسری مرتبہ اسے ھمت نہ ھوئی ۔نظریاتی سیاست کی جگہ گروھی سیاست نے لے لی
جس کا نتیجہ بد اعتمادی ‘بد گمانی اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی دوڑ میں ایک ھی گروپ سے وابستگی کے باوجود دھڑے بندی کو فروغ ملا ۔
جماعت کی جگہ شخصیت پرستی نے لے لی اور شخصیت پرستی کی کوکھ سے مفاد پرستی و خود غرضی نے جنم لیکر ایسی طاقت پکڑی کہ جس داجل کے بڑوں کے ڈیرے پر تھانیدار سلام کرنے جایا کرتے تھے آج وھاں کے باشندے نئے آنے والے
” دبنگ کرائم فائٹر ” قسم کی چیز کو پھولوں کے ھار پہنانے پہنچ جاتے ھیں ۔اور کچھ دن بعد اس کے کرتوت سامنے آنے پر اسے ظالم رشوت خور نا اھل وغیرہ وغیرہ کے القاب سے نوازا جا رھا ھوتا ھے ( گوکہ یہ کلچر صرف داجل نہیں بلکہ وکیل انجم کی زبان میں سیاست کے فرعونوں کی پوری مقبوضہ و محکوم سرائیکی سلطنت میں رواج پا چکا ھے ) ۔۔۔۔
قصہ مختصر ” کہاں تک سنو گے کہاں تک سناوں ھزاروں کے شکوے ھیں کیا کیا بتاوں” کے مصداق روھی تھل دامان کی محرومیوں تکالیف اور اسکے وسائل کے قبضہ کا درد تو سانجھا ھے مگر اس درد کو آپسمیں بانٹنے والوں کی سانجھ جو آپس میں نہیں رھی ۔۔۔
کیونکہ ” کچھ اپنوں کے کرم کچھ غیروں کے ستم لڑاو اور حکومت کرنے کا انگریزی فلسفہ انگریز سے مراعات یافتہ طبقات کا مسلسل جبری تسلط ‘ تخت لہور کا پورے خطے کے وسائل پر قبضہ اوپر سے رنجیت سنگھ کی سکھا شاھی کی پیدوار بیورو کریسی کی خر مستیاں ساتھ ھی ساتھ آباد کاروں کے
توسیع پسندانہ عزائم اور ان کی ریشہ دوانیاں جنہوں نے انتہائی ذھین فطین اور محنتی لوگوں کی قوت گویائی کو مفلوج کر کے رکھ دیا ان گھپ اندھیروں اور تاریکی و تشنگی سے لبریز عمیق گڑھوں میں سے حاجی عاشق حسین ڈراجہ جیسے دھرتی واس ” بزم خوشبو ‘ کے ایک چھوٹے سے
چمنستان کو اپنے خون جگر سے پال پوس کر ایک گلستان کی شکل میں سامنے لے آئے جسکی مہک چہار سو پھیلتی چلی جارھی ھے اسی اثناء میں بزم خوشبو کے مکتب فکر نے سجاد میرانی اور اس قبیل کے نوجوانوں کی کثیر تعدا د کو جگنووں کا ایک جتھہ بنا کر روشنی کی کرنیں پھیلانے کا ٹاسک
دیکر اپنی دھرتی کو خوبصورت تحفہ پیش کر دیا ھے اور یہ وہ جی دار ٹائگرز ھیں جنہوں نے کسی سردار وڈیرے یا علاقائی طرم خان کے بغیر اپنے زور بازو پر افواج پاکستان اور وزیر اعظم پاکستان کی حمایت میں فقید المثال ریلی نکال کر ثابت کر دیا کہ
کسی بھی قوم یا ملک کا اصل سرمایہ نوجوان ھیں پاک پرور دگار انہیں ھر نظر بد اور شر سے ھمیشہ محفوظ رکھے۔آمین ۔اس وقت داجل کے شہری سیوریج کے گندے پانی اور ھر گلی محلے میں پھیلی گندگی و تعفن کے جس عذاب درد ناک سے دو چار ھیں یہ پھر سے ایک الگ کہانی ھے اس پر بھی سجاد میرانی اور ان کی ٹیم مبارکباد کی مستحق ھے کہ دن رات ایک کر کے
جام پور کے نوجوان اسسٹنٹ کمشنر ( جو کام تو کرنا چاھتے ھیں مگر ان کے ماتحت اداروں میں دیمک کی طرح چمٹا ھوا مافیاء انہیں اکثر اوقات بے بس کر دیتا ھے ) سے مل کر بلدیہ جام پور سے مشینری اور عملہ لے آتے ھیں کسی قسم کے کریڈیٹ کے چکر میں پڑے بغیر یہ جنونی نوجوان اپنی جنم بھومی کو خوبصورت بنانے کی دھن میں مگن ایک عزم مسلسل کے ساتھ آگے بڑھتے چلے جارھے ھیں
ان کے ” گرو یا مرشد ” بھی کامل اور سچے لوگ ھیں جو ان کی ھر قدم پر مثبت سمت میں رھنمائی کر رھے ھیں ۔
انہی نوجوانوں نے آجکل ” مرحوم ٹاون کمیٹی ” داجل کے عملہ صفائی کے حقوق کی لڑائی لڑنا شروع کر رکھی ھے جو کہ انتہائی احسن اور مثبت اقدام ھے کس قدر ستم ظریفی ھے کہ کلرک اور چپراسی تک "ھذا من فضل ربی ” کے تحت پر تعیش زندگی گزار رھے ھیں اور دوسری جانب صبح کے تارے
کے طلوع سے لیکر دن کے اجالے تک شہر بھر کو گندگی سے پاک کرنے والے ڈیلی ویجز ملازمین گزشتہ 15 ماہ سے تنخواھوں سے محروم چلے آرھے ھیں ھوشربا مہنگائی میں ان فاقہ زدہ خاندانوں پر ڈیڑھ سال میں کسی بھی صاحب اختیار و اقتدار کو ترس تک نہ آیا
تو اس دوران وھی سجاد میرانی جوخود ایک غریب محنت کش گھرانے کا چشم و چراغ ھے ان کی آواز بن کر میدان عمل میں آجاتا ھے سوشل و الیکٹرانک میڈیا پر ان کے حقوق کی آواز بلند کرتے کرتے ان کے ساتھ احتجاج میں شامل ھو جاتا ھے ان کے مسلے کو فرض سمجھ کر اپنا ذاتی مسلہ بنا لیتا ھے
ان سب کو اپنے ذاتی خرچ پر جام پور لے آتا ھے جہاں اسسٹنٹ کمشنر جام پور ( جوکہ تحصیل کونسل کے ایڈمنسٹریٹر بھی ھیں کیونکہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد داجل فی الحال تحصیل کونسل کا
حصہ بن گیا ھے ) سے طویل مذاکرات ھوتے ھیں جواں ھمت اسسٹنٹ کمشنر نہایت حوصلے اور فہم و فراست کے ساتھ یقین دھانی کراتے ھیں کہ بہت جلد قانونی تقاضے پورے کرنے کے بعد. ان غریب ملازمین کو تنخواھیں ادا کر دی جائیں گی ۔
اللہ کرے اسسٹنٹ کمشنر جام پور اور سجادمیرانی و ان کی ٹیم سرخرو ھوں ان غریبوں کے مرجھائے چہروں پر خوشی کی رونق ضرور دعا بن کر اثر کرے گی
اور اوپر والا رحیم و کریم بھی ضرور اجر دے گا ۔ھمت اور عزم مسلسل کے ساتھ ساتھ نیک نیتی و لگ
ضرور منزل تک پہنچاتے ھیں ۔
راجن پور
03ڈپٹی کمشنر راجن پور احمر نائیک نے حکومت پنجاب کی ہدایات کی روشنی
میں ضلع بھر میں چینی کی خوردہ قیمت 83 روپے فی کلو مقرر کر دی ہے۔اس حوالے سے ڈپٹی کمشنر راجن پور کی جانب سے نوٹیفیکیشن بھی جاری کر دیا گیا ہے۔انہوں نے تمام پرائس کنٹرول مجسٹریٹس کو حکم دیا ہے کہ وہ ضلع بھر میں چینی کی 83 روپے فی کلو فروخت پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں
اور خلاف ورزی کے مرتکب دوکانداروں کے خلاف سخت قانونی کارروائی عمل میں لائیں۔مزید براںڈپٹی کمشنر راجن پور احمر نائیک نے ضلع بھر کے چینی فروخت کرنے والے ڈیلرز کے اجلاس کی صدارت کے دوران خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ
چینی کے تمام ڈیلرز اپنی رجسٹریشن کرائیں اور اپنے اپنے گوداموں کی تفصیلات فراہم کریں۔گراں فروشی
اور ذخیرہ اندوزی کرنے والے ڈیلرز اور دکان داروں کے خلاف بھی سخت قانونی کاروائی کی جائے گی۔اس موقع پر
ڈسٹرکٹ آفیسر انڈسٹری محمد پرویز ،صدر انجمن تاجران رشید ساجد،ڈپٹی ڈائریکٹر زراعت محمد آصف ،اسسٹنٹ فوڈ کنٹرولر مرتضیٰ بودلہ اور ضلع بھر سے چینی کی فروخت کرنے والے
ڈیلرز نے شرکت کی۔
راجن پور
03اسسٹنٹ ڈائریکٹر زراعت (توسیع)راجن پور ڈاکٹر محمد زکریا یوسف نے
پنجاب فرٹیلائزر کنٹرول ایکٹ 1973کے تحت کاروائی کرتے ہوئے فاضل پور سے 24بوری ڈی اے پی کھاد کی جعلی بوریاں برآمد کر لیں۔
کھاد بیچنے والا محمد ابراہیم ولد رحمت اللہ پر ایف آئی آر درج کرا دی گئی ہے
اور کھاد ہذا کا نمونہ لے کر لیبارٹری بھجوا دیا گیا ہے ۔
اسسٹنٹ ڈائریکٹر زراعت (توسیع)راجن پور ڈاکٹر محمد زکریا یوسف کا کہنا تھا کہ
پنجاب فرٹیلائزر کنٹرول ایکٹ 1973کے تحت کاروائیاں بلاامتیاز جاری رہیں گی۔
جعلی کھادوں کا کاروبار کرنے والے اپنا قبلہ درست کر لیں۔انہوں نے کہا کہ
کھاد مارکیٹوں کی مانیٹرنگ سخت کر دی گئی ہے ۔
اے وی پڑھو
سیت پور کا دیوان اور کرکشیترا کا آشرم||ڈاکٹر سید عظیم شاہ بخاری
موہری سرائیکی تحریک دی کہاݨی…||ڈاکٹر احسن واگھا
محبوب تابش دے پرنے تے موہن بھگت دا گاون