دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

طارق بشیر چیمہ کا غصہ جائز ہے – ناقابلِ اشاعت کالم||احمد اعجاز

بھلا! ایسا کبھی ہوا ہے کہ جڑی بوٹیوں کو تلف کرنے کے بجائے، ان کی بڑھوتری کے لیے کھادیں ڈالی گئی ہوں؟ اگر وفاقی وزیر کی فیملی، اداکارہ عفت عمر اور سندھ کے چودہ ہزار با اثر افراد کو کورونا ویکسین لگی ہے تو یہ ان کا ”حق“ ہے۔
احمد اعجاز 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

طارق بشیر چیمہ کی فیملی کی طرف سے انسٹا گرام پر ایک ویڈیو جاری کی گئی، جس میں ان کی فیملی کو ویکسین لگائی جا رہی ہے۔ ویڈیو میں وفاقی وزیر کے علاوہ ایک اور شخص موجود ہے، جبکہ مختلف عمروں کی چند خواتین جن میں نوجوان لڑکیاں شامل ہیں، ایک ڈرائنگ روم میں بیٹھی ہیں جہاں دو نرسیں باری باری ان کو انجکشن لگا رہی ہیں۔ وہاں معروف اداکارہ عفت عمر بھی موجود ہیں۔ بعد میں یہ وضاحت کی گئی کہ ویکسین نہیں بلکہ ٹرائل ویکسین کا بوسٹر تھا، جو لاہور کی ایک یونی ورسٹی نے ٹیم بھیج کر لگائی۔

یونی ورسٹی ترجمان کے مطابق ”یونی ورسٹی نے ٹرائلز کے دوران کسی کے گھر جا کر ویکسین نہیں لگائی۔ نیز ویکسین کے تمام تر ٹرائلز ختم ہو چکے ہیں“ بعد میں یہ ویڈیو انسٹا گرام سے ڈیلیٹ کر دی گئی۔ وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ کی مختلف میڈیا سے اس ایشو پر بات ہوئی تو ان کا یہ موقف سامنے آیا ”ان کی ساس کی صحت خاصی تشویش ناک ہے، وہ کچھ دن قبل لاہور کے ہسپتال سے ڈسچارج ہو کر گھر شفٹ ہوئی، جن کے لیے گھر کا ایک کمرہ ہسپتال میں تبدیل کیا گیا، جہاں کورونا وائرس کی ویکسین لگائی گئی۔ خاندان کے دوسرے دو افراد کو بھی کورونا ویکسین لگائی گئی مگر جو ویکسین لگائی گئی وہ ابھی ٹرائل میں ہے۔ کورونا ویکسین صرف میری ساس کو لگائی گئی، باقی نظر آنے والی ویکسین انفلوئنزا کی ہے“

طارق بشیر چیمہ نے میڈیا سے مختلف اوقات میں غصے سے بھری باتیں کیں۔ وہ یہاں تک کہتے پائے گئے کہ ”پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ویڈیو ہے، باقی سارے مسئلے، ملک کے حل ہو چکے ہیں۔ اگر میں نے فیملی کو ویکسین لگوائی ہے تو پھر کیا ہو گیا؟ کون سی قیامت ٹوٹ پڑی؟ جس نے جو کہنا ہے، کہے، جو کرنا ہے، کر لے، مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا“ مزید براں وہ یہ کہتے ہوئے بھی پائے گئے کہ میڈیا کے لوگوں نے بھی ویکسین لگوائی، لیکن وہ ان صحافیوں کے نام نہیں بتائیں گے۔

 

اسی دوران کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک سینئر ہیلتھ رپورٹر نے ایک ٹی وی پروگرام میں بتایا کہ خود ان کو تین ذمہ دار لوگوں نے ویکسین لگوانے کی آفر کی، لیکن انھوں نے یہ سوچ کر ویکسین نہیں لگوائی کہ وہ اپنی باری کا انتظار کریں گے اور اگر ویکسین لگوا لی تو یہ کسی کا حق مارنے کے مترادف ہوگا، نیز اس رپورٹر نے یہ بھی بتایا کہ وہ ایک سٹوری پر کام کر رہے ہیں، جس کے مطابق سندھ میں اس وقت تک ایسے با اثر چودہ ہزار لوگ ویکسین لگوا چکے ہیں، جن کی ابھی باری نہیں آئی تھی۔ اگر یہ خبر درست ہے تو اس کا مطلب ہے کہ چودہ ہزار لوگوں نے ویکسین کی یہ خوراکیں ان لوگوں کی چھینی ہیں، جنھیں ویکسین لگنا ضروری ہو چکا تھا۔

ہم یہاں وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ کی بات کریں گے، جو صحافیوں سے بات کرتے ہوئے غصے میں تھے اور آگے سے بعض صحافی بھی غصہ کر بیٹھتے ہیں۔ وفاقی وزیر کا غصہ جائز ہے۔ جن لوگوں کو تمام آسائشات زندگی کے ساتھ زندہ رہنے کا حق ہے، ان کو ویکسین نہیں لگے گی تو پھر کس کو لگے گی؟ یہاں بعض لوگ فصل اور جڑی بوٹیوں میں امتیاز کرنے سے قاصر ہیں۔ جڑی بوٹیوں کو مختلف اسپرے کے ذریعے تلف کیا جاتا ہے کہ جبکہ فصل میں کھادیں ڈالی جاتی ہیں۔

بھلا! ایسا کبھی ہوا ہے کہ جڑی بوٹیوں کو تلف کرنے کے بجائے، ان کی بڑھوتری کے لیے کھادیں ڈالی گئی ہوں؟ اگر وفاقی وزیر کی فیملی، اداکارہ عفت عمر اور سندھ کے چودہ ہزار با اثر افراد کو کورونا ویکسین لگی ہے تو یہ ان کا ”حق“ ہے۔ ان کی جگہ ایسے عام لوگوں کو لگتی جو ساٹھ اور ستر برس کی عمروں کو پہنچ چکے ہیں اور ”زمین کا بوجھ“ ہیں؟ یہ عام لوگ لہلہاتی سرسبز فصلوں میں جڑی بوٹیوں کے مانند ہیں، ساٹھ ستر برس کی عمر کو پہنچ کیسے گئے؟

 

بھرپور صحت اور پوری توانائی کے ساتھ زندہ رہنا اور طبعی عمریں پوری کرنا تو اشرافیہ کا ”حق“ ہے۔ اگر عام لوگ بھی طبعی عمریں پوری کرنے لگ پڑیں تو یہ خواص کے ”حق“ پر ڈاکا کے مترادف ہوگا۔ وفاقی وزیر صاحب! آپ کا غصہ کرنا بنتا ہے۔ اس ملک کی لگ بھگ چوہتر برس کی تاریخ تو یہی بتاتی ہے کہ یہاں ایوریج لائف کا تناسب کم ہے تو اس کی وجہ عام لوگ ہیں، جو ایسی بیماریوں میں بھی مر جاتے ہیں، جن کا علاج گلی محلے کے عطائیوں کے پاس بھی ہوتا ہے، جبکہ طبقہ خواص تو معمولی بیماریوں کے لیے برطانیہ اور امریکا کا رخ کر کے اپنی زندگی کو دوام بخشتا ہے۔

عام آدمی کی نسل تو اس لیے بڑھتی ہے کہ وہ امرا کی خدمت بجا لائے گی۔ خدمت کرنے والے تو پیدا ہوتے اور مرتے رہتے ہیں، اصل زندگی تو ”اہم“ لوگوں کی ہوتی ہے۔ وفاقی وزیر صاحب! آپ کے یہ الفاظ ”جس نے جو کہنا ہے، کہے، جو کرنا ہے، کر لے، مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا“ بالکل ٹھیک ہیں۔ آپ کا یہی کہنا بنتا تھا کہ عام آدمی تو اپنے اوپر ہونے والی تنقید کا ردعمل ایسا نہیں دے سکتا، نہ ہی وہ ایسا کہنے کی جرات رکھتا ہے۔

آپ کی فیملی کے جو لوگ ویکسین لگوانے سے رہ گئے ہیں، ان کو فوراً ویکسین لگوائیں، میڈیا پر ”صفائیاں“ دینے میں وقت ضائع مت کریں۔ اب جو انسٹا گرام پر ویڈیو اپ لوڈ کریں تو سماجی دباؤ میں آ کر ڈیلیٹ مت کریں، آپ پر کیسا سماجی دباؤ؟ کون سا سماج، کیسی اخلاقیات، کیسا میرٹ؟ ہمارا اعتراض تو صرف عفت عمر تک ہے، جو خود کو انسانی حقوق کی علمبردار کہتی ہیں، اپنی سوشل ویڈیوز میں امید جگانے والی باتیں کرتی ہے، حکومت وقت کی غلط پالیسیوں پر کڑی تنقید کرتی ہیں، خود کو عام آدمی کی آواز کہتی ہیں مگر خواص میں بیٹھ کر ویکسین لگواتی ہیں، ٹویٹ کرتی ہیں، گویا ہمارا مذاق اڑاتی ہیں۔

 

یہ بھی پڑھیے:

بندگلی میں دَم کیسے گھٹتا ہے؟۔۔۔احمد اعجاز

حکومت کا مسئلہ کیا ہے۔۔۔احمد اعجاز

حکومت کا مسئلہ کیا ہے۔۔۔احمد اعجاز

یہی خزاں کے دِن۔۔۔احمد اعجاز

احمد اعجاز کی مزید تحریریں پڑھیں

About The Author