شکیل نتکانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک زمانہ گزر گیا اور ڈاکٹر نعیم سے ملاقات نہیں ہو سکی۔ ایک بار ڈیرہ غازی خان گیا تو ڈاکٹر نعیم کو ملنے کا تہیہ کر کے گیا وہاں جا کر پتہ چلا کہ ڈاکٹر نعیم سے ملاقات اس لئے ممکن نہیں ہے کہ وہ بیمار رہتے ہیں اور کسی سے نہیں ملتے میں نے پھر بھی ان سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا تو نذیر شاہ نے کہا کہ اول تو وہ آپ کو ملیں گے نہیں اور اگر ملیں گے بھی تو وہ آپ کو پہچان نہیں پائیں گے کیونکہ ان کی یاداشت کے ساتھ مسئلہ ہے اور وہ لوگوں کو نہیں پہچان سکتے۔
میں نے پھر بھی ان کے فون پر کال ملائی ان کی بیٹی سوجھلا نے فون اٹھایا کہا کہ فون اس کے پاس ہے اور وہ گھر جا کر میری بات کرائیں گی لیکن بات پھر بھی نہ ہو سکی۔
ڈاکٹر نعیم بلوچ ڈیرہ غازی خان کے سیاسی، سماجی اور صحافتی حلقوں کے باقاعدہ اور بھرپور حصہ دار رہے ہیں۔ سیاسی، سماجی محفلوں میں کتنی شامیں، کتنی راتیں ڈاکٹر نعیم کے ساتھ گزریں اگر گنتی کرنے بیٹھوں تو وہ دنوں، ہفتوں، مہینوں پر نہیں بلکہ کئی سالوں پر محیط ہوں گی۔ دفتر سے واپسی پر ڈاکٹر نعیم سوجھلا کلینک پر چلے جاتے پھر بھی کئی سہ پہریں اور شامیں اشرف بزدار کے ساتھ گزارتے،
روزانہ شام ڈھلنے سے پہلے ڈاکٹر نعیم، نسیم میڈیکل سٹور پر پہنچ جایا کرتے تھے وہاں سے وہ نیشل بینک چوک پر واقع برگر شاپ پر روزانہ کی بنیادوں پر منقعد پذیر ہونے والی سیاسی کچہری میں شرکت کے لئے چلے جاتے تھے جس کے روح رواں وہ خود اور شیخ عثمان فاروق ہوا کرتے تھے۔ مختلف پارٹیوں سے وابستہ سیاسی شخصیات بڑے شوق سے اس محفل میں شریک ہوا کرتی تھیں اور اپنی سیاسی وابستگیوں کے مطابق زور شور سے سیاسی بحث میں بے خطر کود پڑا کرتیں تھیں۔ جس سے تلخیاں بھی پیدا ہوا کرتیں تھیں اور قہقہے بھی بلند ہوا کرتے تھے۔
کبھی ڈاکٹر نعیم تلخیوں کو کم کرنے میں اپنا کردار ادا کرتے تو کبھی خود خوب گرم ہو جایا کرتے تھے۔ اس محفل میں صرف سیاسی کارکن اور قائدین شریک نہیں ہوا کرتے تھے بلکہ شہر کی سماجی، ادبی شخصیات اور شعبہ صحافت سے وابستہ لوگ بھی پورے ذوق و شوق سے شریک ہوا کرتے تھے وہ محفل اختتام پذیر ہوتی تو ہمارا اگلا پڑاؤ نسیم میڈیکل سٹور ہوتا رات دو بجے کے قریب میاں نسیم سٹور کر بند کرتے اور سب وہاں سے ٹریفک چوک پہنچ جاتے ٹریفک چوک پر ان گنت راتیں صبحوں میں تبدیل ہوئیں تب رات کے مسافر گھروں کو لوٹتے تھے
اس بیچ دنیا جہان کی باتیں ہوتیں تھیں۔ میں، نذیر شاہ، نومی ملک، آغا ہنی لودھی، علی عارف، منور عباس منور، اسد عباس میرانی، علی باپا، غلام عباس سیفی، اکبر عطائی ٹولیوں کی شکل میں شہر کے گشت پر نکلے ہوتے اور شہر کی کونسی گلی، سڑک یا کونہ نہیں ہوتا تھا جہاں ہم لوگ نہیں جاتے تھے لیکن زیادہ وقت پھر بھی ٹریفک چوک کی نظر ہوتا اور اکثر پراٹھوں کا ناشتہ کرکے گھر جایا کرتےتھے۔
ڈاکٹر نعیم سے میری آخری تفصیلی ملاقات ملتان میں ہوئی تھی کتنے سال گزر گئے یاد نہیں انہوں نے مجھے نشتر میڈیکل کالج کے ایک ہاسٹل میں آنے کا کہا جہاں غالباً ان کا ایک بھانجا پڑھ رہا تھا۔ اس دن ہم کئی گھنٹے ساتھ رہے ادھر ادھر کی خوب باتیں ہوئیں ڈاکٹر ایک مہربان دوست، عزیز اور بڑے کی حیثیت سے کئی باتیں بتاتے اور سمجھاتے رہے پھر وہ چلے گئے۔
اس کے کئی سال بعد ان سے پھر نسیم میڈیکل سٹور پر ملاقات ہوئی، گم صم، چپ چاپ بیٹھے ہوئے تھے میں کچھ دیر بیٹھا رہا اور پھر اٹھ کر چلا گیا میاں نسیم نے بتایا کہ ڈاکٹر نعیم کی طبیعت ٹھیک نہیں رہتی پھر پتہ چلا کہ وہ کچھ دیر کے لیے نسیم میڈیکل سٹور پر آتے ہیں اور گھر چلے جاتے ہیں پھر پتہ چلا کہ اب وہ نہیں آتے اور کلینک پر بھی نہیں جاتے اور گھر رہتے ہیں۔
پروگریسیو سوچ کے حامل ڈاکٹر نعیم سے ہر قسم کی سیاسی سوچ کا حامل بندہ مشورہ کرتا تھا اور ڈاکٹر صاحب نہایت ایمانداری کے ساتھ اس کے فائدے کے مطابق اس کو مشورہ دیتے تھے۔ ‘عجب گالھ اے یا ہک عجب گالھ اے’ ان کا تکیہ کلام تھا۔ خوشی، دکھ، پریشانی، غصہ ڈاکٹر نعیم کچھ بھی نہیں چھپا سکتے تھے ہر بندہ آرام سے ان کے چہرے سے پڑھ لیتا تھا۔
یہ بھی پڑھیں:
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر