ملک سراج احمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چین سے تعلقات کے حوالے سے پاکستان میں ایک عمومی تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ چین ایک بہترین دوست ہے۔اس لیئے چین سے متعلق کہا جاتا ہے کہ پاک چین دوستی ہمالیہ سے زیادہ بلند، سمندر سے زیادہ گہری اور شہد سے زیادہ میٹھی ہے۔دوستی کے اعتبار سے چین ہمیشہ ایک قابل اعتماد ثابت ہوا ہے جب بھی ہماری مشرقی سرحد پر دباو بڑھا ہے تو شمال سے ہمارے لیے ہمیشہ ٹھنڈی ہوا چلی ہے۔ بلا شک وشبہ چین دنیا کی ایک ابھرتی ہوئی معاشی اور عسکری قوت ہے۔دنیا کے مستقبل سے چین کا کردار ختم نہیں کیا جاسکتا۔جس رفتار کے ساتھ چین ابھررہا ہے اس سے فی الوقت دنیا کی واحد سپر پاور امریکہ کو ایک حقیقی چیلنج کا سامنا ہے۔یہی وجہ ہے کہ چین اور امریکہ کے مابین تجارتی جنگ ایک مدت سے جاری ہے۔اور ان دو ملکوں کے مابین جاری کشمکش کے اثرات جنوبی ایشیا پر بھی نظر آرہے ہیں
خطے میں انڈیا اور چین دو بڑے پلیئر ہیں اورہمیں اپنے معروض کے سمجھنے کے لیے انڈیا اور چین کے کردار کو سمجھنا ہوگا۔اگر چین کی ہمارے ساتھ دوستی ہے تو انڈیا امریکہ کے مابین تعلقات بھی انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔اس ضمن میں امریکہ ، جاپان ، آسٹریلیا اورانڈیا کے مابین سکیورٹی اتحاد نا صرف غیر معمولی ہے بلکہ اس کا ہدف چین کو سمجھا جارہا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ چین نے امریکہ کو چیلنج کرنے کے لیے خطے میں نئے دوستوں کی تلاش شروع کردی ہے ۔اس لیئے چین ، ترکی ، پاکستان اور ملائیشیا پر مشتمل ایک نیا گروپ تشکیل دینا چاہتا ہے تاکہ مسلم ممالک پر سے امریکہ اور سعودی عرب کے اثرات کو کم کیا جاسکے ۔دنیا میں قائدانہ کردار کی ادائیگی کے لیئے چین اپنے گرد اتحادی جمع کررہا ہے اور یہ مستقبل میں امریکہ کے لیے کسی چیلنچ سے کم نہیں ہوگا
یہی وجہ ہے کہ چین نے خلیجی ممالک کے ساتھ اپنے روابط کو ماضی کے مقابلے میں بہتر کیا ہے ۔چھ خلیجی ممالک کی تنظیم خلیج تعاون کونسل (جی سی سی)جس میں سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات، بحرین ، عمان اور قطر شامل ہیں کےساتھ چین کے مذاکرات جاری ہیں اور جی سی سی نے حالیہ سعودی دارالحکومت ریاض میں چینی وزیرخارجہ سے ملاقات کے بعد چین کو ایک اچھا دوست قرار دیا۔اور چین نے بھی کہا کہ وہ علاقائی سکیورٹی میں اپنا کردار ادا کرنے کو تیار ہے۔
یہی نہیں بلکہ چین نے گزشتہ دنوں ایران کے ساتھ 450 ارب ڈالر کی بھاری سرمایہ کاری کے معاہدے پر تہران میں دستخط کیئے ہیں۔کوئی شک نہیں کہ معاشی دباو تلے تنہائی کے شکار ایران کے لیے یہ ایک بہت بڑا اوراہم معاہدہ ہے۔بیک وقت جی سی سی سے کامیاب مذاکرات اور ایران کے ساتھ معاہدہ خطے کے لیے نا صرف گیم چینجر ثابت ہوگا بلکہ امریکہ کی مشکلات میں اضافے کا باعث ہوگا۔اس معاہدے سے چین کی گرم پانی تک رسائی مزید آسان ہوگئی ہے۔
امریکی بحریہ کے افسرایڈمرل ایلفریڈ نے ایک بار کہا تھا کہ جو کوئی بھی بحیرہ ہند پر اثرورسوخ قائم رکھے گا وہی دنیا پر اثر رسوخ رکھے گا۔اور چین کا بحیرہ ہند پر اثر ورسوخ آئے روز بڑھ رہا ہے اور امریکہ کی اجارہ داری بتدریج کم ہورہی ہے
خطے کے ایک اور اہم ملک افغانستان میں جہاں امریکی افواج موجود ہیں میں بھی امریکیوں کے انخلا کا وقت آن پہنچا ہے ۔2019 میں شروع ہونے والے انٹراافغان مذاکرات کئی ماہ جاری رہنے کے بعد بالآخر ایک معاہدے پر ختم ہوئے۔اس معاہدے پر افغان طالبان رہنما ملا عبدالغنی برادر اور امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے دوحہ میں 29فروری 2020 کو دستخط کیئے جس کے مطابق امریکی افواج 14 ماہ بعد مئی 2021 میں افغانستان سے نکل جائیں گی۔تاہم ٹرمپ کی شکست کے بعد بائیڈن انتظامیہ نے امریکہ افواج کے انخلا پر نظر ثانی کا عندیہ دیا ہے جس پر طالبان کے ترجمان نے کہا کہ اگر معاہدے کی پاسداری نا کی گئی تو امریکی افواج پر حملے ہوں گے۔
ان متوقع حملوں کو روکنے کے لیے بائیڈن انتظامیہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رابطے میں ہے یقینی طورپر امریکہ کی خواہش ہوگی کہ پاکستان افغان طالبان کو امریکی افواج پر حملوں سے باز رکھنے میں اپنا اثرورسوخ استعمال کرے۔ان حالات میں امریکہ کو پاکستان کی ضرورت ہے اور شائد اسی لیئے مودی اور عمران خان کے مابین خط وکتابت کا سلسلہ شروع کرایا گیا ہے کہ جب تک افغانستان میں امریکی افواج موجود ہیں پاکستان مطمئن رہے اس کی مشرقی سرحد پر کوئی جارحیت نہیں ہوگی۔تاہم اگر یکم مئی سے امریکی افواج کا انخلا شروع نا ہوا تو طالبان کے ممکنہ حملوں سے خطے میں کشیدگی میں اضافہ ہوسکتا ہے
ان حالات میں پاکستان میں سیاسی استحکام امریکہ اور اسٹیبلشمنٹ کے لیے بہت ضروری ہوگیا ہے اور سیاسی تبدیلی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔اور یہ بات شاید اپوزیشن کو بھی یا تو سمجھ آگئی ہے یا پھر سمجھا دی گئی ہے کہ ملک کسی قسم کی سیاسی تبدیلی یا سیاسی عدم استحکام کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
اسی لیے ہوسکتا ہے کہ پاکستان کی اپوزیشن کی جماعتیں حکومت کو مزید وقت دینے پر راضی ہوجائیں اور آہستہ آہستہ اپنی احتجاجی تحریک کی شدت میں کمی لے آئیں جو کہ پہلے ہی شدت میں کمی آنا شروع ہوچکی ہے۔مگر حکومت اپنی بقیہ مدت میں معاشی عدم استحکام ، قرضوں کی ادائیگیوں کے بوجھ،ناقص طرز حکمرانی ، مہنگائی میں ہوشربا اضافے اور متحرک اپوزیشن کے سبب شدید دباو کا شکار رہے گی اور اس کے ڈلیور کرنے کے چانسز مزید کم ہوسکتے ہیں۔
اگر افغانستان میں امن وامان کے حالات بگڑ گئے تو ڈو مور کے مطالبے کے سبب حکومت پر دباو مزید بڑھ جائے گا۔اگر افغانستان پرامن نا رہا تو خطے میں تشدد کی ایک نئی لہر شروع ہوسکتی ہے۔اوراگرامریکی افواج نکل جاتی ہیں تو بھی افغان طالبان کے کابل سے مذاکرات کی کامیابی کی امید کم ہی ہے اور ہوسکتا ہے کہ کابل کو فتح کرنے کے لیے ایک نئی خونریز لڑائی شروع ہوجائے اگر ایسا ہوا تو امریکی افواج کو افغانستان میں ایک طویل مدت تک رہنے کا جواز مل جائے گا جو کہ شائد چین کو منظور نا ہو۔
برائے رابطہ 03334429707
وٹس ایپ 03352644777
یہ بھی پڑھیے:
ڈانسنگ ایلیفینٹ ۔۔۔ ملک سراج احمد
وہ لڑکی لال قلندر تھی ۔۔۔ملک سراج احمد
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو ۔۔۔ ملک سراج احمد
بے نظیر بھٹو کی پکار: الوداع پاپا ۔۔۔ملک سراج احمد
عوام کے حق حاکمیت کی فیصلہ کن جنگ۔۔۔ ملک سراج احمد
حضرت خواجہ غلام فرید ؒ – پیلوں پکیاں نی وے، آ چنوں رل یار ۔۔۔ ملک سراج احمد
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر