ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سرائیکی وسیب قدرتی طور پر ہمیشہ سے باغات کی سرزمین رہا ہے ۔یہ اس بناء پر ہے کہ وسیب میں پانی وافر مقدار میں ہمیشہ سے موجود رہا ۔ وسیب کو تاریخی کتب میں سپت سندھو یعنی سات دریائوں کی سرزمین کے نام سے پکارا جاتا ر ہا۔
وسیب کے مرکزی شہرملتان کو پوری دنیا میں ’’مینگو سٹی‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے کہ ملتان میں آم کے وسیع باغات ہیں اور یہاں کا آم لذت اور ذائقے میں پوری دنیا میں اپنی مثال آپ ہے۔ گزشتہ صدی کے آخری عشر ے میں آم کے باغات کو بیماری لگی اور بہت سے باغات تیزی سے ختم ہوئے مگر چند ہی سال میں بیماری ختم ہوئی اور باغات بحال ہی ہوئے تھے کہ ہائوسنگ اسکیمیں آ گئیں جس سے نہ صرف یہ کہ باغات اُجڑنے لگے بلکہ دھڑا دھڑ آم کے پودے قتل ہونے لگے۔
ایک اندازے کے مطابق چند سال میں 15سے 20 ہزار ایکڑآم کے باغات ختم ہو چکے ہیں ۔باغات کے کٹنے سے ماحولیاتی آلودگی بڑھ رہی ہے موسم میں شدت آ رہی ہے گرمی کا موسم آنے سے پہلے گرمی ہو چکی ہے۔اس بارے حکومت کی خاموشی بھی لمحہ فکریہ ہے ۔یہ صورتحال دیکھ کر دل خون کے آنسو روتاہے کہ آم کا باغ مشکل سے تیار ہوتا ہے ، ایک بچے کو پالنا اور آم کے پودے کو پالنا برابر سمجھا جاتا ہے۔ آم کا باغ تیار کرنا کس قدر مشکل ہے؟
یہ بتانے سے پہلے میں آم کی اقسام کا ذکر کروں گا کہ آم کی مشہور ورائٹیوں میں ثمر، بہشت، انور رٹول، سندھڑی، لنگڑ ، دُسیری، مالٹا ،سرولی ،لب معشوق، غلاب ،غلاب جامن، کالا پہاڑ ،فجری، فجری گولہ،غبالی،صدقہ پنجتن ،صنوبر ،طوطا پری، چونسہ ، چونسہ لیٹ،زلف بنگال،سوبھ آلی ٹنگ، سہاگ ،دلپسند،نازک بدن ،مکھنْ ،منڈھی، خانگڑھی بچہ ،ملتانی بادشاہ نواب ،آمن عباسی ،پسند مہے، اشک ملتان، رومان ،بے نظیر بہاولپوری، انوکھا سردا، مٹھا ،منٹھار ،ہاں ٹھار ، زعفران ،زمرد یہ صرف چند نام ہیں
اسی طرح دوسرے سینکڑوں ناموں کا ذکرمختصر مضمون میں ممکن نہیں ،لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ سینکڑوں نام آم کی اہمیت اورپیدواری وسعت کو ظاہر کرنے کیلئے کافی ہے۔اصل تخمی آم ہے جو زمانہ قدیم سے چلا آ رہا ہے ، وسیب میں اسے ’’دیسی ‘‘ آم بھی کہا جاتا ہے ،دیسی آم کی بہت سی ورائٹیاں جن کے الگ الگ ذائقے الگ الگ ر نگ اوران کے الگ الگ وزن ہیں ۔
تخمی یا دیسی آم میں پیوندکاری ہوئی اور آم کی نئی نسل ’’ پیوندی آم‘‘ کے نام سے موسوم ہوئی ۔پیوندی آم کو قلمی آم بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس کا پیوند آم کی ’’قلم ‘‘ سے ہوتا ہے ،یہ آم برائیلر مرغی کی طرح وزن میں بھاری اور عمر میں کم ہوتا ہے اس آم کا استعمال عام ہو چکا ہے ۔آم کے باغات وسیب کے لئے کسی نعمت سے کم نہیں ان کو بچانا ضروری ہے۔
اس بارے تھوڑی سی تفصیل عرض کروں کہ میرے دادا حضور جام غوث بخش دھریجہ اچھے خاصے زمیندار تھے مگر پانچ شادیاں کر ڈالیں ، اُن کا ایک اور شوق اچھی نسل کی گھوڑی رکھنا اور تیسرا اچھی نسل کے بیل رکھنے کے ساتھ بیلوں کے مقابلے کرانا ۔ سرائیکی میں اس کو ’’ہاٹھ‘‘ کہتے ہیں۔ انہیں بچپن سے دیکھا کہ ہاٹھ پر میرے دادا سئیں بہت خرچ کرتے دور درازسے بیلوں کی جوڑیاں آتیں اور مقابلے ہوتے۔
زمین کی کاشت کے لئے نہری پانی بہت کم دستیاب ہوتا کہ ہماری نہرششماہی تھی مگر وہ بھی پورے 6ماہ نہیں چلتی تھی۔ زمین ٹیل پر ہونے کی وجہ سے پانی کی قلت کا سامنا رہتا ، بستی دھریجہ نگر میں گھر کے ساتھ والی زمین کنویں سے سیراب کی جاتی تھی ، کنویں پر باری باری دو بیل چلتے ایک کا نام ’’تیلا ‘‘تھا اور دوسرے کا ’’ڈبہ‘‘۔ جب صبح کے وقت ڈبہ کنویں پر جوتا جاتا تو سرائیکی لوک گیت ’’واہے بھئی واہے ڈبہ ڈاند بیلی ‘‘سننے کو ملتا۔دادے حضور کا باغ نہیں تھا البتہ آم ،کھجور اور مالٹے کے کچھ پودے کاشت کئے ہوئے تھے ۔
سب سے زیادہ دقت آم کے پودے کی رکھوالی ہے۔خصوصاً ان حالات میں جہاں پانی کی قلت ہو اور کاشت کار کو پانی دور سے بھر کرلانا ہو تو بہت مسئلہ ہوتا ہے۔یہی مسئلہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ میرے دادا اور میرے چچا (حاجی عید احمد دھریجہ کے والد) جام اللہ وسایا دھریجہ دور سے پانی بھر بھر کر آم کے پودوں کو دیتے۔ ذکر چلاہے تو یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ میں کوئی مثالی کاشتکار یا باغبان نہیں ہوں مگر کاشتکار ی اور باغبانی کیلئے استعمال ہونیوالے بہت سے آلات کے نام مجھے یاد ہیں اور ان کے نقش نین سے بھی واقف تھا۔
مزید برآں ایک کام یہ ہوا کہ سرائیکی زبان کے عظیم لکھاری پروفیسر شوکت مغل (مرحوم)کی کتاب ’’اصطلاحات پیشہ وران‘‘ ہم نے اپنے ادارے کی طرف سے شائع کی ، تقریباً ایک ہزار صفحات کی اس کتاب میں 200 سے زائد دستکاروں ،پیشہ وروں اور ہنر مندوں کے اصطلاحی الفاظ و تراکیب سرائیکی زبان میں اُردو ترجمے کیساتھ اس میں شامل ہیں۔اس کتاب میں ایک حصہ باغبانی کا ہے جس میں بہت سی اصطلاحات کا ذکر ہے جن میں سے چند ایک کا ذکر کروں گا کہ باغ میں کام کرنے والے مالی کو سرائیکی میں ’’باغ وان‘‘ کہتے ہیں۔
درختوں کے وہ سوراخ جن میں طوطے بسیرا کرتے ہیں اُسے ’’پول‘‘ کہا جاتا ہے۔دو شاخا لکڑی کو ’’انگھا ‘‘کہتے ہیں۔بیل جو زمین پر بڑھتی ہے اُسے ’’ولھ ‘‘ کہتے ہیں۔اور درخت کو ’’ونْ‘‘ کہا جاتا ہے۔خود کاشت باغ کو ’’ہتھ رادھ‘‘ کہتے ہیں۔کانٹے دار جھاڑیاں اکٹھی کرنیوالے آلے کو ’’بٖیاناں‘‘ کہتے ہیں۔ پھَل گرانے والے آلے کو ’’جھانبا‘‘ کہا جاتا ہے۔ چھوٹی کلہاڑی کو ’’چھاوی‘‘ کہتے ہیں۔اسی طرح کچھ دوسرے الفاظ جیسے ڈٖندالی، رَنبا، ڈٖاتری ، کہی، کھنبانْی ، لاکڑا، وہولا ،چھلر، خشتکا، چیڑھ، جنگھا، ٹھپی، راٹھاوغیرہ سمیت سینکڑوں آلات ہیں جن کے اپنے اپنے خوبصورت معنے ہیں اور صحیح لطف ان آلات اور آلات کے عمل کودیکھنے میں ہے۔
ایک افسوس اس بات کا ہے کہ وسیب پر بہت کم تحقیقی کام ہوا اور وسیب کا خوبصورت منظر اب بھی دنیا سے اوجھل ہے۔ کسی بھی علاقے کی یونیورسٹی کا پہلا مقصد مقامی زبان و ادب اور تہذیب و ثقافت کے ساتھ ساتھ مقامی تاریخ، آثار اور جمادات و نباتات پر تحقیقات ہوتا ہے۔ وسیب میں پہلے تو یونیورسٹیاں نہیں اور جو چند ایک ہیں انہوں نے بھی اپنا حق ادا نہیں کیا ۔
یہ بھی پڑھیں:
ایک تاریخ ایک تہذیب:چولستان ۔۔۔ظہور دھریجہ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر