نومبر 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سیاست کی بدلتی کروٹ، کون کس حد تک جانے کو تیار ہے؟|| محمود جان بابر

مستقبل قریب میں سینیٹر دلاور اور ان کے دوستوں کی اہمیت بڑھتی نظر آ رہی ہے اور سیاسی جماعتیں جتنی بھی کوشش کر لیں وننگ نمبر پھر بھی انہیں چند آزاد یا باپ کے اراکین کے پاس ہوگا۔

محمود جان بابر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

.

بہت کوشش کی کہ اس واقعے کا حوالہ دیے بغیر ہی اپنی بات مکمل کرلوں لیکن کامیاب نہ ہو پایا۔

ایک تھے بادشاہ وقت، ان کو بڑا شوق تھا انوکھے قسم کے کپڑے پہنے جائیں اور جو بھی انہیں یہ کپڑے بنا کر دے گا وہ اسے بہت بڑا انعام دیں گے، بہت سے لوگ اپنے اپنے بنائے ہوئے کپڑے لے کر آئے لیکن بادشاہ کو پسند نہیں آئے آخرکار محل میں دو ایسے پارچہ باف (کپڑا ساز) آ گئے جنہوں نے دعوی کیا کہ وہ ایک ایسا کپڑا تیار کر سکتے ہیں جسے آج تک کسی نے نہیں پہنا اور وہ یہ کپڑا ایک مہینے میں تیار کر کے دے سکتے ہیں ہاں البتہ یہ کپڑا صرف عقل مندوں کو ہی نظر آئے گا۔

اب بادشاہ کو بھی بڑا تجسس ہوا کہ جلدی یہ کپڑا بنا جائے۔ اگلے دن دونوں پارچہ باف اس کپڑے کے بننے کے لئے ایک مشین اٹھائے محل میں آئے اور اسے ایک کونے میں لگادیا، کپڑے کے ساتھ ساتھ یہ مشین بھی نظر آنے والی نہیں تھی لیکن محل کے کسی وزیر، مشیر یا کارندے نے کچھ نہیں کہا ایسا نہ ہو کہ عقل مندوں کی فہرست سے نکالے جائیں اور لگی روٹی بند ہو جائے۔ یہ کاریگر ایک مہینے تک اس خیالی مشین پر خیالی کپڑا بنتے رہے اور سارا سارا دن کام کرتے، ہر آنے جانے والا انہیں داد دیتا اور اس نظر نہ آنے والے کپڑے کی خوبصورتی کا ذکر ضرور کرتا۔

اسی دوران مہینہ گزر گیا اور کپڑے بادشاہ کو پہنانے کا وقت آ پہنچا۔ منادی کروا دی گئی اور رعایا کو اگلے روز شہر کے سب سے بڑے میدان میں جمع ہونے کا کہا گیا، سب وہاں آئے بادشاہ سلامت کو ایک بڑی بگھی میں کھڑا کر کے ان کے پہلے والے کپڑے اتارے گئے اور دونوں کاریگروں نے بادشاہ کو بڑے طریقے سے وہ کپڑے پہنائے۔ اب بادشاہ کو بگھی میں میدان کے اردگرد پھرایا جانے لگا سب لوگ بادشاہ کی نئی پوشاک کی تعریف کر رہے تھے کہ اچانک ہجوم میں کھڑے ایک بچے نے آواز لگائی کہ بادشاہ تو ننگا ہے۔ اس نے تو کچھ نہیں پہنا ہوا۔

سب چونک گئے اور اچانک ان کو بچے کی بات کی حقیقت کا احساس ہوا۔ بس پھر کیا تھا بادشاہ نے اپنی رہی سہی عزت کو ہاتھوں سے چھپانے کی کوشش شروع کی اور بگھی کو واپس محل کی طرف دوڑایا گیا۔

پارچہ بافوں یعنی نوسر بازوں کے ساتھ کیا تاریخ تو اس حوالے سے خاموش ہے ہاں البتہ محلوں کے اندر خوشامد گری کا پیشہ پوری طرح پنپتا ہوا آج بھی پورے عروج پر پایا جاتا ہے۔ ہر کوئی کپڑا بننے کے اس عمل میں خود شامل ہے یا سب کچھ نظر آنے کے باوجود بھی خاموش ہے کہ ایسا نہ ہو کھیل سے باہر کر دیا جائے۔

کئی دن سے بنوں جانی خیل میں چار جوانوں کی لاشیں پڑی ہیں، سب اس پر خاموش ہیں پانچویں چھٹے دن ”ہجوم میں موجود بچوں“ کی جانب سے آوازیں لگنے کے بعد اب حکومت بھی ہوش میں آ چکی ہے اور بیان دیا گیا ہے کہ جلد ہی اس واردات میں ملوث لوگوں کو سامنے لایا جائے گا۔

کرک میں حریم فاطمہ نامی چار سالہ بچی کو جنسی تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کیا جا چکا ہے اس کا قاتل ابھی قانون کے شکنجے میں نہیں آیا۔ یہ دونوں وارداتیں ایک ایسے وقت میں ہوئیں جب ملک کے سب سے بڑے آئینی ادارے یعنی پارلیمان میں پاکستان بھر سے سب سے زیادہ اعتماد کے قابل سمجھے جانے والے اراکین ایوان بالا کی مختلف نشستوں پر لوگوں کے انتخاب کے عمل سے گزر رہے تھے۔

پارلیمان کے اندراس دنگل میں حکومت اور اس کے حامی اپنی جیت اور اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم کے لوگ اپنی جیت کے لئے کوشاں تھے۔ سارا زور ایک دوسرے کو پچھاڑنے پر تھا لیکن اتنے دن گزرنے کے باوجود اس عوامی نمائندہ پارلیمان کے کسی کونے سے بنوں کے چار جوانوں اور کرک کی حریم فاطمہ کے نام پر کوئی ایک لفظ نہیں کہا گیا۔

عوام کے یہ سب سے زیادہ قابل اعتماد اراکین پارلیمنٹ سمجھتے رہے کہ کوئی انہیں نہیں دیکھ رہا لیکن یہ ان کی خام خیالی ہے آج ہی ایک عام آدمی کی جانب سے میرے واٹس ایپ میں موصول ہونے والے ایک پیغام سے اندازہ ہوا کہ معاشرے میں موجود ”بچوں“ کی بادشاہوں کی بگھیوں پر نظر ہے اور انہیں خوب معلوم ہے کہ کون کپڑے پہنے ہوئے ہے اور کون۔ ہے۔ اس میسج کو آپ بھی پڑھیں۔

پہلا منظر: سنجرانی کو سینٹ کا چیئرمین بنانے کے لئے پیپلز پارٹی کے یوسف رضاگیلانی نے سات ووٹ اسے دیے۔
دوسرا منظر: پیپلز پارٹی کے یوسف رضا گیلانی کو لیڈر آف دی اپوزیشن بنانے کے لئے سنجرانی نے اسے چھ ووٹ دیے۔

تیسرا منظر: صادق سنجرانی چیئرمین سینٹ اور یوسف رضاگیلانی لیڈر آف دی اپوزیشن۔
چوتھا منظر: اکثریت نہ ہونے کے باوجود صادق سنجرانی چیئرمین سینٹ
پانچواں منظر: اپوزیشن کی اکثریت سے محرومی کے باوجود یوسف رضا گیلانی قائد حزب اختلاف

چھٹا منظر: تحریک انصاف سینٹ میں سب سے بڑی جماعت ہونے کے باوجود چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے عہدوں سے محروم
ساتواں منظر: مسلم لیگ نون اپوزیشن کے سب سے زیادہ ووٹ رکھنے کے باوجود سینٹ میں اپوزیشن لیڈر کے عہدے سے محروم

آٹھواں منظر: جماعت اسلامی نے حکومت اور اپوزیشن کو ایک ہی سکے کے دو رخ قرار دے کر سینٹ میں یوسف رضا گیلانی اور مولانا عبدالغفور حیدری کو ووٹ نہیں دیے۔
نواں منظر: جماعت اسلامی نے اپنے ووٹ سے اسی ہار والے یوسف رضا گیلانی کو لیڈر آف دی اپوزیشن بنالیا۔
دسواں منظر: چیئرمین، ڈپٹی چیئرمین اور لیڈر آف دی اپوزیشن سب ”باپ“ کے منتخب کردہ اور پارٹیاں بھی ”باپ کمپنی“ کے حکم کے منتظر

خلاصہ: سب ہی ایک صف میں کھڑے ہو گئے اور ناں کوئی کرپٹ رہا اور ناں ہی صاف۔ سکے کے دونوں رخ بھی اب الگ الگ ہو گئے۔

ایک کھچڑی سی پکی ہوئی ہے حکومت ہو یا اپوزیشن کسی کا دامن بھی اس کھیل اور عوامی مینڈیٹ کے ساتھ کھلواڑ کے داغوں سے بچ نہیں پایا۔ یہ بات سب کی سمجھ میں آ رہی ہے کہ حکومت اپنی سیاسی جیت کے لئے اپوزیشن کے اندر پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر ہر حد تک گئی۔

پیپلز پارٹی پی ڈی ایم کا حصہ ہوتے ہوئے بھی کھلم کھلا حکومتی حمایت یافتہ ”باپ“ کے امیدواروں کو کامیاب کرتی رہی اور اپنے امیدوار کے لئے اس کے ووٹ لیتی رہی، اے این پی اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم کا بھی حصہ ہے اور وہ لیڈر آف دی اپوزیشن کے انتخاب کے موقع پر یوسف رضا گیلانی کو ووٹ دیتی رہی، جماعت اسلامی ”کھوٹے سکوں“ کو ووٹ دے کر خود کو بری الذمہ سمجھ رہی ہے کہ اس نے اس کھیل میں اپنے آپ کو بچائے رکھا۔ جمعیت علما اسلام کے ڈپٹی چیئرمین سینٹ کو کم ووٹ پڑنے کی وجوہات بھی سامنے آ چکی ہیں کہ کس جماعت کی خواتین نے اتحادی ہونے کے باوجود اس کے امیدوار کو ووٹ نہیں دیا۔

اس سارے عمل میں سب سے زیادہ کارآمد ثابت ہونے والے ”باپ“ کے ووٹرز فائدے میں ہیں اور مستقبل قریب کے بنتے نقشے سے معلوم ہو رہا ہے کہ اب کے بعد ملکی سیاست میں عوام چاہے جسے بھی ووٹ دیں پارلیمان کے اندر وہی جیت کر اوپر آئے گا جسے ”باپ“ کا کندھا دستیاب ہوگا اور باپ کس کے کہنے پر اپنا کندھا کب کسے پیش کرے گی یہ بھی کوئی چھپی حقیقت نہیں رہی۔

مستقبل قریب میں سینیٹر دلاور اور ان کے دوستوں کی اہمیت بڑھتی نظر آ رہی ہے اور سیاسی جماعتیں جتنی بھی کوشش کر لیں وننگ نمبر پھر بھی انہیں چند آزاد یا باپ کے اراکین کے پاس ہوگا۔ بعض ناقدین کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی اس نئے انتظام کو سمجھ چکی ہے اور مستقبل قریب کے نقشے میں خود کو فٹ کرنے کے لئے حاضری لگوا چکی ہے اور یوسف رضا گیلانی کا اس طریقے سے لیڈر آف دی اپوزیشن کا انتخاب اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔

یہ بھی پڑھیے:

افغانستان، جنگ کے پلٹتے سائے۔۔۔ محمود جان بابر

کانچ کا وجود اور پتھر سے دشمنی۔۔۔ محمود جان بابر

پاکستان میں افغانوں کے چالیس سال ۔۔۔ محمود جان بابر

About The Author