وسعت اللہ خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ عرف پی ڈی ایم 20 ستمبر 2020 کو پیدا ہوئی اور ’اسٹیبلشمنٹ کی مسلسل سیاسی مداخلت‘ اور ’سلیکٹڈ’ حکومت کے خاتمے اور ’ووٹ کو عزت‘ دلوانے کی جدوجہد کے دوران اپنے ہی وزن تلے آ کر 12 مارچ 2021 کو پانچ ماہ 22 دن کی عمر میں بظاہر اچانک فوت ہو گئی۔
گذشتہ 57 برس کے دوران 1964 میں ایوب خان کے خلاف بننے والے پانچ جماعتی کمبائنڈ اپوزیشن پارٹیز نامی اتحاد، 1968 میں تشکیل پانے والی ڈیموکریٹک ایکشن کمیٹی، 1974 میں قائم ہونے والے یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ، 1977 کے پاکستان قومی اتحاد، 1983 کی موومنٹ فار ریسٹوریشن آف ڈیموکریسی اور سنہ 2002 میں بننے والے اے آر ڈی سے موازنہ کیا جائے تو پی ڈی ایم کی سیاسی و اتحادی زندگی سب سے مختصر رہی۔
اگرچہ ابھی باضابطہ کتبہ نصب نہیں ہوا کیونکہ اس پر بھی اختلاف ہے کہ سنگِ مزار پر کون سا شعر مناسب رہے گا۔
سامان سو برس کا ہے، پل کی خبر نہیں
یا پھر
میری نمازِ جنازہ پڑھائی غیروں نے
مرے تھے جن کے لیے وہ رہے وضو کرتے
چند عینی شاہد باز کہتے ہیں کہ ہاتھیوں کی لڑائی میں جیسے گھاس کچلی جاتی ہے، کچھ ایسا ہی ماجرا پی ڈی ایم کے ساتھ بھی ہوا جبکہ مولانا مہاوت دونوں ہاتھیوں کا ایک ایک دانت پکڑے جھول رہے ہیں۔
کچھ سمجھتے ہیں کہ نیت تو کپتان الیون سے ٹیسٹ میچ کھیلنے کی تھی مگر پی ڈی ایم نیٹ پریکٹس کے دوران ہی جھگڑ لی۔ طے یہ پایا تھا کہ وکٹیں نون لائے گی، گیند مولانا کروائیں گے اور بلّا پیپلز پارٹی کا ہوگا جبکہ دیگر سات کھلاڑی فیلڈنگ کریں گے۔
پہلی باری زرداری نے یہ کہہ کر لی کہ بلّا میرا ہے۔ خوب چوکے چھکے لگائے اور فیلڈرز کو ہنپایا۔ جیسے ہی مولانا کی ایک گگلی پر نون کے وکٹ کیپر نے کاٹ بیہائنڈ کیا، زرداری صاحب ’ہم نہیں کھیلتے‘ کہتے ہوئے بلّا گھماتے بھاگ گئے۔
اس واقعے کو ایک اور مختلف پیرائے میں صوفی تبسم کے مداح ایک نوجوان نے یوں دیکھا ’مولانا نے دی ایک اکنی، میاں نے دی ڈیڑھ دونی، مریم لائی دیا سلائی، زرداری نے آگ جلائی، پی ڈی ایم نے کھیر پکائی، جونہی دسترخوان بچھایا، آپس میں ہو گئی لڑائی، کھیر کسی کے ہاتھ نہ آئی۔‘
ایک نے پھبتی کسی کہ پی ڈی ایم اپنے کندھے پر جو قالین پانچ لاکھ روپے کا بتا کر نکلی تھی بالآخر یوسف رضا گیلانی یہ قالین صادق سنجرانی کو 500 روپے میں بیچ کر آخری بس میں سوار ہو گئے۔
وہ زمانے لد گئے جب تحریکیں عام آدمی کے بنیادی مسائل کو علم بنا کر نکلتی تھیں۔ صرف پاکستان میں ہی نہیں دنیا بھر میں سیاسی پارٹیاں ریاست اور کارپوریشنز کی بے پناہ طاقت کے آگے بے بس ہوتی جا رہی ہیں۔
چنانچہ آمرانہ رجحانات ان سماجوں کو بھی لپیٹ میں لے چکے ہیں جو کچھ عرصے پہلے تک خود کو جمہوری مثالیہ بتا کر سینہ چوڑا کر کے چلا کرتے تھے، جیسے امریکہ، برطانیہ، فرانس، انڈیا وغیرہ۔
رہی بات برصغیر کی تو پچھلے پانچ ہزار برس کی تاریخ گواہ ہے کہ یہاں کبھی انقلاب نہیں آیا۔ جس جس نے بھی حکومت کی اس نے کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر سٹیٹس کو بہت زیادہ چھیڑے بغیر حکمرانی کی۔
یہ خطہ سینکڑوں نسلوں، ثقافتوں، عقائد، زبانوں اور جغرافیائی شناختوں کا ملغوبہ ہے۔ جس کسی نے بھی اسے ایک لڑی میں پرونے یا اپنے ترازو میں تولنے کی کوشش کی اس نے منہ کی کھائی، لہٰذا یہاں جو بھی انتظام ہو گا وہ وسیع تر مفاہمتی نظام ہی ہو گا۔
انقلاب کا نعرہ ضرور لگتا رہے گا مگر دلوں کو گرمانے کی حد تک۔ ہمارا خطہ وہ ترازو ہے جس کے دونوں پلڑے کبھی برابر نہیں ہو سکتے۔ کبھی ایک پلڑا جھکے گا تو کبھی دوسرا۔
یہ زمانہ روایتی نظریاتی سیاست کے لیے بھی سازگار نہیں۔ عرب سپرنگ خود رو تھی۔ ناکام ضرور ہوئی لیکن ضروری تو نہیں کہ اگلی بہارِ عرب بھی خزاں میں بدلے۔ انڈیا کا کسان کسی بھی سیاسی قوت پر بھروسہ کیے بغیر اپنی لڑائی خود لڑ رہا ہے کیونکہ وہاں کلاسیکی سیاست کا دیوالیہ نکل چکا ہے۔
برما میں سمجھوتہ زدہ نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی بھی فوج سے ہضم نہ ہو سکی، چنانچہ موجودہ مزاحمتی دور میں عوام اپنی قیادت خود کر رہے ہیں۔ یہ لڑائی ہی بالآخر برما میں نئی سیاسی قیادت کو جنم دے گی۔
پاکستان کا موجودہ سیاسی و انتظامی ڈھانچہ بھی اپنی عامل مدت پوری کر چکا ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ حکمران طبقات کی جدی پشتی چالاکیاں اور پینترے بازیاں حالات کو لمبے عرصے تک جوں کا توں رکھ پائیں۔ انقلاب تو خیر نہیں آئے گا لیکن موجودہ انارکی کے نتیجے میں خود رو تبدیلی ضرور آئے گی۔
جو لوگ موجودہ قیادتی نسل میں بدستور انقلابیت یا روحِ اقبال تلاش کرنے پر بضد ہیں وہ بس اتنا بتا دیں کہ اگر لینن کی دس شوگر ملیں ہوتیں، ماؤ پانچ ہزار ہیکٹر موروثی زمین کا مالک ہوتا، ہوچی منہہ کسی بڑے قبیلے کا سردار ہوتا، خمینی وسیع تر قومی مفاد میں بالآخر رضا شاہ سے سمجھوتہ کر لیتا، کاسترو کے آف شور بینک اکاؤنٹس ہوتے، منڈیلا کی دوہری شہریت ہوتی تو پھر روس، چین، ویتنام، ایران، کیوبا، جنوبی افریقہ اور خود لینن، ماؤ، ہوچی منہہ، خمینی، کاسترو اور منڈیلا تاریخ کے کس پائیدان پر پائے جاتے؟
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)
یہ بھی پڑھیں:
قصور خان صاحب کا بھی نہیں۔۔۔وسعت اللہ خان
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر