فہمیدہ یوسفی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تاریخ گواہ ہے کہ پانی زندگی کی بقا کے لیے کتنا اہم ہے اس پانی پر اجارہ داری کے ماضی کے مختلف ادوار میں اقوام کے درمیان خون ریز جنگیں ہوتی رہیں
پاکستان بھارت کے کشیدہ تعلقات تو کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں قیام پاکستان سے ہی بھارت کو پاکستان کی سلامتی آنکھوں میں کانٹا بن کر کھٹک رہی ہے جبکہ مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورتحال اور مودی سرکار کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے بھی پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں کسی قسم کی مثبت پیش رفت نہیں ہوسکی ہے۔
پاکستان بھارت کے درمیان ایک اورسنگین مسلہ درپیش ہے وہ ہے آبی تنازعات جو وقت گزرنے کے ساتھ مزید تلخیوں کا شکار ہوتے جارہے ہیں جبکہ بھارت کے مسلسل چھوٹے بڑے ڈیموں کی تعمیرات اور متنازعہ منصوبوں کے باعث حالیہ سالوں میں دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کو مزید ہوا دی ہے جبکہ بھارتی ہٹ دھرمی کے باعث پاکستان کے لیے پانی کا حصول شدید خطرہ بنتا جارہا ہے۔اور یہ بات بھی غور طلب ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تناؤ خطے کے باہمی تعاون اور علاقائی پیشرفت کے لئے مضمر ہیں ۔
ہندوستان اور پاکستان کے مابین دریا کے وسائل پر کشیدگی باہمی تناؤ کا بڑا سبب ہیں 1947 میں تقسیم اور دونوں ریاستوں کی تشکیل کے دوران ، سرحدی لائنیں کھینچی گئیں جو “انڈس واٹرشیڈ” کے طور پر بیان کی گئیں۔ جبکہ بھارت نے پانی کے بہاو کو کنٹرول کرنے کے بعد اوپر والے راستوں پر قبضہ کرلیا ، جس نے پاکستان میں پانی کے بہاؤ کو متاثرکیا ۔
بھارت اور پاکستان کے مابین سرحد کی ندیوں پاور پراجیکٹ ہندوستان کے زیر انتظام علاقے میں متنازعہ ڈیم منصوبے (جیسا کہ کشن گنگا ڈیم )دونوں ممالک کے مابین کشیدگی کا سبب ہیں ۔
اس تناؤ کا آغاز تو سال 1948 میں بھارت کی طرف سے ہوگیا تھا جب بھارت نے پاکستان کے مشرقی دریاؤں کا پانی بند کر دیا گیا تھا اس کے بعد سےشدید خطرات موجود تھے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کے لیے جنگ ہوسکتی ہے جبکہ یہ خدشات بھی موجود تھے کہ پانی سے محرومی پاکستان کی زمین کو بنجر کردیگا اور قحط سالی اور چٹیل میدان پاکستان کا مقدر بن جائینگے ۔تاہم پاکستان کی مسلسل کاوشوں کے نیتیجے میں 1960میں دونوں ممالک کے درمیان سندھ طاس معاہدہ طے پایا جو صدر ایوب خان اور بھارت کے وزیراعظم نہرو کی زیر نگرانی طے ہوا ۔یہ معاہدہ ورلڈ بینک کی بدولت طے ہوا جس کی ضمانت پر دونوں ملک معاہدے کے لیے رضا مند ہوئے
اس معاہدے کا فائدہ بھی بھارت کو پہنچا،کیوں کہ معاہدے کے تحت دو پاکستانی دریا راوی اور ستلج بھارت کے حوالے کر دیے گئے۔
باقی تین دریا سندھ چناب اور جہلم پاکستان کے حصہ میں آئے۔
ورلڈ بینک نے معاہدے کے تحت پاکستان کو ڈیم بنانے کے لیے کچھ رقم فراہم کی جس کی بدولت پاکستان نے منگلا اور تربیلا ڈیم بنائے۔
لیکن بھارت نے اپنے کیے ہوئے معاہدے کی خلاف ورزی کرنا شروع کردی پاکستانی حصے کے دریاؤں کا پانی روکنے کے لیے ان پر ڈیم بنانا شروع کر دیے۔1984میں دریائے جہلم پر وولر بیراج اور1990میں چناب پر بگلیہار ڈیم اور اس کے علاوہ چھوٹے بڑے درجنوں منصوبے مکمل کر لیے ۔بدقسمتی سے ہمارے اس وقت کے اسٹریٹجک ماہرین کی غفلت کے باعث بھارتی ڈیم کی تکمیل ہونے کے بعد ان کے ڈیزائنز کو عالمی عدالت میں چیلنج کیا تو ظاہر ہے کہ پاکستان کو یہ کہہ کر چپ کرا دیا گیا کہ اب تو ڈیم تعمیر ہوچکے ہیں۔
دوسری جانب بھارت اپنی ہٹ دھرمی اور خلاف ورزیوں سے تاحال باز نہیں آیا اور پاکستانی حصے کے دریاؤں پر سینکڑوں چھوٹے بڑے ڈیمز بنانے کا منصوبہ تیار کرلیا۔جبکہ اس کی جانب سے دریاؤں کا رخ تبدیل کرنے کی بھی منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تناؤ اور سرد مہری میں کمی آنے کی امید ہوچلی ہے جب یہ سفارتی ذرائع سے یہ خبر سامنے آئی ک
ایک تعطل کے بعد پاکستان بھارت آبی مذاکرات دوبارہ بحال ہو گئے ہیں اور 23مارچ کو پاک بھارت آبی وفود میز پر ایکدوسرے کے ساتھ آخر کار بیٹھنے پر تیار ہوۓ اس کا سہرا پاکستان کی کامیاب سفارتی پیش رفت کو جاتا ہے جس کے بعد پاکستان نے پاک بھارت انڈس واٹر کمشنر کا نئی دلی میں ہونے والے اجلاس میں شرکت کا فیصلہ کیا اور پاکستان بھارت کا دو روزہ آبی اجلاس کا انعقاد 23اور24مارچ کو نئی دلی میں ہوا۔
پاکستان کی جانب سے انڈس واٹرکمشنرسیدمحمدمہرعلی شاہ اور ترجمان دفتر خارجہ زاہد حفیظ چوہدری پاکستان کی نمائندگی کی ۔ جبکہ بھارتی وفد کی قیادت انڈس واٹر کمشنر پردیپ کمار سکسینہ نے کی۔
انڈس واٹرکمشنر مہرعلی شاہ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا سال 2018 کے بعدمیٹنگ دوبارہ سے بحال ہوئی، بھارتی سائیڈ نے ہمارے موقف کوپوری توجہ سے سنا ہم پرامید ہیں کہ ہرسال اب یہ میٹنگ کاسلسلہ چلتا رہے گا، گزشتہ میٹنگ میں بھارتی پراجیکٹ پرٹیکنیکل اعتراضات اٹھائے تھے، اعتراضات پر غور کرنے کی گارنٹی دی گئی اور بھارتی حکام نے پاکستان کے دورے کی یقین دہانی کرائی ہے، بھارت نے ما ضی میں مون سون میں فلڈڈیٹاسپلائی مہیاکی، یکم جولائی سے پہلے ایک میٹنگ ہوگی جس میں فلڈ ڈیٹا شیئر ہو جائے گا، یہ تاثرغلط ہے کہ بھارت کے پن بجلی منصوبے مکمل ہورہے ہیں، لوئرکلنائی اورپکل ڈل مستقبل قریب میں مکمل نہیں ہو رہے ، بھارت نے ہمیں کوروناکے دوران بھی مدعوکیا،یہی مثبت پیش رفت ہے۔انڈس واٹرکمشنر نے مزید کہا بھارت نے ہمارے اعتراضات سنے یہ خوش آئندہے۔
خیال رہے کہ پاک بھارت انڈس واٹر کمشنرز کا یہ اجلاس 116واں اجلاس ہو گا اور دو سال کے التواء کے بعد یہ اجلاس ہوا، جبکہ گذشتہ اجلاس دو سال پہلے لاہور میں منعقد ہوا تھا۔
واضح رہے کہ پاکستان اور بھارت کے واٹر کمشنر کو سال میں دو مرتبہ ملاقات اور منصوبوں کی جگہوں پر ٹیکنیکل دوروں کے انتظامات کرنا ضروری ہیں لیکن پاکستان کو وقت پر اجلاس اور دوروں کے حوالے سے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
کورونا پاک بھارت تناؤ اور دیگر عوامل کے باعث دو برس اجلاس منعقد نہیں ہو سکا تھا ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ بھارت کی جانب سے کیے جانے والی یقین دہانیاں پاکستان کی آبی بقا کے لیے کس حد تک قابل عمل ثابت ہوتی ہیں
یہ بھی پڑھیے:
لینڈ مافیا نے سمندر کو بھی نہیں چھوڑا مینگرووز خطرے میں|| فہمیدہ یوسفی
پاکستان کا سمندری نمک بہترین زرمبادلہ ثابت ہوسکتا ہے۔۔۔ فہمیدہ یوسفی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر