عفت حسن رضوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انسان کو اتنا بھی ناشکرا نہیں ہونا چاہیے کہ نعمتوں اور زحمتوں کو ایک ہی پلڑے میں ڈال کر تولنے لگے۔ پاکستان آزادی کا دوسرا نام ہے۔
ایک تو ہوتی ہے عام سی بالکل سادہ سی، یا گلی محلے کی زبان میں کہیں تو بس نام کی آزادی جس کا دعوے دار ہر دوسرا ملک ہے مگر ایک ہوتی ہے مطلق آزادی، مطلق یعنی بےحد و حساب ۔ پاکستان میں وہی آزادی ہے۔
کمزور دل و دماغ کے لوگ سوچ رہے ہوں گے کہ بھلا یہ کیا بات کر دی۔ آزاد پاکستان کا تو سب سے معروف نعرہ ہی آزادی ہے۔ ایسا ملک جہاں ہر 50 کلومیٹر کے بعد جغرافیہ، موسم اور زبان کے ساتھ ساتھ آزادی کے معنیٰ اور ڈیمانڈز بھی بدل جاتی ہیں۔
خواتین کو پدرشاہی سے آزادی مطلوب ہے، مردوں کو ہر قسم کی آزادی درکار۔ سر پھروں کو بندوق والوں سے آزادی کی ضد ہے تو سیاست دانوں کو کھل کر کھیلنے کی آزادی چاہیے۔ کچھ ایسی ہی آزادی میڈیا والے بھی مانگتے ہیں۔
کوئی اپنے مذہبی اور سماجی نظریات پر عمل اور پرچار کے لیے آزادی مانگ لگا رہا ہے اور کسی کو بس ویسے ہی آزادی چاہیے کیونکہ دوسروں کو دیکھ کر اسے لگتا ہے کہ آزادی مانگتے رہو تو بندہ سماجی طور پر ان رہتا ہے اور فیشن ایبل لگتا ہے۔
اتنی انواع الاقسام کی آزادیاں مانگنے والے سب کے سب ناشکرے ہیں۔ انسان صابر و شاکر ہو اور تشکر کے عدسے لگا کر دیکھے تو نظر آئے ہمارے آس پاس آزادیاں ہی آزادیاں بکھری پڑی ہیں جیسے چاہے جو چاہے ان آزادیوں کے مزے لوٹے۔
پبلک بس کی کھڑکی سے چونچ باہر نکال کر سینے میں جمی بلغم، پان کی پیک یا نسوار تھوکنا یا پھر چلتی سڑک پہ اپنی مرضی کی دیوار کے نیچے رفع حاجت کس قدر شخصی آزادی کا احساس دلاتا ہے۔
پاکستان میں گول پہیوں کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ گاڑی جدھر چاہو گھما دو، موٹر سائیکل لہرا دو۔ رکشہ ٹیکسی اپنی مرضی کی مالک ہیں جہاں جی میں آئے کھڑی ہو سکتی ہے۔ سڑک پار کرنے والے بھی من موجی ہیں چاہیں تو گاڑی کے نیچے آئیں چاہیں تو پار کر جائیں۔
حکومت پاکستان کے ہزاروں سرکاری ملازمین کو آزادی ہے کہ چاہیں تو کچھ دیر کے لیے دفتر آئیں، نہیں آنا تو بھوت بن جائیں، مطلب یہ کہ گھوسٹ ملازم بن کر تنخواہ لیے جائیں۔
پاکستان میں نجی کمپنیاں، فیکٹریاں، بینک، سکول اور ادارے بھی اپنی مرضی کے بادشاہ ہیں۔ یہ چاہیں تو سرکار کو ٹیکس دیں نہیں دینا تو سو طریقوں سے ٹیکس کھا جائیں۔ انہیں وارے میں آئے تو یہ ورکرز کو تنخواہ دیں، نہیں دیتے تو بھی پوچھنے والا کوئی نہیں۔
دل کرے تو ندی نالوں پر ملبہ ڈال کر دو منزلہ مکان کھڑا کر لیں، زور چلے تو سڑک کے بیچوں بیچ دکان جما لیں۔ اللہ کی زمین پہ آزادی کا دعویٰ یہاں تک ہے کہ جس مرضی خالی پلاٹ، کھیل کے گراونڈ، پبلک پارک کے پسندیدہ کونے پہ دریاں بچھائیں فائدہ اٹھائیں۔
یہ آزادی ہی تو ہے کہ آپ اس ملک کے حاکم ہوں اور اپنے کاروبار دوسرے ملکوں میں جما لیں۔ ناخدا اس ملک کے بنیں اور اپنی کشتیاں دور پار کے محفوظ ساحلوں سے باندھ آئیں۔ آپ وفا دار ملکہ یا کسی بادشاہ کے ہوں اور پاکستانیوں کی قسمت کے فیصلے کابینہ میں بیٹھ کر سنائیں۔
کہیں ڈھکی چھپی اور کہیں ڈنکے کی چوٹ پہ۔ پاکستانیوں کو آزادی مختلف اشکال میں ملتی ہے۔ بندہ چھوٹا موٹا قانون توڑے تو چائے پانی کا انتظام کر کے ہی آزادی مل جاتی ہے مگر بڑا کام ڈالا جائے تو آزادی قربانی مانگتی ہے مثلاً کرپشن لائق تعزیر ہے لوگ پکڑے بھی جاتے ہیں مگر کرپشن جتنی بڑی سکیم کے تحت ہوگی آزادی کی گارنٹی اتنی ہی پکی ہے۔
یہ بھی پڑھیے:اسی نوے والی سیاست دوبارہ نہیں دیکھنی||عفت حسن رضوی
کبھی رئیل اسٹیٹ، مذہب یا پرتشدد نظریات کے ٹھیکیداروں کو کھلے عام جرم کے باوجود جیل کے پیچھے دیکھا؟ نہیں نہ کیونکہ ان کے پاس آزادی کی منی بیک گارنٹی موجود ہے۔
فوجی ہیں تو آزادی ہی آزادی، سیاست دان ہیں تو ڈیل کی آزادی، جج ہیں توغیر آئینی ہو جانے کی آزادی، پولیس والے ہیں تو قانون کے غلط استعمال کی آزادی اور پریشر گروپ سے ہیں تو قانون ہاتھ میں لینے کی آزادی۔
اور آزادی بتاؤں؟ آزادی یہ ہے کہ پیسے کے دم سے خوشی کی طرح آزادی بھی خریدی جا سکتی ہے۔ یہاں زندہ انسانوں کو کچل کر بھی آپ آزاد گھوم سکتے ہیں بس قیمت چکا دیں۔ ضروری نہیں کہ بس پیسے سے ہی آزادی ملتی ہے۔
بیسیوں اور بھی راستے ہیں جو مشروط آزادی کی سمت جاتے ہیں۔ ان راستوں کو احسان اللہ احسان یا عزیر بلوچ زیادہ بہتر جانتے ہیں۔
یہ والی آزادی، وہ والی آزادی۔ ارے اتنی سی زندگی میں اور کتنی آزادی چاہیے؟
پاکستان میں موجود ان گنت آزادیوں کی طویل فہرست میں یہ چند ایک ہیں۔ اگر طیبعت پہ گراں گزرے تو آپ میرے مشاہدے سے انکار اور میری رائے سے اختلاف کرسکتے ہیں۔ آخرکو آپ بھی آزاد ملک کے آزاد شہری ہیں۔
یہ بھی پڑھیے:
کامریڈ خدا حافظ۔۔۔عفت حسن رضوی
ابا جان کی نصیحت لے ڈوبی۔۔۔عفت حسن رضوی
ہزارہ: میں اسی قبیلے کا آدمی ہوں۔۔۔عفت حسن رضوی
خاں صاحب! آپ کو گمراہ کیا جارہا ہے۔۔۔عفت حسن رضوی
فحاشی (وہ مضمون جسے کئی بار لکھا اور مٹایا گیا)۔۔۔عفت حسن رضوی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر