سہیل وڑائچ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پی ڈی ایم میں اختلافات سب کے لیے گھاٹے کا سودا نہیں، کچھ کو اس کا فائدہ بھی ہو گا۔
مجموعی طور پر تو ان اختلافات سے اپوزیشن کمزور اور حکومت مضبوط ہوئی ہے۔ لانگ مارچ کے ملتوی ہونے اور اجتماعی استعفوں پر اختلافات سے حکومت کو ریلیف ملا ہے۔
دوسری طرف اپوزیشن کا حکومت پر جو دباؤ اور پریشر تھا وہ یک لخت ختم ہو گیا ہے۔
گذشتہ اڑھائی سالہ سیاست میں عمران خان اپنے اصل سیاسی حریف شہباز شریف اور شاہد خاقان عباسی کو گردانتے رہے ہیں۔ وہ ایسا سمجھنے میں حق بجانب تھے کہ اپوزیشن کے ان ہی دونوں لوگوں کی اسٹیبلشمنٹ تک رسائی تھی اور انہی دو کو اسٹیبلشمنٹ کا پسندیدہ سمجھا جاتا تھا۔
اس لیے عمران خان نے شروع سے ہی اپنے احتساب کے ہدف میں ان دونوں کو نشانہ بنائے رکھا، نہ یہ احتساب کے گورکھ دھندوں سے نکلیں اور نہ یہ اپنے اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات کا فائدہ اٹھا کر حکومت حاصل کر سکیں۔
عمران خان اپنی اس حکمت عملی میں بڑی حد تک کامیاب رہے۔ شہباز شریف ابھی تک جیل میں ہیں اور شاہد خاقان عباسی متبادل وزیر اعظم بننے کی بجائے عدالتوں میں انصاف ڈھونڈتے پھر رہے ہیں۔
پی ڈی ایم کے اختلافات بڑھنے سے جہاں عمران خان کو ریلیف ملا ہے وہاں ایک نئی آپشن کھلنے سے ان کے لئے نئے مسائل بھی پیدا ہونگے۔
ان اختلافات کے پس منظر اور پیش منظر کا جائزہ لیں تو کہیں نہ کہیں بلاول بھٹو کے اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات کا حوالہ بھی نظر آتا ہے۔
بلاول بھٹو پیپلز پارٹی کے چیئرپرسن ہونے کی وجہ سے ویسے تو اینٹی سٹیبلشمنٹ ہیں لیکن ذاتی طور پر اسٹیبلشمنٹ سے ان کا رویہ ہمیشہ مفاہمانہ رہا ہے۔
وہ نواز شریف کے جلسوں میں بھی سر عام جرنیلوں پر تنقید کرنے کے خلاف رہے اور گوجرانوالہ جلسہ کے بعد انھوں نے اس کا سر عام اعلان کر کے اپنی پوزیشن کو واضح کر دیا تھا۔
کراچی میں مریم نواز کے کمرے پر پولیس اور رینجرز نے ریڈ کیا تو یہ بلاول ہی تھے جنھوں نے براہ راست فوج سے انکوائری کا مطالبہ کیا۔
جنرل باجوہ نے بھی فوراً اس مطالبے کا نوٹس لیا اور خود بلاول کو فون کر کے یقین دلایا کہ وہ اس معاملے پر نوٹس لیں گے اور پھر واقعی انھوں نے نوٹس لیتے ہوئے دو حاضر سروس بریگیڈئیروں کے تبادلے کا حکم دیدیا اور یوں بلاول کو مایوس نہیں ہونے دیا۔
اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رابطے کے اس ظاہری اظہار کے علاوہ بھی ایسے اشارے ملتے ہیں کہ بلاول بھٹو کو اہم ایشوز پر اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے بریفینگز دی گئی ہیں۔
پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری بھی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مفاہمانہ سیاست کے حامی ہیں اور ان کے بھی اسٹیبلشمنٹ سے نام و پیام جاری رہتے ہیں۔
یوسف رضا گیلانی کے سینیٹ الیکشن سے پہلے آصف زرداری نے اعلیٰ فوجی حکام سے رابطہ کر کے یہ شکایت کی کہ بعض فوجی آفسران اراکین قومی اسمبلی کو اس طرح اپروچ کر کےحکومتی امیدوار کو ووٹ دینے پر زور دے رہے ہیں جس پر انھیں یقین دلایا گیا کہ ایسا نہیں ہو گا اور واقعی دوسرے دن یوسف رضا گیلانی سینیٹر منتخب ہو گئے۔
پیپلز پارٹی کے اسٹیبلشمنٹ سے دوستانہ رابطے اور نام و پیام ویسے تو معمول کی بات ہے مگر تحریک انصاف کے لیے یہ خطرے کی گھنٹی بھی ثابت ہو سکتے ہیں۔
عمران خان کی حکومت کی مضبوطی کی سب سے بڑی وجہ یہ قرار دی جاتی ہے کہ ان کا کوئی متبادل نہیں ہے ن لیگ اسٹیبلشمنٹ کو پسند نہیں اور پیپلز پارٹی پنجاب میں موجود نہیں مگر پیپلز پارٹی کی قربت بلاول بھٹو کو عمران خان کے متبادل کے طور پر کھڑا کر سکتی ہے۔
یہی وہ خطرہ ہے جس کو بھانپتے ہوئے مریم نواز نے یہ ٹویٹ کر دی کہ سلیکٹرز کو ایک نرم سیلیکٹڈ کی تلاش ہے یہ اشارہ واضح طور پر بلاول بھٹو کی طرف تھا۔ شاید اسی لیے بلاول بھٹو نے بھی اس کا جواب دینا مناسب سمجھا اور یہ کہہ کر اس خیال کو مسترد کر دیا کہ میرے رگوں میں سیلیکٹڈ والا خون نہیں۔
یہ لاہور کے ایک سیاسی خاندان کی روایت ہے بیانات کی اس گرما گرمی سے ہٹ کر یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ بلاول کو پی ڈی ایم میں بے شک ولن کی حیثیت سے دیکھا جائے لیکن وہ لازماً اسٹیبلشمنٹ کے حلقوں میں ‘فیورٹ’ کے طور پر دیکھے جا رہے ہوں گے۔
بلاول بھٹو کا نام متبادل وزیر اعظم کے طور پر آنا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔
ان کے پڑ نانا، پھر نانا اور پھر والدہ وزیر اعظم رہی ہیں۔ شاہ نواز بھٹو، ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو کے خاندانی وارث کا اس عہدے کے لیے نام کبھی نہ کبھی تو آنا ہی تھا۔
مگر مسئلہ یہ ہے کہ جب تک پیپلز پارٹی پنجاب میں کوئی قابل ذکر حیثیت نہیں بنا لیتی اس وقت تک عنان اقتدار بلاول کو نہیں مل سکتی۔
ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو پنجاب کے ووٹوں سے ہی وزیر اعظم بنے تھے۔ بلاول کو بھی وزیر اعظم بننے کے لیے سندھ کے ووٹوں کے ساتھ ساتھ پنجاب سے قابل ذکر حمایت کی ضرورت ہے تبھی جا کر وہ سبھی کے لئے قابل قبول وزیر اعظم ہو سکتے ہیں۔
پی ڈی ایم اختلافات سے مولانا فضل الرحمن کی شخصیت اور قیادت دونوں کو نقصان پہنچا ہے۔
پیپلز پارٹی کافی عرصے سے شکایت کر رہی تھی کہ مولانا فضل الرحمن اور مریم نواز ہر معاملے میں پہلے سے مشورہ کر لیتے ہیں اور پھر اس رائے کو پیپلز پارٹی پر ٹھونسنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔
اجتماعی استعفوں کے معاملے میں بھی پیپلز پارٹی کا شکوہ ہے کہ وہ 26 مارچ کے لانگ مارچ کی تیاری کیے ہوئے تھے کہ اچانک دس روز پہلے استعفوں کو لانگ مارچ کے ساتھ نتھی کر دیا گیا، حالانکہ پہلے سے ایسی کوئی بات طے نہیں تھی۔
پیپلز پارٹی کا یہ دیرینہ موقف رہا ہے کہ بُرے سے بُرے حالات میں بھی پارلیمانی سیاست سے دستبرداری سیاسی طور پر نقصان دیتی ہے۔
وہ تو 1985 میں آج سے 36 سال پہلے لگنے والا نقصان بھولنے کو تیار نہیں جب انھوں نے غیر جماعتی انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کی غلطی کی۔
اس کے بعد سے پیپلز پارٹی نے استعفوں کی دھمکیاں تو دی ہیں مگر کبھی اس پر عمل نہیں کیا اب بھی ان کا استعفے دینے کا کوئی ارادہ نہیں۔
ملک کی مجموعی سیاست کو دیکھیں تو پی ڈی ایم کے اندرونی اختلافات سے اپوزیشن کی ہوا اکھڑ گئی ہے پہلے یہ خیال کیا جاتا تھا کہ لانگ مارچ اور اجتماعی استعفے ایسا کار گر حربہ ہیں کہ ان سے تحریک انصاف کی حکومت کو نا قابل تلافی نقصان پہنچایا جا سکتا ہے۔
مگر آپس کے اختلافات نے اس خیال کو نقصان پہنچایا ہے۔ سچ تویہ ہے اب پی ڈی ایم کے لیے مستقبل کا چیلنج حکومت کو ہٹانے کی بجائے اپنے اتحاد کو بچانا ہے۔
پی ڈی ایم کا اتحاد مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں بنا ہی اس لیے تھا کہ حکومت کو گرایا جائے۔
مگر اندرونی اختلافات نے اسکو ایسی جگہ لا کھڑا کیا ہے کہ ایسا کیا فارمولا اختیار کیا جائے کہ اپوزیشن کا اتحاد بھی قائم رہے اور حکومت کے خلاف دباؤ بھی برقرار رہے۔
اگرچہ بلاول اور مریم کے بیانات سے دونوں جماعتوں کے اختلاف بڑھے ہیں مگر دونوں جماعتوں کے سنجیدہ فکر رہنما چاہتے یہی ہیں کہ کسی نہ کسی طرح اتحاد برقرار رہے۔
دیکھنا یہ ہو گا کہ مولانا فضل الرحمن ایسا کیا فارمولا نکالتے ہیں جس سے دونوں بڑی جماعتیں بھی راضی رہیں اور اتحاد بھی نہ ٹوٹے۔
یہ بھی پڑھیں:
عام انسان اور ترجمان۔۔۔سہیل وڑائچ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر