نومبر 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بلاول کے ہاتھوں پی ڈی ایم کا انتقال پُرملال || نصرت جاوید

پیر کے روز پاکستان پیپلز پارٹی کے جواں سال چیئرمین لاہور میں موجود تھے۔ جاتی عمرہ تشریف لے جانے کے بجائے انہوں نے جماعت اسلامی کے مرکزی دفتر میں سراج الحق سے ملاقات کو ترجیح دی۔

نصرت جاوید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

موسمیات کا میں ہرگز ماہر نہیں۔ مارچ 2021 کے تیسرے ہفتے سے مگر پاکستان کے کئی علاقوں میں طوفانی بارشوں کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ 2019 اور 2020 کا مارچ بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ کئی مقامات شدید ژالہ باری کی زد میں بھی آئے تھے۔

تسلسل کی منطق کو نگاہ میں رکھیں تو گماں ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں صدیوں سے قائم بارشوں کا نظام یا Pattern بدل رہا ہے۔  اس کی وجہ سے گندم جیسی بنیادی فصل کو سردیوں کا موسم ختم ہوجانے کے بعد دھوپ کی وہ حدت نصیب نہیں ہوتی جو اس کے دانے کو توانائی فراہم کرنے کے لئے لازمی تصور ہوتی ہے۔ بارشوں کے جھکڑ کئی رقبوں میں گندم کے پودے کو زمین سے لگا دیتے ہیں۔ ان سب عوامل کی بنا پر بالآخر گندم کی مجموعی پیداوار میں کمی کے خدشات لاحق ہوجاتے ہیں۔ ان خدشات کو نگاہ میں رکھتے ہوئے آڑھتی حضرات کاشت کاروں کو نقدم رقوم فراہم کرتے ہوئے ذخیرہ اندوزی کی تیاری شروع کردیتے ہیں۔

گرمی کا موسم شروع ہوتے ہی لہٰذا ’’گندم کا بحران‘‘ نمودار ہوتا ہے اور پاکستان جیسا ’’زرعی ملک‘‘ دیگر ممالک سے اسے درآمد کرنے کو مجبور ہو جاتا ہے۔ کئی ممالک سے جو گندم آتی ہے وہ ہمارے جبلی ذائقہ کے معیار کے مطابق نہیں ہوتی۔ ذائقہ سے وابستہ ’’عیاشی‘‘ سے قطع نظر اہم ترین بات یہ بھی ہے کہ کم آمدنی والے طبقات کے لئے روٹی مزید مہنگی ہو جاتی ہے جبکہ ان کی آمدنی میں اضافے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔

زندہ رہنے کے لئے لازمی شمار ہوتی اجناس کی قیمتوں میں اضافہ خوراک کے ’’بحران‘‘ کا باعث ہوتا ہے۔ آئی ایم ایف کے دبائو پر بجلی کی قیمتوں میں جو اضافہ ہونا ہے وہ مہنگائی کی ایک نئی لہر بھی متعارف کروائے گا۔ یہ لہر کرونا کی تیسری لہر کی بدولت بازار پر نازل ہوئی کساد بازاری کی وجہ سے مزید ناقابل ِ برداشت ہوجائے گی۔

عوام کو ہر لمحے کی خبر دینے کا دعوے دار میڈیا مگر ان تلخ حقائق پر توجہ نہیں دے رہا۔ روایتی اور سوشل میڈیا پر کہانی فی الوقت یہ چھائی ہوئی ہے کہ عمران حکومت کو گھر بھیجنے کے ارادے سے قائم ہوا اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد تتر بتر ہوگیا ہے۔ ’’سب پہ بھاری‘‘ نے پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس کے دوران بیماری کے بہانے لندن میں پناہ گزین ہوئے ’’بھگوڑے‘‘ کو کھری کھری سناتے ہوئے اس اتحاد کو ICU میں بھیج دیا۔ ہماری ذہن سازی پر اپنے تئیں مامور ہوئے چند افراد اگرچہ نیک نیتی سے اپنے یوٹیوب چینلوں کے ذریعے اُمید دلاتے رہے کہ ’’سیاسی مجبوریاں‘‘ مذکورہ اتحاد کو برقرار رکھیں گی۔ ان کی خواہشات بار آور ثابت ہوتی نظر نہیں آرہیں۔

پیر کے روز پاکستان پیپلز پارٹی کے جواں سال چیئرمین لاہور میں موجود تھے۔ جاتی عمرہ تشریف لے جانے کے بجائے انہوں نے جماعت اسلامی کے مرکزی دفتر میں سراج الحق سے ملاقات کو ترجیح دی۔ اس جماعت کے ایک نمائندہ سینٹ میں بھی موجود ہیں۔ یوسف رضا گیلانی کو ایوان بالا میں قائدِ حزب اختلاف بنوانے کے لئے موصوف کے ووٹ کی ضرورت ہے۔ اس ووٹ کے بغیر نواز شریف کے نام سے منسوب مسلم لیگ مولانا فضل الرحمن کی جماعت اور دیگر قوم پرستوں کی حمایت سے یہ منصب سینٹ میں اپوزیشن کی واحد اکثریتی جماعت کی صورت اُبھری پیپلز پارٹی سے ’’اُچک‘‘ سکتی ہے۔ مجھے خبر نہیں کہ سراج الحق صاحب نے گیلانی صاحب کی حمایت کی ٹھوس یقین دہانی کروادی ہے یا نہیں۔ جماعت اسلامی کے سربراہ سے ملاقات کے بعد تاہم صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے سربراہ نے پی ڈی ایم کا انتقال پر ملال یقینی بنا دیا ہے۔ یہ موت کسی بھی حوالے سے ’’حادثاتی ‘‘نہیں بلکہ ’’فطری‘‘ ہے۔

میری دانست میں پی ڈی ایم کی موت کا آغاز گوجرانوالہ کے جلسے کے دوران ہوگیا تھا۔ نواز شریف نے ویڈیو لنک کے ذریعے اس سے جو دھواں دھار خطاب فرمایا اس نے دیگر جماعتوں ہی کو نہیں بلکہ ان کی اپنی جماعت کے ’’سینئر، متعدل اور تجربہ کار‘‘ رہنمائوں کو بھی حیران و پریشان کردیا تھا۔ اس کے بعد جو بھی ہوا محض فروعی تفصیلات ہیں۔

ٹھنڈے دل سے سوچیں تو جولائی 2018 کے انتخابات کے بعد تمام تر گلے شکووں کے باوجود اپوزیشن جماعتوں نے اسمبلیوں کی رکنیت کا حلف اٹھاتے ہوئے موجودہ پارلیمان کی ’’بقاء‘‘ کو یقینی بنا دیا تھا۔ عمران خان صاحب مگر ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ کے سینہ سپر ہوجانے کی اہمیت تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہوئے۔ انہوں نے قوم کی لوٹی ہوئی دولت کو قومی خزانے میں ہر صورت واپس لانے کا عہد کر رکھا ہے۔ وہ یہ وعدہ بھلانے کو ہرگز تیار نہیں۔ ان کے حامیوں کا اصرار ہے کہ وہ روایتی سیاست دانوں جیسے ’’منافق‘‘ نہیں۔ بنیادی طور پر ایک نیک طینت شخص ہیں۔ عوام کو ’’قیمے والے نان‘‘ کھلا کر منتخب ایوانوں میں درآنے والے ’’چور اور لٹیروں‘‘ سے ہاتھ ملانے کو بھی تیار نہیں۔ ان کی ’’اصول پسندی‘‘ کی وجہ سے نیب کے ہاتھوں گرفتار ہوئے سیاستدانوں کو ماضی کی طرح قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لئے پروڈکشن آرڈر بھی جاری نہیں ہوتے۔

’’چور اور لٹیروں‘‘ سے حقارت بھری نفرت کو وقتی طور پر عمران خان صاحب اس وقت بھی بھلانے کو تیار نہیں ہوئے جب آصف سعید کھوسہ صاحب نے چیف جسٹس کا عہدہ چھوڑنے سے قبل ’’سب پہ بالادست‘‘ پارلیمان کو حکم دیا کہ اہم ترین ریاستی ادارے کے سربراہ کی مدت ملازمت میں توسیع کو واضح الفاظ میں تحریر کردہ قانون کے ذریعے ’’باقاعدہ‘‘ بنایا جائے۔  سیاسی مبصرین کی اکثریت کو گماں تھا کہ اندھی نفرت و عقیدت میں تقسیم ہوئی پارلیمان مطلوبہ قانون منظور نہیں کروا پائے گی۔ عمران خان صاحب مجبور ہوجائیں گے کہ اپوزیشن جماعتوں کے قائدین سے براہِ راست رابطہ کریں اور ان سے مطلوبہ قانون کی منظوری کے لئے تعاون کی درخواست کریں۔ ’’کپتان‘‘ نے لچک دکھانے سے مگر انکار کردیا۔ اس کے باوجود دونوں ایوانوں سے مطلوبہ قانون بارہ منٹ کی تاریخی عجلت میں بالآخر منظور ہوگیا۔ ’’اندر کی خبر‘‘ دینے والے حق گو اور بلند آہنگ صحافی میرے اور آپ جیسے عام شہری کو آج تک نہیں بتاپائے کہ ’’حقیقی جمہوریت‘‘ کے اپنے تئیں چمپئن بنے اپوزیشن کے رہ نما مطلوبہ قانون کو ایسی عجلت میں منظور کرنے کو کیوں آمادہ ہوئے۔

مطلوبہ قانون کی منظوری کے بعد پاکستان کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (FATF) کی گرے لسٹ سے باہر نکلوانے کے لئے ایک نہیں بلکہ کئی اہم ترین قوانین بھی اپوزیشن کے بھرپور تعاون سے منظور ہوئے تھے۔ ’’وسیع تر قومی مفاد‘‘ نے اپوزیشن جماعتوں کو فراخ دلی دکھانے کو مجبور کیا۔ وزیر اعظم نے مذکورہ فراخ دلی کی بابت ایک لمحے کو بھی شکر گزاری نہیں دکھائی۔ شاہ محمود قریشی صاحب کے ذریعے بلکہ عوام کو یاد دلایا کہ ’’خودغرض‘‘ اپوزیشن’’ وسیع تر قومی مفاد‘‘ کی خاطر بنائے قوانین کی منظوری کے عوض نیب کے غضب سے بچنے کے لئے NRO کا تقاضہ کر رہی تھی۔ عمران خان صاحب مگر آمادہ نہیں ہوئے۔ اپنی حکومت بچانے کی خاطر وہ ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ کی جاں بخشی کو ہرگز تیار نہیں ہوں گے۔

دو برس کی مسلسل تذلیل کے بعد اپوزیشن جماعتوں کو بالآخر احساس ہوا کہ اپنی اہمیت اجاگر کرنے کے لئے انہیں کسی اتحاد میں یکجا ہونا پڑے گا۔ اسی باعث ستمبر 2020 میں پی ڈی ایم کا قیام عمل میں لایا گیا۔ مذکورہ اتحاد کا بنیادی مقصد پارلیمان میں رہتے ہوئے ہی عمران خان صاحب کو تھوڑی لچک دکھانے کے لئے مجبور کرنا تھا۔ نواز شریف مگر اس اتحاد کے ذریعے ’’انقلاب‘‘ برپا کرنے کی خواہش میں مبتلا ہوگئے۔ ان کی خواہش پاکستان کے مخصوص سیاسی نظام کی محدودات کو خوب سمجھنے والے کائیاں سیاست دانوں کو خودکش رویہ کی صورت نظر آئی۔ اپنی بقاء کے لئے نوازشریف کے ’’بیانیے‘‘ سے فاصلہ دکھانا ضروری ہوگیا۔ مسلم لیگ (نواز) کے ’’سنجیدہ اور تجربہ کار‘‘ رہ نما مگر اس ضمن میں جرأت کا مظاہر ہ نہ کر پائے۔ بالآخر ’’سب پہ بھاری‘‘ نے قدم بڑھایا اور معاملات صاف ہوگئے۔

بہتر یہی تھا کہ اس کے بعد پی ڈی ایم کو برقرار رکھنے کی منافقانہ خواہش سے گریز برتا جاتا۔ ناکام شادیوں کے انجام کی طرح لیکن ایک دوسرے کو ذمہ دار ٹھہرانے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ چند روز قبل اس کالم میں پنجابی کے ایک محاورے کا ذکر کیا تھا۔ یہ محلے کے ان اوباش لونڈوں کا ذکر کرتا ہے جو کسی بیوہ کو گوشہ تنہائی میں چین سے رہنے نہیں دیتے۔ سوشل میڈیا دورِ حاضر کا ’’محلہ‘‘ ہے۔ ’’اوباش لونڈے‘‘ اس پر حاوی ہوچکے ہیں۔ پیپلز پارٹی اور شریف خاندان سے منسوب مسلم لیگ کے درمیان 1980 کی دہائی سے گہری تفریق موجود رہی ہے۔ مشرف دور میں ہوا ’’میثاقِ جمہوریت‘‘ بھی اسے بھلانے میں قطعاََ ناکام رہا تھا۔ دونوں جماعتیں اب 1990 کی دہائی میں واپس لوٹ چکی ہیں۔ اس کی بدولت عمران حکومت کے لئے ’’ستے خیراں‘‘ یقینی ہوگئی ہیں۔ مناسب یہی ہے کہ اب بے موسم کی بارشوں کی وجہ سے نمودار ہوتے گندم کے ایک اور بحران سے نبردآزما ہونے کی تیاری کی جائے۔

بشکریہ روزنامہ نواۓ وقت

یہ بھی پڑھیں:

کاش بلھے شاہ ترکی میں پیدا ہوا ہوتا! ۔۔۔ نصرت جاوید

بھٹو کی پھانسی اور نواز شریف کی نااہلی ۔۔۔ نصرت جاوید

جلسے جلسیاں:عوامی جوش و بے اعتنائی ۔۔۔ نصرت جاوید

سینیٹ انتخاب کے لئے حکومت کی ’’کامیاب‘‘ حکمتِ عملی ۔۔۔ نصرت جاوید

 

About The Author