سہیل وڑائچ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نونی: تمہارا سب پہ بھاری زرداری، سب کام خراب کر گیا ہے، پی ڈی ایم کو نقصان پہنچایا، اپوزیشن کا بیڑا غرق کیا۔ یہ سب کچھ ڈیل کا نتیجہ ہے ورنہ دوست تو دوست، دشمن بھی اتنا کاری وار نہیں کرتا جتنا تمہارے آصف زرداری نے کیا ہے۔
جیالا: زرداری صاحب بڑی دیر سے آپ کا دبائو برداشت کر رہے تھے، آخر ان کے منہ سے سارا سچ نکل گیا، اب آپ کو مرچیں کیوں لگ رہی ہیں؟ کافی عرصہ سے اتحاد کے اندر ایک اور اتحاد بنا ہوا تھا۔ مولانا فضل الرحمٰن کو مریم توڑ چکی تھیں اور یہ دونوں مل کر پیپلز پارٹی پر دبائو ڈالتے تھے۔ زرداری صاحب اور بلاول صاحب نے بہت دبائو برداشت کیا لیکن بالآخر مجبوراً بولنا پڑا۔ وہ بس ایک ہی بار بولے ہیں تو (ن) کی صفوں میں ہاہا کار کیوں مچ گئی ہے؟ سچ کا سامنا کرنے میں حرج ہی کیا ہے؟
نونی: سچ تو پھر یہ بھی ہے کہ پیپلز پارٹی حکومت اور اپوزیشن دونوں کے مزے لینا چاہتی ہے، نہ تو سندھ حکومت چھوڑ نے کو جی چاہتا ہے اور نہ ہی اپوزیشن کا نام استعمال کرنے کو۔ پیپلز پارٹی کو چاہئے کہ کوئی ایک فیصلہ کرے یا تو کھل کر اپوزیشن میں آئے، اجتماعی استعفے دے یا پھر اپوزیشن کو چھوڑ دے، اپوزیشن کا نام تو بدنام نہ کرے۔
جیالا: آپ ہمارے دوست ہیں یا دشمن؟ آپ کیوں سندھ سے ہماری حکومت ختم کرکے ہمیں جام صادق اور ارباب رحیم والے دور میں واپس بھیجنا چاہتے ہیں؟ ہم تو آپ کی مدد کر رہے ہیں جبکہ آپ ہمیں ہمارے سیاسی دشمنوں کے سامنے چارے کے طور پر ڈال رہے ہیں، یہ تو سراسر ظلم اور زیادتی ہے۔ ہم اتنے بھی بھولے نہیں جتنا آپ ہمیں سمجھتے ہیں۔
نونی: ہم نے تو آپ کو آپشن دیا ہے کہ آپ صرف قومی اسمبلی سے استعفے دے دیں، سندھ اسمبلی سے فی الحال استعفے نہ دیں، آپ اس آپشن کو بھی قبول نہیں کر رہے، آپ حکومت اور اپوزیشن دونوں کے مزے لینا چھوڑیں، ایک طرف کا موقف اپنائیں، وکٹ کے دونوں طرف مت کھیلیں۔
جیالا: افسانوی اور تصوراتی باتیں نہ کریں، سیاست زمینی حقیقتوں سے کھیلنے کا نام ہے، اگر ہم نے قومی اسمبلی سے استعفیٰ دیا تو سندھ میں گورنر راج کی راہ ہموار ہو جائے گی، ہم سے وہ مطالبہ کیوں کر رہے ہیں جس سے ہمارا سیاسی نقصان ہوگا، آپ کو کیا فائدہ ہوگا جب سندھ میں بھی پی ٹی آئی اور اس کے اتحادیوں کی حکومت بن جائے گی اور وہ ہمارا احتساب شروع کردیں گے؟
نونی: اس حکومت کے پاس اتنا وقت ہی نہیں ہوگا کہ آپ کا احتساب کرے یا انتقام لے، اجتماعی استعفوں اور لانگ مارچ کے بعد اس حکومت کا گھر جانا یقینی ہو جائے گا، ہم تو یہ چاہتے ہیں کہ آئیں مل کر ایک ہی بار زور لگائیں اور اس حکومت کو گھر بھیج کر دم لیں، نہ ہوگا بانس نہ بجے گی بانسری۔
جیالا: آپ لوگوں کو اجتماعی تحریک چلانے کا تجربہ نہیں ہے، یہ طویل اور صبر آزما کام ہوتا ہے، بعض اوقات نتائج آپ کی مرضی کے مطابق نہیں نکلتے۔ لاہور کے جلسے کی مثال آپ کے سامنے ہے، تمام تر کوشش کے باوجود یہ کامیاب نہیں ہو سکا اور اسی وجہ سے ہماری اجتماجی تحریک بیٹھ گئی۔
نونی: آپ دل جلانے والی ساری باتیں کرتے ہیں، پی ٹی آئی بھی ہمارے خلاف ایسی ہی باتیں کرتی ہے، زرداری صاحب نے میاں صاحب پر جو ذاتی الزامات لگائے وہ کسی بھی طرح مناسب نہیں تھے۔ ایک شخص جو دل کا مریض ہے اور علاج کروانے لندن بیٹھا ہوا ہے اس کو یہ کہنا کہ آپ واپس آ کر تحریک کی قیادت کرے، حالانکہ زرداری صاحب کو اچھی طرح علم ہے کہ میاں نواز شریف نے بڑی بہادری سے اسٹیبلشمنٹ کا مقابلہ کیا ہے اور بار بار جیل کاٹی ہے، ان کوجلی کٹی سنانا سیاسی اخلاقیات اور ذاتی حوالے، دونوں طرح سے غلط ہے۔
جیالا: اور یہ جو آپ ہر مہینے پیپلز پارٹی پر ڈیل کا الزام لگا دیتے ہیں، یہ تاثر دیتے ہیں کہ جیسے آپ اپوزیشن ہیں اور ہم حکومت کے اتحادی۔ حالانکہ ہم سندھ حکومت میں رہ کر وفاق کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ آپ کا ہم سے اجتماعی استعفوں کا مطالبہ دانش مندی نہیں جذباتی پن ہے، آپ مولانا فضل الرحمٰن سے پوچھ لیں کیا انہوں نے پرویز مشرف دور میں خیبر پختونخوا حکومت سے استعفے دیے تھے، وہ تو آخری دن تک صوبائی حکومت میں رہے تھے تو پھر ہم سے یہ مطالبہ کیوں؟
نونی: موجودہ حکومت کو گرانے کا واحد طریقہ استعفے ہی ہیں، ایک بار اجتماعی استعفے آ گئے تو پھر نئے الیکشن کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا۔
جیالا: یہ اتنی یقینی بات نہیں، ہو سکتا ہے کہ ہمارا وار خالی جائے اور یوں ہم اسمبلیوں سے بھی باہر ہو جائیں، حکومت بھی کھو بیٹھیں اور الیکشن بھی نہ ہو۔ ایسا ہونا تبھی ممکن تھا اگر ملک میں زور دار عوامی تحریک چل رہی ہوتی مگر فی الحال ایسا ممکن نظر نہیں آ رہا۔ سیاست کو زمینی حقائق کے قریب ہونا چاہئے، صرف تصوراتی سیاست سے گزارہ نہیں ہوگا، عمران خان نے اجتماعی استعفے دیے تھے لیکن حکومت چلتی رہی اور یوں بالآخر عمران خان منہ لٹکائے واپس اسی اسمبلی میں واپس آ کر بیٹھ گئے تھے، ماضی سے سبق سیکھیں۔
نونی: حالات بدل چکے ہیں، لوگ مہنگائی اور بےروزگاری سے تنگ ہیں، اجتماعی تحریک کو بس فیتہ دکھانے کی ضرورت ہے، لوگ تو احتجاج کے لئے ویسے ہی باہر نکلے ہوئے ہیں، ہر روز درجنوں مظاہرے ہو رہے ہیں جس دن ہم نے استعفے دے دیے لوگ ہمارے ساتھ قدم ملا کر چلیں گے اور اس حکومت کے پاس گھر جانے کے سوا چارہ نہیں رہے گا۔
جیالا: لوہا ابھی گرم ہو رہا ہے ابھی اس پر چوٹ مارنے کا وقت نہیں آیا، یہ حکومت اپنے ہی وزن سے گرے گی، یوسف رضا گیلانی کا بطور سینیٹر جیتنا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ حکومتی جماعت میں زبردست خلفشار ہے، ہمیں اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے، اس وقت بازار میں تحریک چلانے کی بجائے پارلیمان کے اندر حکومتی پارٹی کو کمزور کرنے کا وقت ہے، ہمیں اس پر زور دینا چاہئے۔
نونی: پارلیمان کے اندر آپشن محدود ہیں، چیئرمین سینیٹ کے الیکشن میں ہم اکثریت کے باوجود ہار گئے، کیا یہ ہمارے لئے سبق نہیں ہے؟ حکومت عدم اعتماد میں ہمیں جیتنے نہیں دے گی۔
جیالا: اگر آپ زرداری صاحب کا پنجاب فارمولا مان لیتے تو اس سے کئی نئے آپشن کھل سکتے تھے، عوامی احتجاج اور پارلیمانی دبائو دونوں حربے مل کر ہی حکومت کو کمزور کرسکتے ہیں۔
نونی: اس بات پر اتفاق ہے لیکن استعفوں پر آپ سوچیں، ان کے بغیر اب تحریک میں جان نہیں پڑ سکتی۔
جیالا: استعفے سب سے آخری مرحلہ ہوں گے، کوئی کام وقت سے پہلے فائدہ مند نہیں ہوتا۔۔۔
یہ بھی پڑھیں:
عام انسان اور ترجمان۔۔۔سہیل وڑائچ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر