ملک سراج احمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دنیا کے کئی ممالک میں قومی دن منانے کی روایت موجود ہے۔کوئی بھی ملک سال کی کسی مخصوص تاریخ کو کسی کام یا کسی واقعہ کی بنیاد یا نسبت سے قومی دن مناتا ہے یہ دن اُن کی ملی تاریخ میں ایک خاص حیثیت اور مقام رکھتا ہے ۔اس قومی دن کو قومی تہوار کے طورپر منایا جاتا ہے اور اکثر ممالک میں اس دن سرکاری سطح پر فوجی پریڈ ہوتی ہیں اور قومی یکجہتی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے ۔فرانس میں قدیم مشہور میلے کو نپولین نے فوجی رنگ دیتے ہوئے فوجی پریڈ سے منسلک کردیا۔فرانس میں ہرسال 14 جولائی کو بیسٹیل ڈے پریڈ ہوتی ہے ۔برطانیہ میں بھی فوجی پریڈ کا انعقاد ہر سال ہوتا ہے ۔روس میں انقلاب کی یاد میں پریڈ ہوتی تھی ۔چین میں اب بھی یکم اکتوبر کو یوم جمہوریہ پر دنیا کی سب سے بڑی فوجی پریڈ ہوتی ہے ۔شمالی کوریا کا شمار بھی ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں پر فوجی پریڈ کا خاص طورپر اہتمام کیا جاتا ہے ۔بھارت میں ہر سال 26 جنوری کو یوم جمہوریہ منایا جاتا ہے۔26 جنوری 1950 میں ہندوستانی آئین بنا تھا اور اس دن کی یاد میں ہندوستان میں یوم جمہوریہ پر فوجی پریڈ ہوتی ہے ۔
پاکستان میں قومی دن 23 مارچ کو منایا جاتا ہے ۔اس دن کی تاریخی حیثیت پاکستان کے قیام سے بھی قبل کی ہے۔1940 میں لاہور کے منٹو پارک میں ہونے والے آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ جلسہ میں برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ ریاست کے قیام کی قرارداد پیش کی گئی جس کو بھاری اکثریت سے برصغیر کے مسلمانوں کی تائید حاصل ہوئی ۔دلچسپ امر یہ ہے کہ قرارداد لاہور پیش کرنےوالے اس وقت کے بنگال کے وزیراعلیٰ جن کو شیر بنگال کہا جاتا تھا ابوالقاسم فضل الحق جن کو اے کے فضل الحق یا پھر مولوی فضل الحق بھی کہا جاتا ہے کو قائد اعظم کی وفات کے بعد غدار قرار دے دیا گیا۔
لاہور کے منٹو پارک میں ہونے والا مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس بنیادی طورپر تین دن جاری رہا ۔یہ اجلاس 22 مارچ کو شروع ہوا جس میں نواب ممڈوٹ نے استقبالیہ کمیٹی کے سربراہ کے طورپر افتتاحی خطاب کیا اور پہلے دن قائد اعظم نے خطبہ صدارت دیتے ہوئے کم وبیش ڈیڑھ گھنٹہ تک فی البدیہہ تقریر کی جس میں انہوں نے لالہ لاجپت رائے کے سی آر داس کو لکھے گئے خط کا حوالہ دیا جس میں لالا لاجپت رائے کے مطابق مسلمان اور ہندو کبھی اکٹھے نہیں رہ سکتے ۔اس خط کے حوالہ کے دینے کا مقصد مسلمانوں کے لیے ایک الگ ریاست کا قیام کی وضاحت دینا تھی۔لالا لاجپت راے وہ ہیں جنہوں نے اپنی والدہ کے نام پر لاہور میں گلاب دیوی ہسپتال بنایا تھا۔
مسلم لیگ کے اس اجلاس میں ایک نہیں مجموعی طورپر چار قراردادیں پیش کی گئی تھیں جس میں ایک الگ ریاست کی قرار داد اے کے فضل الحق نے پیش کی دوسری قرارداد عبدالرحمن صدیقی نے پیش کی جس میں برطانوی فوج کو خبردار کیا گیا کہ وہ فلسطینیوں کو محکوم بنانے سے باز رہے۔اجلاس میں تیسری قرار داد لاہور میں خاکسار تحریک کے کارکنوں پر پولیس کے حملے کی مذمت کی قرار داد تھی اور اجلاس میں چوتھی قرارداد صوبائی مسلم لیگوں کو مرکزی ورکنگ کمیٹی کے قواعد وضوابط کا پابند بنانے سے متعلق تھی۔
23 مارچ کی قرارداد لاہور سے متعلق ایک تاریخی بحث موجود ہے کہ قرارداد لاہور 23 نہیں بلکہ 24 مارچ کی رات ساڑھے گیارہ بجے منظور کی گئی تھی۔ایک تاریخی واقعہ یہ بھی ہے کہ ایک ایسی ہی قرارداد 1938 میں کراچی میں بھی منظور ہوئی تھی بس فرق یہ تھا کہ کراچی کے عید گاہ میدان میں قائد اعظم کی زیرصدارت ہونے والے اجلاس میں یہ قرارداد شیخ عبدالمجید سندھی نے پیش کی اوراس قرارداد میں ایک الگ وطن کی بات کی گئی تھی جبکہ قرارداد لاہور میں ایک سے زائد ریاستوں کا زکر کیا گیا۔تاہم آل انڈیا مسلم لیگ 1941 سے 1947 تک مسلسل سات سال تک 23 مارچ کے دن کو یوم پاکستان کے نام پر مناتی رہی۔
ڈاکٹر عبدالجبار عابد لغاری اپنی کتاب جدوجہد آزادی میں سندھ کا کردار میں لکھتے ہیں کہ تحریک پاکستان میں ایک ایسا موقع بھی آیا جب انگریزوں نے قائد اعظم سے کہا کہ وہ مسلم اکثریت والے کسی بھی صوبے سے اپنی اکثریت کا ثبوت دیں۔یہ ایک ایسا نازک مرحلہ تھا جہاں قائد اعظم کو بہت پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔قائد اعظم نے بنگال کے وزیراعلیٰ سرفضل الحق ،پنجاب کے وزیراعلیٰ سرسکندر حیات اور صوبہ سرحد کے وزیراعلیٰ خان صاحب سے رابطہ کیا کہیں سے بھی پاکستان کے حق میں قرارداد کے منظور ہونے کی امید نظر نہ آئی ۔اب قائد اعظم نے صوبہ سندھ پر اپنی امید کی نظر رکھی اور سندھ کے مسلم لیگی رہنماوں سے رابطہ کیا۔جس پر 3 مارچ 1943 کا دن تھا جب جی ایم سید نے سندھ اسمبلی میں قررداد پاکستان نا صرف پیش کی بلکہ اسمبلی سے مںظور بھی کرائی۔
1948 میں قائد اعظم محمد علی جناح کی رحلت کے بعد اگلے کچھ سالوں تک 23 مارچ کا دن قرارداد پاکستان کی مناسبت سے منایا جاتا رہا۔23 مارچ 1956 کو ملک کا پہلا آئین نافذ ہوا تو اس دن کو یوم جمہوریہ قرار دے دیا گیا۔تین سال تک اس دن کو یوم جمہوریہ کے طورپر منایا جاتا رہا تاہم 8 اکتوبر 1958کو ملک میں مارشل لا نافذ ہوا تو یوم جمہوریہ کو قرارداد پاکستان کی منظوری کی نسبت سے دوبارہ یوم پاکستان میں تبدیل کردیا گیا۔تاہم بعدازاں 1962 اور 1973 کے آئین کے تحت بھی پاکستان جمہوریہ رہا مگر 23 مارچ کا دن یوم جمہوریہ کی بجائے یوم پاکستان کے طورپر منایا جاتا رہا اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے ۔
براے رابطہ 03334429707
وٹس ایپ 03352644777
یہ بھی پڑھیے:
ڈانسنگ ایلیفینٹ ۔۔۔ ملک سراج احمد
وہ لڑکی لال قلندر تھی ۔۔۔ملک سراج احمد
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو ۔۔۔ ملک سراج احمد
بے نظیر بھٹو کی پکار: الوداع پاپا ۔۔۔ملک سراج احمد
عوام کے حق حاکمیت کی فیصلہ کن جنگ۔۔۔ ملک سراج احمد
حضرت خواجہ غلام فرید ؒ – پیلوں پکیاں نی وے، آ چنوں رل یار ۔۔۔ ملک سراج احمد
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر