وجاہت مسعود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حسن کوزہ گر نے بوڑھے عطار یوسف کی دکان پر جہاں زاد کی افق تاب آنکھوں میں وہ تابناکی دیکھی کہ نو سال دیوانہ پھرتا رہا۔ بغداد کی خواب گوں رات کے تعاقب میں حسن کی کوزہ گری فراموش ہو گئی۔ اس کی ہنر مند انگلیوں میں زندگی پانے والے جام، سبو، فانوس اور گلدان گم شدہ ماضی کی ٹھیکریاں بنتے چلے گئے۔ اس دوران حسن کوزہ گر کی سوختہ بخت بیوی اسے شانوں سے ہلاتی رہی، ’حسن اپنے ویران گھر پر نظر کر…. یہ بچوں کے تنور کیونکر بھریں گے‘۔ ن م راشد کے لافانی کردار حسن کوزہ گر کو جہاں زاد کی صرف ایک جھلک نے مہمیز کر رکھا تھا۔ اہل پاکستان مگر ایسے خوش نصیب نہیں۔ ہماری مہجور دیوانگی پر سات عشرے گزر گئے۔ ہر چند برس بعد ہمارے دریا کا پاٹ، ہمارا گھاٹ اور ہمارے مانجھی بدل جاتے ہیں، ہم مگر ایسے نیند کے ماتے ہیں کہ آنکھ کھولے بغیر ایک خواب سے دوسرے خواب کی بے آب و گیاہ وادی میں اتر جاتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے ہمیں پھر سے اپنا گھر ٹھیک کرنے کی نوید سنائی گئی ہے۔ وہی سترہویں صدی کے انگریزی شاعر جان ڈن کی نظم “طلوع آفتاب” میں فرمان شاہی کی بازگشت ہے، Go tell court huntsmen that the King will ride…
ہم خستہ تنوں نے ایسے خوش کن اعلان سنتے اک عمر گزاری ہے۔ ہمیں 1958 میں انقلاب کی نوید دی گئی۔ 1972 میں نئے پاکستان کی خبر آئی۔ 1977ءمیں ثمر ہائے بہشت کی خوش خبری ملی۔ 1988ء میں نیم جمہوری تجربے کی مہربانی کی گئی۔ 1999ء میں کرپشن سے پاک معتدل روشن خیالی کی جھلک دکھائی گئی۔ 2008ء میں دستوری خطوط کا خواب نیم روز ہمارے حصے میں آیا۔ جون 2014ء میں انتہا پسندی سے دست کشی کا اعلان ہوا۔ جولائی 2018ء میں پھر سے نئے پاکستان کی نیو رکھی گئی۔ جاننا چاہیے کہ قوموں کی تعمیر میعادی روزگار نہیں۔ اس میں عشروں بلکہ صدیوں پر پھیلی فکر، منصوبہ بندی اور کار سیاست کا تسلسل درکار ہوتا ہے۔
دور نہیں جائیے، گلیڈ سٹون، چرچل، بسمارک، روزویلٹ، چانسلر ایڈنائر اور ڈینگ شیاو¿ پنگ کی سیاست پر ایک نظر ڈال لیجئے اور پھر سوچیے کہ ہماری قسمت کے فیصلے کرنے والے خسروان خوش خصال اپنے اورنگ سلیمانی سے محروم ہونے کے بعد قومی منظر سے غائب کیوں ہو جاتے ہیں؟ ہمیں مانوس چہروں کے جھروکہ درشن سے غرض نہیں، عرض ہے کہ سیاست قوم کی تقدیر سے ایسی وابستگی ہے جو سانس کی ڈوری سے بندھی ہے۔ قوم کسی عبقری کی حادثاتی رونمائی کی محتاج نہیں اور نہ اسے اپنی نجات کے لئے کسی حادثے کا انتظار کرنا ہوتا ہے۔ اقتدار ایک میعادی امانت ہے، قوم کی تعمیر و ترقی ایک اجتماعی پیمان ہے جس کے ضابطے دستور کی کتاب میں لکھے ہیں۔ یہاں تو بنیادی فیصلوں کا اعلان کرنے میں بھی حفظ مراتب کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ 3 مارچ 1971ءکی شام منتخب اسمبلی کا اجلاس ملتوی کرنے کا اعلان کسی بے چہرہ سرکاری اہل کار نے کیا تھا۔ قیاس کن ز گلستان من بہار مرا۔۔۔
ہم نے 25 جولائی 2018ءکو ایک طویل باطنی ریاضت کے بعد لرزاں و ترسیدہ جمہوریت سے آگے بڑھ کر پیوستہ اختیار کا تجربہ شروع کیا۔ اڑھائی برس سے کچھ اوپر گزر گئے۔ تب معاشی شرح نمو 5.7 فیصد تھی جو اب منفی 0.4تک گر گئی ہے۔ جی ڈی پی کا حجم 315 ارب ڈالر تھا جو اب 278 ارب ڈالر تک آ گیا ہے۔ ڈالر کی قیمت 117 روپے تھی جو اب 156 روپے کو پہنچ گئی۔ زر مبادلہ کے ذخائر 17 ارب ڈالر تھے جو اب 12.5 ارب ڈالر پر لڑکھڑا رہے ہیں۔ گزشتہ حکومت نے پانچ برس میں 13 کھرب روپے قرض لیا، موجودہ حکومت نے دو برس میں 29 ارب ڈالر قرض لیا ہے۔ 2018 میں افراط زر 4 فیصد تھا جو اب 9 فیصدسے زیادہ ہے۔ سٹاک ایکسچینج 8703 ارب روپے تھی جو اب 6530 ارب روپے رہ گئی۔
2018 میں 541 ارب روپے ٹیکس کی چھوٹ دی گئی، گزشتہ دو برس میں 2400 ارب روپے سے زائد ٹیکس کی چھوٹ دی گئی۔ 2018 میں 35 لاکھ افراد بے روز گار تھے، اب ایک کروڑ 20 لاکھ افراد بے روزگار ہیں۔ 2018ءمیں گردشی قرضہ 1000 ارب تھا جو اب 2200 ارب روپے ہو چکا۔ بجٹ کا خسارہ 5 فیصد سے بڑھ کر 9 فیصد ہو گیا۔ 2017 میں بیرونی سرمایہ کاری 226 ارب روپے تھی جو 2019 میں صرف 6 ارب روپے رہ گئی۔ طنز ہرگز مقصود نہیں لیکن ہمسایہ ملک بھارت کا جی ڈی پی 2.8 کھرب ڈالر کو پہنچ گیا یعنی ہم سے صرف دس گنا زیادہ اور ان کے زر مبادلہ کے ذخائر 550 ارب ڈالر کو پہنچ گئے گویا ہم سے چالیس گنا زیادہ۔ اور یہ سب مودی کی لشٹم پشٹم حکومت اور کورونا کی ابتلا کے باوجود ہوا۔
معیشت محض اعداد و شمار کا گورکھ دھندا نہیں ہوتی۔ سیاسی بندوبست کی صورت کوئی بھی ہو، اس کا حقیقی امتحان معاشی نتائج ہی سے اخذ کیا جاتا ہے۔ ہماری معیشت پر پچھلے دو برس میں جو گزری ہے، اسے کسی وزیر اعظم یا وزیر کی ذاتی نااہلی کا نتیجہ سمجھنا سادہ لوحی ہو گی۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے ملک کو سیاسی عدم استحکام کے راستے پر دھکیل کر اپنے ملک کے لوگوں کو معاشی عذاب میں مبتلا کر دیا ہے۔ اپنے گھر کو ٹھیک کرنے کا مطلب فٹیف کی شرائط مانتے چلے جانا نہیں، اور نہ آئی ایم ایف کے حکم پر سٹیٹ بینک کو بیرونی اہل کاروں کے سپرد کرنے سے معیشت سنبھل سکتی ہے۔ کچھ کام ہم جانتے ہیں اور کچھ معاملات میں ہم پھسڈی ہیں۔ پی ڈی ایم کا چھپر گرانا ہمیں آتا تھا، سو ہم نے اس کی بنیادیں ہلا دیں۔ معیشت کی گاڑی ہموار سیاسی عمل مانگتی ہے جس کا نسخہ دستور میں لکھا ہے۔ دلوں کے خرابے روشن کرنے کی تمنا تسلیم مگر حسن کوزہ گر کے گھر کی ویرانی شفاف جمہوریت مانگتی ہے۔
بشکریہ ہم سب
یہ بھی پڑھیے:
منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود
ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود
وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود
اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر