نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے تو اب یقیں ہوچلا ہے کہ ہمارے سینوں میں دھڑکتے دل نہیں بلکہ نفرت وغصے کے لاوے اُبل رہے ہیں۔لوگوں کے روبرو انہیں بیان کرنے سے مگر دل گھبراتا تھا۔ سوشل میڈیا نے بالآخر یہ سہولت فراہم کردی کہ تنہائی کی محفوظ پناہ گاہ میں بیٹھے جارحانہ زبان کے استعمال کے ذریعے مخالفوں کی بھد اُڑانا شروع ہوجائیں۔ تعصب کے غضب سے لدی کوئی پوسٹ جب ٹویٹر یا فیس بک پر رونما ہوتی ہے تو اسے دھڑا دھڑ Likes اور Shares ملنا شروع ہوجاتے ہیں۔ ہم ان کی بدولت خود کو اکیلا تصور نہیں کرتے۔ سکوں مل جاتا ہے کہ میں نے انسانیت نامی رویے سے ہٹ کر کوئی احمقانہ بات نہیں کی ہے۔لوگوں کا ایک بہت بڑا ہجوم بھی میری ہی طرح سوچتا ہے۔
اندھی نفرت وعقیدت میں تقسیم ہوئے معاشرے میں سوشل میڈیا کی سہولت نے جو ہیجان برپا کررکھا ہے اس کی بابت کئی مہینوں سے مسلسل لکھے چلا جارہا ہوں۔ میری اس ضمن میں فکر مندی اگرچہ صحرا میں لگائی آوازہی ثابت ہورہی ہے۔ ہفتے کے دن خبر آئی کہ وزیر اعظم عمران خان صاحب بھی کرونا کی زد میں آگئے۔
وزیر اعظم پر کرونا کا حملہ فوری طورپر ہمیں یہ احساس دلانے میں مددگارثابت ہونا چاہیے تھا کہ کرونا نام کا ایک جراثیم واقعتا موجود ہے۔موذی دشمن کی طرح ہمارے اِردگرد گھات لگائے بیٹھا ہوا ہے۔اس سے تحفظ کی کوئی گارنٹی نہیں۔محض چند احتیاطی تدابیر ہیں جن پر سختی سے عمل کیا جائے تو بچت شاید ممکن ہے۔
سائنس دانوں کی بے پناہ لگن سے البتہ ایک ویکسین بالآخر دریافت ہوچکی ہے۔عموماََ اسے دو قسطوں میں لگانا ہوتا ہے۔وہ دوسری بار لگ جائے تب بھی کم از کم ایک ماہ تک انتظار کرنے کے بعد ہی ہم خود کو کرونا سے محفوظ سمجھنے کا اعتماد حاصل کرسکتے ہیں۔وزیر اعظم پر کرونا کا حملہ مگر یہ پیغامات اجاگر کرنے میں ہرگز مددگار ثابت نہیں ہوا۔فوری طور پربلکہ جاہلانہ سوالات اٹھنا شروع ہوگئے کہ دو ہی دن قبل تو انہوں نے کرونا کی مدافعت والی ویکسین لگوائی تھی۔انہیں لگائی ویکسین کہیں ’’دونمبر‘‘ تو نہیں تھی؟! ویکسین کی قوت وافادیت کے بارے میں اٹھائے سوالات کے کئی صاحبِ دل افراد نے مؤثرومدلل جوابات فراہم کرنے کی کوشش کی۔بات مگر یہاں ختم نہیں ہوئی۔
تھوڑی ہی دیر بعد سوشل میڈیا پر ایسےTrendsنمودار ہونا شروع ہوگئے جو بیماری کی زد میں آئے عمران خان صاحب کا بے دریغ مذاق اڑارہے تھے۔ان کے لئے صحت یابی کی دُعامانگنے کے بجائے بددُعائوں پر مبنی تمنائوں کا گھنائونا اظہار شروع ہوگیا۔ مجھے ان سب کا مشاہدہ کرتے ہوئے خود سے گھن آنا شروع ہوگئی۔انتہائی پریشانی سے خود کو ہر حوالے سے ایک سفاک معاشرے کا حصہ سمجھنے کو مجبور ہوگیا۔مزید دُکھ یہ دریافت کرتے ہوئے بھی محسوس ہوا کہ دردِ دل سے قطعاََ عاری اس رویے کی پرخلوص شدت سے مذمت نہیں ہورہی۔
میرے باقاعدہ قاری اس امر سے بخوبی واقف ہیں کہ میں عمران خان صاحب کی سیاست کا گرویدہ نہیں بلکہ مستقل نقادہوں۔ اس کی وجہ سے کئی مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ان مشکلات کے باوجود دل کی اتھاہ گہرائیوں سے ربّ کریم سے فریاد کرنے کو مجبور ہوا کہ وہ عمران خان صاحب کو جلد از جلد شفایاب کرے۔ اپنی شفایابی کے بعد وہ یقینااپنے اختیارات اس امر کو یقینی بنانے کے لئے استعمال کرنے کو مجبور ہوں گے کہ ان کی حکومت کرونا کو سنجیدگی سے لے اور ہمارے صحت عامہ کا نظام خلقِ خدا کو اس مرض سے بچانے کے لئے وسیع پیمانے پر ویکسین لگانے پر بھرپور توجہ دینے میں مصروف ہوجائے۔
عمران خان صاحب کی طرح امریکی صدر اور برطانوی وزیر اعظم نے بھی کرونا کو ابتداََ سنجیدگی سے نہیں لیا تھا۔دونوں اس کی زد میں آئے۔ ذاتی طورپر اس تجربے سے گزرے تو کرونا کا تدارک ڈھونڈتی تحقیق کی سرپرستی کو مجبور ہوئے۔ان کی ذاتی دلچسپی کی بدولت اب بائیڈن انتظامیہ جولائی 2021 کے آغاز تک امریکی عوام کی اکثریت کو ویکسین لگانے کے مراحل مکمل کرنا چاہ رہی ہے۔برطانیہ ویکسین کی دریافت میں بقیہ یورپی ممالک سے بازی لے گیا۔وہاں کے شہری بھی اب تیزرفتاری سے مدافعانہ نظام کی تکمیل کی طرف دوڑ رہے ہیں۔عمران خان صاحب کا ذاتی تجربہ پاکستان میں بھی ویکسین لگانے کے عمل کو تیز تر کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔
اس کالم کے تعارفی حصے پڑھتے ہوئے کئی افراد یقینا یہ سوال اٹھائیں گے کہ اپنے سیاسی مخالف کی بیماری کا مذاق اڑانے کا رویہ ہمارے ہاں کس جماعت نے متعارف کروایا تھا۔میں اس سوال سے ہرگز غافل نہیں۔کھلے دل سے تسلیم کرتا ہوں کہ اس تناظر میں تحریک انصاف کے چند جنونی حامیوں نے پیش قدمی دکھائی تھی۔
اس کا بدترین مظاہرہ محترمہ کلثوم نواز صاحبہ کی جان لیوا بیماری کے دوران ہوا۔لاہور سے قومی اسمبلی کے ایک حلقے سے نواز شریف عدالتی فیصلے کی بدولت نااہل ہوئے تو انہیں اس نشست کے لئے طے ہوئے ضمنی انتخاب کے لئے نامزد کیا گیا۔انتخابی مہم شروع ہونے سے قبل ہی تاہم انہیں فوری تشخیص کے لئے لندن جانا پڑا۔وہ ایک موذی مرض کا شکار نظر آئیں۔ علاج کے لئے ہسپتال میں داخل ہوئیں۔ان کے سیاسی مخالفین کو مگر اعتبار نہیں آیا۔
سوشل میڈیا پر تحریک انصاف کے حامیو ں نے ان کی بیماری کو نواز شریف کے لئے ہمدردی سمیٹنے کا ’’ڈھونگ‘‘ ثابت کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ اس دعویٰ کے ’’ثبوت‘‘ ڈھنڈنے کے لئے لندن میں مقیم کئی جنونیوں نے اس ہسپتال میں بھی جاسوسوں کی طرح نقب لگانے کی کوشش کی جہاں وہ زیر علاج تھیں۔
ے
نوجوان جنونیوں کی وحشت اندھی نفرت وعقیدت کے ہیجان خیز ماحول میں کسی حد تک معاف کئے بغیر سمجھی بھی جاسکتی تھی۔ بے پناہ تعصب کے اس موسم میں تاہم چودھری اعتزاز احسن جیسے ’’دانشور‘‘ کے رویے نے مجھے حیران وپریشان کردیا۔وہ 1974سے میرے قریبی دوستوں میں شامل رہے ہیں۔انہیں ہمیشہ ’’روشن خیال‘‘ سوچ کا نمائندہ شمار کیا جو غریبوں اور بے کسوں کا سہارا تصور ہوتی ہے۔عورتوں کا بالخصوص احترام کرتی ہے۔برطانیہ کی شہرئہ آفاق یونیورسٹی -کیمبرج-کے تعلیم یافتہ اعتزاز احسن صاحب نے بھی لیکن کلثوم نواز صاحبہ کی بیماری کی بابت شک وشبہ پھیلاتے سوالات اٹھائے اور مجھے بوکھلا دیا۔
نواز شریف کی ’’بیماری‘‘ کے بارے میں بھی تحریک انصاف والے مسلسل تمسخر اُڑاتے سوالات اٹھاتے رہتے ہیں۔یہ سب حقائق مگر کسی بھی صورت ہمیں یہ جواز فراہم نہیں کرتے کہ عمران خان صاحب پر ہوئے کرونا کے حملے کو پھکڑپن کا نشانہ بنایا جائے۔’’ادلے کا بدلہ‘‘لینے کے لئے بھی چند حدود وقیود طے کرنا ہوں گی۔میری دانست میں وقت آگیا ہے کہ خلوص دل سے یہ حقیقت تسلیم کریں کہ سیاسی تقسیم درحقیقت حکومتی نظام چلانے کے حوالے سے اپنائے نظریات تک ہی محدود ہوتی۔ہمیں ان رویوں سے اختلاف یا ان کے دفاع کا بھرپور حق ہے۔
توجہ مگر سیاسی رویوں اور ترجیحات تک ہی محدود رکھنا ہوگی۔کسی سوچ کے دفاع یاردکے لئے دلائل کی ضرورت ہوتی ہے۔ دلائل کا استعمال کئے بغیر اپنے سے مختلف سیاسی سوچ رکھنے والے کی ذات یا خاندان کو سوشل میڈیا کے ذریعے پھکڑپن کی زد میں لانا معاشرے میں مزید ابتری اور انتشار پھیلانے کے علاوہ اور کسی کام نہیں آئے گا۔ اندھی نفرت وعقیدت سے مغلوب ہوئے معاشرے بالآخر بدترین خانہ جنگی کا نشان بن جاتے ہیں۔میری بات پر اعتبار نہیں تو ایک لمحے کے لئے اپنے ہمسایے افغانستان پر نگاہ ڈالیں جو گزشتہ چالیس برسوں سے مسلسل خانہ جنگی کی زد میں ہے۔
اس کی وجہ سے یہ ملک 1980کی دہائی میں ماضی کے سوویت یونین کا غلام ہوا۔اس سے ’’آزاد‘‘ ہوا تو ’’مجاہدین‘‘ ہی کے مابین بھڑکی ایک اور خانہ جنگی کی بدولت طالبان کی حکومت سے چلتے ہوئے امریکہ کے قبضے میں چلاگیا۔امریکہ اپنی افواج کو اب وہاں سے باہر نکالنا چاہ رہا ہے۔دُنیا کو مگر اس خوف نے گھبرا دیا ہے کہ امریکی افواج کے چلے جانے کے بعد افغان ایک بار پھر ایک دوسرے کے ساتھ دست وگریبان ہونا شروع ہوجائیں گے۔
اندھی نفرت وعقیدت سے مغلوب ہوا جنون پاکستان کو بھی بالآخر ایسی ہی راہ پر دھکیل دے گا۔خداراغور کریں۔دلوں میں نرمی لائیں۔مان لیں کہ ’’اشرف المخلوقات‘‘ ہوتے ہوئے بھی انسان خود کو مختلف النوع امراض سے کل وقتی بنیاد پر محفوظ نہیں رکھ سکتا اور اگر کوئی انسان بیمار ہوجائے تو وہ دوا کے علاوہ دُعا کا حقداربھی ہوتا ہے۔تعصب بھری نفرت کو کسی اور وقت تک مؤخر کردینا ہی مناسب رویہ ہے۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر