نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

عمران خان بھی مایوس کریں گے!||احمد اعجاز

عمران خا ن سے پہلے میاں نواز شریف سب سے زیادہ قوم کو مایوس کرچکے ہیں۔مایوسی کے ضمن میں میاں نواز شریف کے پاس یہ عذر ہے کہ وہ تینوں بار مُدتِ اقتدار پوری نہ کرسکے اور اِ ن کو کام نہ کرنے دیا گیا۔مگر عمران خان کے پاس کوئی عذر نہیں ہوگا۔
احمد اعجاز 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پاکستانی وزرائے اعظم کی تاریخ میں،قوی اِمکان ہے کہ عمران خان ،اقتدار کی مُدت پوری کرنے والے پہلے وزیرِاعظم بن جائیں گے۔ جہاں عمران خان یہ اعزاز اپنے نام کریں گے وہاں قوم کو مایوس کرنے میں بھی باقی تمام وزرائے اعظم پر سبقت پالیںگے۔
عمران خا ن سے پہلے میاں نواز شریف سب سے زیادہ قوم کو مایوس کرچکے ہیں۔مایوسی کے ضمن میں میاں نواز شریف کے پاس یہ عذر ہے کہ وہ تینوں بار مُدتِ اقتدار پوری نہ کرسکے اور اِ ن کو کام نہ کرنے دیا گیا۔مگر عمران خان کے پاس کوئی عذر نہیں ہوگا۔
میاں نواز شریف جب دوہزار تیرہ کے عام انتخابات میں وزیرِاعظم بنے تو چودھری نثار علی خان ہفتے میں دوچار بار یہ بیان دیتے تھے کہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ایک صفحے پر ہیں۔اگرچہ چودھری نثارعلی خان کے لہجے میں قطعیت ہوتی ،مگرمذکورہ بیان کا باربار اعادہ اپنے اندر گہری تشویش رکھتاتھا۔
عمران خان کے وزیرِ اعظم بننے کے بعد حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے ایک صفحے پر،کا بیان کم ہی سننے کو ملتا ہے،جس کا مطلب ہے کہ دونوں ایک صفحے پر ہیں اور اگلے انتخابات تک ایک صفحے پر ہی رہیں گے۔ اپنے پانچ سال پورے کرنے کے بعدعمران خان کے پاس اپنی ناکامیوں کا کوئی عذر نہیں ہوگا۔ماضی کے وزرائے اعظم کو اپنی اپنی ناکامی کا ملبہ کسی نہ کسی پر ڈالنے کا جواز میسر آتا رہا ہے۔مگر عمران خان اپنی ناکامی کا ملبہ کس پر ڈالیں گے؟عمران خان کو نوجوانوں ،خواتین اور بزرگوں نے ووٹ ڈالے تھے۔آثار بتارہے ہیں کہ عمران خان اگلے انتخابات تک اِن تینوں طبقات کو کوئی بھی ریلیف دینے میں یکسر ناکام ٹھہریں گے۔
عمران خان کی آمدہ انتخابات تک ساری توانائی اپوزیشن جماعتیں کھاجائیں گی۔یہ این آراو نہ دینے کا اعلان کرتے رہیں گے۔ جن کو یہ این آراو نہ دینے کا اعلان کرتے رہتے تھے،وہ اگلے الیکشن کی انتخابی مہم میں آزادانہ اور بھرپور طریقے سے حصہ لیتے پائے جائیں گے۔جن کو یہ چور اور ڈاکو کہتے تھے اور نہ چھوڑنے کی قسمیں کھاتے تھے،وہ گلی گلی قریہ قریہ جاکر ووٹ مانگتے پائے جائیں گے۔
اُس وقت عمران خان کے پاس قسمیں کھانے اور اعلانات کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں بچا ہوگا۔عمران خان کو یہ بات کیوں نہ سمجھ آسکی کہ دوسری سیاسی جماعتوں کے لیڈروں کو ’’عبرت کا نشان‘‘ بنانے کی ذمہ داری اِن کی قطعی نہیں بنتی۔ یہ ذمہ داری عوام پر عائد ہوتی ہے۔عوام نے ماضی میں یہ ذمہ داری تو نہیں نبھائی مگر مستقبل میں کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ البتہ عمران خان نے عوام کو جو خواب دکھائے اوربلند توقعات قائم کروائیں ،اس کا ردِعمل شدید نوعیت کا آسکتا ہے۔
ماضی کے وزرائے اعظم چھوٹی چھوٹی جھونپڑیاں (پُلوں، سڑکوں، ہسپتالوں، نوکریوں، تنخواہوں میں اضافوں ، آشیانہ سکیموں کی صورت)بنا کرڈھول بجاکر تشہیر کرتے اور اگلے الیکشن میں اُترنے کا جواز پالیتے،مگر عمران خان نے دوہزاراَٹھارہ کے الیکشن سے قبل یہ تاثر دیا کہ وہ کوئی معمولی وزیرِاعظم بننے نہیں جارہے ،وہ ایک ایسے وزیرِ اعظم ثابت ہوں گے جو جھونپڑیاں نہیں تاج محل جیسی بڑی عمارت بنائیں گے ،تاج محل کی تعمیر پر وقت تو لگے گا،مگر اس بڑی کامیابی کے سائے میں جھونپڑیاں دَب جائیں گی۔
مگر اب تک یہ ثابت ہو چکا ہے کہ وزیرِ اعظم عمران خان تاج محل جیسی عمارت بنانے کا ہنر تک نہیں جانتے،جب یہ اپنے اقتدار کی مُدت پوری کریں گے ،تب تک تاج محل تو کجا ایک آدھ جھونپڑی بھی نہیں بنا سکے ہوںگے اور اُس وقت عوام کو دوسرے وزرائے اعظم کی بنائی ہوئی جھونپڑیاں بھی بڑی لگیں گی۔عمران خان نے تاج محل جیسی عمارت بنانے کا وعدہ کیوں کیا تھا؟
یہ وعدہ ماضی میں سمیٹی جانے والی کامیابیوں کی وجہ سے کیا گیا تھا،جیسا کہ ورلڈ کپ جیتنا، شوکت خانم ہسپتال بنانا اور نمل کالج تعمیرکرنا ،وغیرہ۔مگر وہ یہ بھول گئے کہ ورلڈ کپ کی جیت نے شوکت خانم تو بنوا دیا، سیاست کا میدان بہت مختلف ہوتا ہے ،اس میدان میں کئی مدِمقابل ہوتے ہیں ،جو کامیابیوں اور دعووں کی پوری تاریخ رکھتے ہیں ، مزید براں ورلڈ کپ جیتنے والے سکواڈ میں میانداد بھی تھے ،جو عمران خان جتنی شہرت کے حامل تھے اور ورلڈ کپ جتوانے میں کلیدی کردار کے بھی حامل تھے ،اگر وہ کوئی خیراتی ہسپتال بنانے کا تہیہ کرلیتے تو کیاناکام ٹھہرتے؟
وزیرِ اعظم عمران خان کی کامیابیاں اگرچہ اپنی جگہ اہمیت رکھتی ہیں ،جن سے انکار ممکن نہیں ،لیکن یہ ایسے کارنامے نہیں کہ کوئی دوسرا انجام نہ دے سکے۔ البتہ یہ اپنے نئے میدان (سیاست) میں جھونپڑی کی جگہ تاج محل اور اہرام مصر جیسا کوئی عجوبہ کھڑا کردیتے (جس کا کوئی اِمکان نہیں) ہیںتو اِن کا یہ کارنامہ جُداگانہ ہوگا۔لیکن سیاست میں ایسا کارنامہ سرانجام دینا قطعی مشکل نہیں ، جب آپ کے مدِمقابل ،آپ کے سامنے کمزور پڑ چکے ہوں اور طاقت کے دیگر اسٹیک ہولڈرزکا تعاون بھی حاصل ہو۔
عمران خان کے طرزِ سیاست کا مطالعہ یہ بتاتاہے کہ اِن کے پاس کوئی جامع پروگرام نہیں ،ان کو کامیابی جزوی ملی ہے۔ یعنی وزیرِ اعظم بننے کی کامیابی تو سمیٹی مگر خود کو وزیرِ اعظم ثابت کرنے میں یہ اس وقت تک تو ناکام ٹھہرے ہیں۔بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کو یہ معلوم تھا کہ عوام کیا چاہتے ہیں؟ عمران خان کو شاید یہ بھی معلوم نہیں ۔
عمران خان اگر یہ سمجھتے ہیں کہ عوام یہ چاہتے ہیں کہ کرپٹ اور چور لیڈروں کو اُلٹا لٹکایا جائے ،اُن کو معاف نہ کیا جائے تو یہ دُرست نہیں۔عوام کا یہ مطالبہ نہیں ،اگر عوام کا یہ مطالبہ ہے بھی سہی تو یہ سیاسی نوعیت کے مسلسل پروپیگنڈے کی روشنی میں ترتیب پایا ہے،یہ مطالبہ اپنی اصل میں مصنوعی ہے۔ایک عام آدمی کو اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ فلاں چور ہے،اُس کو اپنی زندگی اور زندگی سے جڑی ضرورتوں اور خوب صورتیوں سے غرض ہے۔
اگر اُس کی زندگی پر بدصورتیوں کا جالاپڑجائے تو پھر باقی سب کچھ بے معنی ٹھہرے گا۔ کاش! وزیراعظم عمران خان اور اُن کی حکومت بدصورتیوں کے جالے اُتارنے میں اپنی قوت صَرف کرتی تو آج صورتِ حال ماضی کی نسبت مختلف ہوتی۔

 

یہ بھی پڑھیے:

بندگلی میں دَم کیسے گھٹتا ہے؟۔۔۔احمد اعجاز

حکومت کا مسئلہ کیا ہے۔۔۔احمد اعجاز

حکومت کا مسئلہ کیا ہے۔۔۔احمد اعجاز

یہی خزاں کے دِن۔۔۔احمد اعجاز

About The Author