جام ایم ڈی گانگا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خواجہ فرید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ انفارمیشن رحیم یار خان میں ہونے والی
پہلی تین روزہ انٹرنیشنل کانفرنس کے پہلے روز کی مرکزی تقریب کے دوران مختلف مقررین حضرات نے اپنے خطاب میں کہا کہ خواجہ غلام فرید کی شاعری میں صوفیانہ درس ملتا ہے، ظلم کے سامنے مزاحمت کرنا اور سچائی کا ساتھ دینا شامل ہے. خواجہ فرید نے ہمیشہ اسلامی تعلیمات کو اپنے اخلاص اور عمل سے لوگوں میں سہل انداز میں پروان چڑھایاہے. مقررین حضرات میں سرائیکی دانشور ماہر فریدیات مجاہد جتوئی، کلیان سنگھ کلیان، ڈاکٹر اختر حسین، ڈاکٹر رخسانہ بی بی (آکسفورڈ)، محمد مرتضی نور، پروفیسر ڈاکٹر قاسم بوگیو، پروفیسر ڈاکٹر نجیب الدین جمال، پروفیسر وفا(ایران)، سجادہ نشین خواجہ معین الدین محبوب کوریجہ، پروفیسر سلیم مظہر، پروفیسر نجیب جبار نمایاں نام تھے۔
خواجہ فرید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی میں پہلی بین الاقوامی کانفرنس بیادِ حضرت خواجہ غلام فریدؒ سے اپنے اپنے خطابات کے دوران مقررین نے خواجہ فرید کی شاعری، تصوف، صوفی ازم اور کانفرنس کے حوالے سے اپنے اپنے علم، اپنی اپنی سوچ، سمجھ،فکر، فہم و فراست،جذبات، وقت کے حالات اور ظاہری و باطنی ضروریات کے تحت اپنے اپنے انداز اور رنگ و ڈھنگ سے بہت ساری باتیں کی ہیں. ان سب کو لکھنے کے لیے کالم تو نا کافی ہے بلکہ ایک کتاب درکار ہے.کسی کے نقطہ نظر سے مکمل یا جزوی اختلاف یا اتفاق دونوں چیزوں میں سے کوئی بھی صورت حال ہو سکتی ہے.کانفرنس میں کون کون صاحبان آئے تھے اور کیا کچھ کہا تھا. رحیم یار خان کے ایک صحافی کی جاری کردہ خبر آپ کے ساتھ شیئر کر رہا ہوں.مہمانِ خصوصی سجادہ نشین دربارِ فرید کوٹ مٹھن شریف خواجہ معین الدین محبوب کوریجہ نے کہا میں یہاں ڈاکٹر سلیمان طاہر کی صورت میں ایک صوفی کو سلام کرنے آیا ہوں جس کے اندر بھی ایک خواجہ غلام فرید چھپا بیٹھا ہے.ان کے خیال میں اصل اسلام حضرت داتا گنج بخش، حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری، حضرت خواجہ غلام فرید، رحمن بابا، مست توکلی، سچل سرمست ، بلھے شاہ، سلطان باہو نے پھیلایا، سب نے نفرت سے پاک اسلام کی بات کی۔
وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر سلیمان طاہر نے کہا کہ وہ خواجہ فرید سکالرشپ کے اجرا کا اعلان کرتے ہیں، ساتھ ہی اکیڈمک کونسل سے منظوری کے بعد "فریدیات” کا ایک باب بھی شامل کریں گے.ہمیں ایسے صوفیا کرام کی تعلیمات کو پروموٹ کرنا چاہئے۔برطانیہ سے آنے والی ڈاکٹر رخسانہ بی بی نے کہا کہ خواجہ فرید یونیورسٹی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ کرونا صورتحال کے باوجود رئیسِ جامعہ پروفیسر سلیمان طاہر نے ایس او پیز کو فالو کرتے ہوئے زبردست کانفرنس کا انعقاد یقینی بنایا ہے، صوفیا نے برصغیر کی کایا پلٹ دی، اردو زبان کی ترویج صوفیا کرام کی مرہونِ منت ہے، جبکہ دنیا بھر میں بین الاقوامی سطح پر سکالرز نے اردو صوفیانہ شاعری پر تصانیف مرتب کی ہیں، کیونکہ عالمی سطح پر تصوف کو خاص اہمیت حاصل ہے پروفیسر نجیب الدین جبار نے کہا کہ مجاز میں اجسام تحلیل ہوجاتے ہیں.صوفیا کی طویل فہرست ہے جنہوں نے تصوف کو زندہ رکھا خواجہ فرید کی شاعری تصوف کے اجسام کا ایک منبع ہے خواجہ فرید کی شاعری میں انگریزوں کے خلاف نفرت اور مزمتی انداز ملتا ہے. پرو وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی سلیم مظہر نے کہا کہ ہمیں خواجہ صاحب اور ڈاکٹر اقبال کی شاعری میں اشتراکیت ملتی ہے.علامہ اقبال اور خواجہ صاحب نے حافظ شیرازی اور علامہ جلال الدین رومی کی شاعری کا بھرپور مطالعہ کیا.اسی وجہ سے خواجہ فرید کی شاعری میں مسائل و مصائب سے چھٹکارے کی امید پنہاں ہے۔سرائیکی دانشور ماہر فریدیات مجاہد جتوئی نے کہا اس کانفرنس کا انعقاد صوفی اِزم کی جیتی جاگتی تصویر ہے. خواجہ فرید نے ہمیشہ حق سچ کا ساتھ دیا.ظلم اور برائی کو اپنے اخلاق سے زیر کیا.کلیان سنگھ نے کہا کہ صوفیانہ ادب وقت کی ضرورت بن گیا ہے. خواجہ صاحب کی بیش تر کافیاں تلنگ راگ میں کہی گئی ہیں جس کو سکھ مذہب نے اپنے وجود کا حصہ بنایا ہوا ہے. صوفی کے اقوال و اعمال میں کہیں ٹکراو نہیں ہوتا، خواجہ صاحب کے مریدین میں مسلم، ہندو اور سکھ شامل تھے.اسی لئے اگر دیکھا جائے تو سکھ راج میں وزیراعظم، وزیرِ قانون اور قاضی صاحبان مسلمان تھے. ویسے بھی صوفی کے در پر دھرم سے نہیں بلکہ اپنے عمل سے متاثر کرتا ہے، یہی خواجہ صاحب کی شخصیت کا خاصہ تھا، جامع خواجہ فرید کے پردھان پروفیسر ڈاکٹر سلیمان طاہر اس خوبصورت کانفرنس کے انعقاد پر دلی مبارکباد کے مستحق ہیں، انہوں نے خواجہ فرید کی بات اسی دھرتی سے ہی شروع کی ہے۔پروفیسر اختر حسین سندھو نے کہا عشق اپنی ذات و انا کی نفی مانگتا ہے اور یہی عنصر خواجہ غلام فرید کی شاعری کی پہچان ہے. محمد مرتضی نور نے کہا نامسائد حالات کے باوجود بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد ہی کانفرنس کی کامیابی کا ثبوت ہے. خواجہ صاحب نے ہمیشہ موجودہ حالات کی بات کی، انہوں نے کہا کہ 220 جامعات جنہیں دانش گاہیں بھی کہا جاتا ہے ان میں خواجہ فرید یونیورسٹی واحد یونیورسٹی ہے جو صوفی narrative کو لے کر چل رہی ہے. ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ایسی کانفرنسز کے ذریعے اپنے مقامی کلچر، صوفیانہ فلاسفی اور خواجہ صاحب کے پیغام کو بین الاقوامی سطح پر فروغ دیں، ہمیں خواجہ غلام فرید سکالرشپ کا اجرا کرنا چاہئے تاکہ غریب بچوں کو حقِ تعلیم مہیا کرنا چاہئے، یہی خواجہ صاحب کی زندگی کا درس ہے. انہوں نے خواجہ فرید سکالرشپ میں پانچ لاکھ عطیہ کا اعلان بھی کیا.خضر نوشاہی نےکہا کہ انسان جب اندر باہر سے صاف ہوجاتا ہے وہ صوفی ہوجاتا ہے. صوفیا نے زمانی و زمینی فاصلے کم کئے ہیں.
محترم قارئین کرام،، مجھے نہیں معلوم کہ مذکورہ بالا خبر میں مقررین کی جو گفتگو لکھی گئی ہے وہ انہی کے الفاظ ہیں یا صحافی صاحب کے.یا بولنے اور سننے کے درمیان میں یہ کسی ماحولیاتی آلودگی کا کوئی اثر اور نتیجہ ہے. خواجہ فرید کی شاعری میں اشتراکیت سے اس وقت تک تو میں لا علم ہوں.تجسس کے عالم میں جناب مجاہد جتوئی کو فون کیا تو انہوں نے کہا کہ خواجہ فرید کی شاعری میں فارسیت کا تو مجھے علم ہے اشتراکیت کا نہیں.پھر میں نے خبر بھیجنے والے صحافی کو فون کیا اور پوچھا فرمانے لگے یہ خبر یونیورسٹی والوں کی جانب سے بنی بنائی آئی ہے.میں نے مکمل پڑھی نہیں آگے بھیج دی ہے. میں نے استفسار کیا کہ کیا آپ کانفرنس میں نہیں گئے تھے. کہا، گیا تھا. لگتا ہے کہ پکی پکائی روٹی کھانے اور بنی بنائی خبر لگانے کا رواج کچھ زیادہ ہی بڑھ گیا ہے.خیر چھوڑیں اس وقت میں کوئی تنقیدی کالم تو لکھ رہا.سچ تو یہ ہے کہ صحافتی اداروں کی کمرشل ازم سوچ نے صحافت کا بیڑا غرق کرکے رکھ دیا.آجکل میرے دیس کی صحافت میں صحافی کم جبکہ بھکاری اور جیب کترے زیادہ پیدا کیے جاتے ہیں. اوپر سے تیز رفتارسوشل میڈیا کی دوڑ نےدماغ کو پرزے پرزے کرکے رکھ دیا ہے.سندھ سرائیکستان پنجاب صوفیا کی دھرتی ہے.اوپر جتنے بھی صوفیا کرام کے نام لکھے گئے ہیں یہ سب کے سب سندھی سرائیکی یا پنجابی زبان بولنے والے ہیں. عربی کے بعد فارسی کو دینی علوم میں ہمیشہ برتری حاصل رہی ہے. صوفیا کرام کی اکثریت فارسی کو جانتی اور سمجھتی ہے. یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں فارسیت بھی شامل ہے.اردو کی ترویج میں صوفیا کرام کا براہ راست کوئی کردار نہیں. ہاں یہ اور بات ہے کہ صوفیا کرام کے سرائیکی سندھی پنجابی پشتو کلام کے اردو ترجمہ و تفہیم سے ان کی نسبت، عقیدت و محبت کی وجہ سے اردو زبان کو بڑا فائدہ حاصل ہوا ہے.
وائس چانسلر ڈاکٹر سلمان طاہر کا خواجہ فرید سکالرشپ کا اعلان کرنا اچھی بات ہے. محمد مرتضی نور کا سکالرشپ کے لیے فوری طور پر پانچ لاکھ روہے عطیہ دینا اس سے بھی زیادہ اچھی اور حوصلہ افزاء بات ہے. ہم امید کرتے ہیں پنجاب حکومت اور وفاقی حکومت خواجہ فرید سکالرشپ کے اجراء کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے اس کے لیے اپنی اپنی جانب سے فنڈز دینے کا اعلان کرکے بچوں کی تعلیمی معاونت اور اعلی تعلیم کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے میں مدد گار ثابت ہوں گی.
میں یہاں پر رحیم یار خان کے کچھ حلقوں کی جانب سے اٹھانے جانے والے اس اعتراض کو بھی کوڈ کرنا ضروری سمجھتا ہوں. جس میں کہا گیا ہے کہ ایسی علمی کانفرنس میں شرکت کے لیے یونیورسٹی کا 2500روپے پر ہیڈ فنڈ، چندہ، ٹوکن یا، ٹکٹ لینا درست نہیں ہے. وائس چانسلر کی جانب سے کی گئی وضاحت کو متعرضین نے قبول کیا ہے یا نہیں.ویسےایک سوال ہے کہ کیا پیڈ شرکت کانفرنسز سے صوفیا کے کلام و پیغام کا پھیلاؤ اور علم کی ترویج و ترقی زیادہ ہوگی یا کم?
یہ بھی پڑھیے:
مئی کرپشن ہم کدھر جا رہے ہیں؟۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا
شوگر ملز لاڈلی انڈسٹری (1)۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا
شوگر ملز لاڈلی انڈسٹری (2)۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا
پولیس از یور فرینڈ کا نعرہ اور زمینی حقائق۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون میں شائع مواد لکھاری کی اپنی رائے ہے۔ ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر