وجاہت مسعود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
.
30 برس پرانی بات ہے۔ جنرل آصف نواز فوج کے سربراہ تھے۔ ایک غیرسرکاری تقریب میں جنرل آصف کے علاوہ اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان، وزیر اعظم نواز شریف اور قومی اسمبلی کے سپیکر گوہر ایوب بھی شریک تھے۔ اگلے روز تمام اخبارات میں ایک تصویر شائع ہوئی جس میں صدر، وزیر اعظم اور سپیکر قومی اسمبلی کی پر اشتیاق نگاہیں فوج کے سربراہ کو ہالہ کیے ہوئے تھیں۔ ہر تین حضرات نے مصافحے کے لیے دست بیعت دراز کر رکھا تھا جب کہ جنرل آصف نواز تینوں حضرات سے پرے کسی غیر متعین نکتے پر نظریں گاڑے ہوئے تھے۔ ایک سماجی تقریب میں لی گئی اس بظاہر غیر اہم تصویر کا اصل مقصد عوام پر یہ واضح کرنا تھا کہ طاقت کا اصل سرچشمہ کون ہے۔ سوال یہ ہے کہ 1991 سے 2021 ء تک آتے آتے کیا سول اور عسکری قیادت کی باہمی میزان میں کچھ تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ اگر کوئی تبدیلی رونما ہوئی ہے تو اس تبدیلی کی سمت کیا ہے؟
پاکستان میں فوج اور سیاسی قیادت میں بالادستی کے لیے کشمکش کی تاریخ پرانی ہے۔ دراصل انسانی تاریخ میں کوئی معاشرہ اس کشمکش سے خالی نہیں رہا۔ تاریخ کی ابتداہی سے فوجی قوت اقتدار کا سرچشمہ رہی ہے۔ فلسفہ حکومت کا یہ زاویہ خاصا جدید ہے کہ کسی معاشرے میں عسکری قوت پر علمی، پیداواری اور تمدنی قوتوں کی بالادستی قائم کیے بغیر امن، ترقی، استحکام اور خوش حالی کی بنیاد نہیں رکھی جا سکتی۔ پہلی عالمی جنگ میں فرانس کے وزیر اعظم کلے منشیو اپنے جنرلوں کو بار بار سمجھاتے تھے کہ جنگ جیسا سنجیدہ معاملہ محض جرنیلوں کی صوابدید پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ دوسری عالمی جنگ میں برطانوی وزیرا عظم ونسٹن چرچل کو جنرل ویول، جنرل آکن لیک اور جنرل منٹگمری سمیت دوسرے جرنیلوں کو بار بار رد و بدل کر کے یہی پیغام دینا پڑتا تھا۔ آزاد بھارت میں پنڈت نہرو اور اندرا گاندھی سے لے کر اٹل بہاری واجپائی تک سیاسی قیادت کو مصمم ارادے اور پر عزم طریقے سے عسکری عزائم کو ان کی حدود میں رکھنا پڑا۔ عسکری قوت اور سیاسی قیادت میں اس خلیج کے فکری پہلوؤں سے قبل اس ضمن میں پاکستانی تاریخ پر ایک نظر ڈال لینا بہتر ہو گا۔
قیام پاکستان کے فوراً بعد کشمیر کا تنازع شروع ہو گیا۔ 1947۔ 48 ءکے موسم سرما میں پاکستانی فوج کی سربراہی جنرل فرینک میسروی کے ہاتھ میں تھی جو برطانوی فوج کی درجہ بندی میں فیلڈ مارشل آکن لیک کے ماتحت تھے۔ فیلڈ مارشل آکن لیک نئی دہلی میں بھارتی فوج کی قیادت کر رہے تھے۔ جنرل فرینک میسروی نے ریاست جموں کشمیر کے ضمن میں پاکستان کے گورنر جنرل محمد علی جناح کا حکم ماننے کے بجائے فیلڈ مارشل آکن لیک کو پاکستانی حکومت کے ارادوں سے آگاہ کر دیا۔ جس پر انہیں برطانوی حکام بالا سے بہت داد ملی کہ انہوں نے ایک بڑی جنگ روک دی ہے۔ جنرل فرینک میسروی کی پہل کاری کے بین الاقوامی اثرات اپنی جگہ لیکن پاکستان کی بدقسمتی تھی کہ یہیں سے اس ملک میں اس روایت کی بنیاد رکھ دی گئی کہ فوجی حکام اپنی صوابدید کے مطابق سیاسی قیادت کی حکم عدولی کر سکتے ہیں۔
میجر جنرل اکبر خان کی وجہ شہرت 1947 ء کا کشمیر آپریشن اور راولپنڈی سازش کیس ہے۔ وہ اپنی کتاب میں ر قم طراز ہیں کہ انہوں نے ایک سرکاری تقریب میں گورنر جنرل قائد اعظم محمد علی جناح کو کشمیر کی پالیسی کے حوالے سے کچھ تجاویز دینے کی کوشش کی لیکن قائد اعظم نے انہیں بری طرح ڈانٹ دیا کہ بحیثیت فوجی جنرل کے ان کا کام پالیسی تشکیل دینا نہیں، حکم ماننا ہے۔ قائد اعظم کے بعد کس سیاسی رہنما کی مجال تھی کہ فوجی قوت کو للکار سکے۔
فیلڈ مارشل ایوب خان اپنی خود نوشت سوانح ”جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی“ میں لکھتے ہیں کہ وزیراعظم لیاقت علی خان سرکاری فائلوں کا مطالعہ کرتے ہوئے کاغذات کو ایک خاص زاویہ پر رکھتے تھے۔ جس سے معلوم ہوتا تھا کہ ان کی نظر کچھ کمزور ہو رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ فوج کے چوالیس سالہ سربراہ جنرل ایوب خان کو اس میں کیا دلچسپی تھی کہ وزیر اعظم لیاقت علی خان کی بصارت کمزور ہو رہی ہے یا نہیں۔ دراصل فوجی افسر ہونے کے ناتے ایوب خان بصارت اور بصیرت میں تمیز کرنے سے قاصر تھے۔
حسین شہید سہروردی مشرقی پاکستان کے مقبول سیاسی رہنما تھے اور راولپنڈی سازش کیس میں وکیل صفائی تھے۔ مقدمے کی کارروائی میں سہروردی نے اپنے مخصوص انداز میں فوج کے کردار پر لطیف پیرائے میں چوٹیں کیں جو ایوب خان کی طبع نازک پر سخت گراں گزریں۔ وہ اپنی خود نوشت میں واضح طور پر لکھتے ہیں کہ جب انہیں سہروردی کی کابینہ میں وزیردفاع کے طور پر کام کرنا پڑا تو انہوں نے وزیر اعظم سہروردی کو صاف صاف بتا دیا کہ وہ وذرات دفاع میں مداخلت پسند نہیں کریں گے۔ واضح رہے کہ ایوب خان فوج کے سربراہ کی حیثیت سے سیکرٹری دفاع کے ماتحت تھے اور وزیر دفاع کی حیثیت سے سیکرٹری دفاع کے افسر بالا بھی تھے۔ وہ ایک ایسے وزیر اعظم سے شوخ چشمی پر اترا رہے تھے جو پارلیمنٹ کی حمایت سے وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز تھا۔
اپنی فوجی تربیت کے باعث ایوب خان سیاسی عمل اور معاشرتی پیچیدگیوں کو سمجھنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ وہ اپنی شخصی وجاہت اور قائدانہ صلاحیت کی بدولت پیچیدہ سیاسی مسائل حل کر سکتے ہیں۔ وہ پارلیمانی جمہوریت کو ایک غیر ضروری بکھیڑا اور سیاسی رہنماؤں کو کندہ نا تراش عطائی سمجھتے تھے۔ جمہوریت میں بظاہر ایک افرا تفری اور ہنگامے کی سی کیفیت نظر آتی ہے لیکن اس بے ترتیبی میں ایک نامیاتی حسن موجود ہوتا ہے جسے دو چار سو وردی پوش تنخواہ دار فوجیوں پر حکم چلانے والے میجر اور کرنل سمجھ نہیں سکتے۔ پنڈت نہرو نے اپنی سیاسی مہارت کی بدولت ایوب خان کو ہر موقع پر نکو بنا کر رکھ دیا۔ 1964 ء میں پندت نہرو کے انتقال کے بعد لال بہادر شاستری ہندوستان کے وزیر اعظم بنے۔ لال بہادر چھوٹے قد اور اکہرے بدن کے انسان تھے اور بظاہر ان کی شخصیت رعب اور دبدے سے خالی تھی۔ 1965 ء کی جنگ میں ایوب خان باقاعدہ اس زعم میں تھے کہ دو بالشت کا منحنی لال بہادر شاستری ان کی بلند و بالا اور سرخ و سپید شخصیت کا مقابلہ نہیں کر سکے گا۔ لال بہادر شاستر ی نے جنوری 1966 ء میں تاشقند مذاکرات کے موقع پر ایوب خان کو ناکوں چنے چبوا دیے۔ لال بہادر شاستری ہندوستان کے جمہوری وزیراعظم تھے، پاکستان کے سیاسی رہنما نہیں تھے جنہیں ایوب خان ایبڈو کا قانون لاگو کر کے منظر سیاست سے غائب کر دیتے۔
جنرل یحییٰ خان نے مارچ 1969 ء میں لیفٹیننٹ جنرل حمید خان، میجر جنرل پیرزادہ اور میجر جنرل گل حسن سے مل کر اقتدار پر قبضہ کیا۔ فوجی طالع آزماؤں کے اس ٹولے کا خیال تھا کہ وہ سیاسی رہنماؤں کو اپنی انگلیوں پر نچائیں گے۔ مشرقی پاکستان کے گورنر ایڈمرل احسن نے اپنی یاد داشتوں میں فروری 1971 ء میں راولپنڈی کے جنرل ہیڈ کوارٹرز میں ایک اعلیٰ فوجی اجلاس کا ذکر کیا ہے۔ ایڈمرل احسن کے بقول پنڈی کے فوجی حکام کا عمومی رویہ یہ تھا کہ حکم ملنے کی دیر ہے، فوج کی ایک کمپنی کالے بھجنگ بنگالیوں کو سیدھا کر دے گی۔ اس ضمن میں لیفٹیننٹ جنرل ٹکا خان اور لیفٹیننٹ جنرل امیر عبداللہ نیازی کے خیالات تاریخ کا حصہ ہیں۔ انتخابی عمل سے قوت پانے کے بعد مجیب الرحمن نے فوجی تانا شاہی کے بخیے ادھیڑ کے رکھ دیے۔ ذوالفقارعلی بھٹو دسمبر 1971 ء کے واقعات کو فوجی شکست کہا کرتے تھے جو دراصل شکست خوردہ فوج کی دلجوئی کا ایک اصطلاحی ڈھنگ تھا۔
16 دسمبر 1971 ء کو پاکستان کے حصے میں آنے والی شکست فوجی سے زیادہ سیاسی ناکامی تھی۔ مشرقی بنگال کے سیاسی رہنماؤں نے مغربی پاکستان کی فوجی قیادت کو شکست دی تھی۔ گوجرانوالہ اور چند دوسرے مقامات پر نچلے درجے کے فوجی افسروں میں بے چینی نہ پھیلتی تو یحییٰ خان اقتدار چھوڑنے کا ارادہ نہیں رکھتے تھے۔ اس زمانے میں نامور صحافی احمد بشیر پیپلز پارٹی کے ترجمان روزنامہ مساوات کا اداریہ لکھا کرتے تھے۔ احمد بشیر نے 20 دسمبر 1971 ءکو ایک سخت اداریہ میں پاکستان کی عسکری قیادت کو بری طرح لتاڑا تھا۔ اسی شام بھٹو صاحب نے اقتدار سنبھال لیا۔ احمد بشیر روایت کرتے تھے کہ اگلے دن جنرل گل حسن سخت غصے میں ایوان صدر پہنچے اور مساوات کا ادارتی صفحہ بھٹو صاحب کی میز پر رکھتے ہوئے کہا کہ ہم آپ کو صدر بناتے ہیں اور آپ ہمارے خلاف اداریے لکھواتے ہیں۔ گویا جنرل گل حسن کی دانست میں ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار فوج نے دیا تھا، پاکستان کے عوام نے نہیں، جنہوں نے انہیں مغربی پاکستان سے قومی اسمبلی کی 81 نشستیں دلائی تھیں۔
ایک گواہی اس پر خالد حسن سے بھی لے لیں۔ خالد حسن بھٹو صاحب کے پریس سیکریٹری تھے۔ ایچ کے برکی پاکستان ٹائمز کے معروف صحافی تھے۔ انہوں نے اپنے اخبار میں مضامین کا ایک سلسلہ شروع کیا جس میں جنرل یحییٰ، لیفٹیننٹ جنرل حمید خان اور دوسرے جرنیلوں کی ان غلطیوں سے پردہ اٹھانا مقصود تھا جن کے نتیجے میں پاکستان کا خانہ خراب ہوا۔ انگریزی زبان ایچ کے برکی کی انگلیوں پر ناچتی تھی۔ انہوں نے 1970 ء والی فوجی جنتا کے لیے وہ اصطلاح استعمال کی جو ہٹلر کے جرنیلوں کے لیے برتی گئی تھی۔ ”Fat and flabby generals“ اس کا اردو ترجمہ مشکل ہے۔ ’عسکری سالاروں کی موٹی تھل تھل کرتی راسیں‘ شاید کام دے جائے۔ بھٹو کوئٹہ سٹاف کالج کے دورے پر گئے تو فوجی افسروں نے ایچ کے برکی کے لب و لہجے کی شکایت کی۔ بھٹو صاحب نے خالد حسن سے کہا کہ برکی صاحب کو فون کر کے استدعا کرو کہ ’ہاتھ ہلکا رکھیں‘ ۔
پاکستان ٹیلی ویژن 16 دسمبر 1971 ء کو رمنا ریس کورس گراؤنڈ ڈھاکہ میں جنرل نیازی کے ہتھیار ڈالنے کی فلم ایک ہی بار نشر کر سکا۔ حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ تیس برس بعد 2002 ء میں جزوی طور پر جاری کی جا سکی۔ جنرل گل حسن نے اپنی خود نوشست یادداشتوں کا عنوان ”آخری کمانڈرانچیف“ رکھا۔ اس میں یہ التزام تھا کہ تیس دسمبر 1971 ء کو جب گل حسن فوج کے سربراہ بنے تو پاکستان نے بنگلہ دیش کو تسلیم نہیں کیا تھا۔ اس قانونی نکتے کا سہارا لے کر گل حسن خود کو متحدہ پاکستان کا ’آخری کمانڈرانچیف‘ قرا ر دیتے تھے اور شخصی انا کی تسکین پاتے تھے۔ 2 مارچ 1972 ء کو بھٹو صاحب نے جنرل گل حسن اور ائر مارشل رحیم خان کو فوج سے برطرف کیا۔ گل حسن کی یادداشتوں میں اس کی تلخی واضح طور پر محسوس کی جا سکتی ہے۔
پاکستان میں عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ بھٹو صاحب ایک ایسے سربراہ مملکت تھے جو فوج پر سیاسی قوتوں کی بالادستی کی ضمانت دے سکتا تھا۔ یہ تاثر درست نہیں۔ جسٹس جاوید اقبال ان دنوں ہائی کورٹ کے جج تھے۔ بیان کرتے ہیں کہ جسٹس شمیم حسین قادری نے لاہور ہائی کورٹ میں کسی مقدمے کی سماعت کے دوران بطور فریق پیش ہونے والے ایک حاضر سروس کرنل کو ڈانٹ دیا۔ اس کی شکایت جنرل ٹکا خان کے ذریعے بھٹو صاحب سے کی گئی۔ بھٹو صاحب نے جسٹس شمیم حسین قادری کو پیغام بھیجا کہ وہ احتیاط سے کام لیں۔ بھٹو صاحب کے لفظوں میں ”ابھی ہم جنگل سے باہر نہیں نکلے“ ۔ بھٹو صاحب اس جنگل سے کبھی نہیں نکل سکے۔
پروفیسر غفور احمد اور کوثر نیازی کی یادداشتوں میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان قومی اتحاد اور پیپلز پارٹی کے مابین 1977 ء کے مذاکرات میں بلوچستان بغاوت کے حوالے سے فوجی حکام کو بھی شریک کیا گیا۔ جنرل ضیا الحق اور جنرل چشتی بریفنگ میں شریک ہوئے۔ جنرل چشتی نے سیاسی قیادت کو قومی سلامتی پر لیکچر پلانا شروع کر دیا جس پر نواب زادہ نصر اللہ کو انہیں یاد دلانا پڑا کہ ان کا منصب فوجی امور کی دیکھ بھال ہے، قوم کا سیاسی نصب العین طے کرنا نہیں۔ 5 جولائی 1977 ء کے بعد جنرل ضیا الحق کے عہد میں جو کچھ ہوا، اس پر ایک سے زیادہ روایات سامنے آ چکی ہیں۔ جنرل چشتی کا نقطہ نظر بھی شائع ہو چکا ہے اور جنرل کے ایم عارف کا زاویہ نگاہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ لیکن سب سے مستند روایت تو خود جنرل ضیا الحق کے اقوال زریں ہیں۔
جنرل ضیا نے ایران کے اخبار کیہان انٹرنیشنل کو انٹرویو دیتے ہوئے پاکستان کے متفقہ آئین کو بارہ صفحات کا کتابچہ قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ وہ جب چاہیں، آئین کے پرزے اڑا سکتے ہیں۔ جنرل ضیا الحق سیاست دانوں کے بارے میں کہتے تھے کہ وہ جب چاہیں گے، سیاست دان کتے کی طرح دم ہلاتے ہوئے ان کے پاس پہنچیں گے۔ جنرل ضیا الحق نے پاکستان پر بدترین فوجی آمریت مسلط کی۔ سیاسی کارکنوں اور صحافیوں کو کوڑے مارے، آئینی وزیراعظم کو پھانسی پر لٹکایا، اخبارات پر کڑی سنسر شپ نافذ کی۔ دانشوروں پر پاکستان کی چاندنی، پانی اور ہوا حرام کرنے کی بشارت دی۔ لیکن جنرل ضیا الحق کو صوبہ سندھ کے موضع سندھڑی سے تعلق رکھنے والے محمد خان جونیجو نے واضح سیاسی اور جمہوری اختیار نہ ہونے کے باوجود تگنی کا ناچ نچا دیا۔ اوجڑی کیمپ پر تحقیقات کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بحران کے بعد 29 مئی 1988 ء کو محمد خان جونیجو باوقار انداز میں سندھڑی واپس چلے گئے لیکن ضیا الحق کو ضلع لودھراں کی بستی لال کمال کا ٹکٹ تھما گئے۔
فوج نے 1988 ء میں ضیا الحق کی موت کے بعد انتقال اقتدار کے بجائے شراکت اقتدار کا فیصلہ کیا تھا۔ گویا منصوبہ یہ تھا کہ بظاہر سیاست دانوں کو اقتدار دیا جائے لیکن پس پردہ اصل اختیارات فیصلہ سازی اور مالی منفعت کا نظام قائم رکھا جائے۔ آئی ایس آئی کے (تب) ڈائریکٹر جنرل حمید گل کھلے عام اقرار کرتے تھے کہ انہوں نے پیپلز پارٹی کو کمزور کرنے کے لیے چودہ کروڑ روپے صرف کر کے آئی جے آئی تشکیل دی تھی۔ اس کے باوجود پیپلز پارٹی آئی جے آئی کی 54 نشستوں کے مقابلے میں 94 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی تو پیپلز پارٹی کے ساتھ سودے بازی کا ڈول ڈالا گیا۔ فیصلہ یہ تھا کہ جمہوری حکومت خارجہ پالیسی خصوصاً افغان پالیسی اور بھارت کے ساتھ تعلقات میں دخل نہیں دے گی، دفاعی امور میں جمہوری حکومت کو دخل اندازی کی اجازت نہیں ہو گی، ایٹمی پالیسی پر وزیرا عظم کے بجائے فوج کے سربراہ اور صدر کو اختیار ہو گا، حکومت میں فیصلہ کن مناصب مثلاً وزارت خارجہ اور دوسرے عہدوں پر فوج کے تجویز کنندہ افراد فائز کیے جائیں گے اور صدر کے پاس آئین کی دفعہ 58 ( 2 ) بی کے تحت حکومت توڑنے کا اختیار موجود ہو گا۔ اس پرطرہ یہ کہ ملک کے سب سے بڑے صوبے میں آئی جے آئی کی حکومت قائم کر دی گئی جہاں میاں نواز شریف ہیئت مقتدرہ اور ذرائع ابلاغ میں خود کاشتہ محب وطن عناصر کی مدد سے وزیر اعظم بننے کے خواب دیکھ رہے تھے۔ گویا بے نظیر بھٹو کو ہاتھ پاؤں باندھ کر ایک بے پتوار تختے پر طوفانی سمندر کی لہروں کے سپرد کر دیا گیا تھا۔
اس امر کی اہمیت 1988 ء میں پیش آنے والے کچھ واقعات کی روشنی میں سمجھی جا سکتی ہے۔ نومبر 1988 ء میں بینظیر بھٹو ملک کی وزیر اعظم منتخب ہوئیں تو فوج کی کمان جنرل اسلم بیگ کر رہے تھے جب کہ آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل حمید گل تھے۔ اس موقع پر فوجی قیادت نے نو منتخب وزیر اعظم کو بریفنگ دینے کے لیے یہ کہہ کر ایوان وزیر اعظم جانے سے انکار کر دیا تھا کہ بریفنگ میں استعمال ہونے والے حساس نوعیت کے نقشہ جات وزیر اعظم ہاؤس نہیں لے جائے جا سکتے۔ مجبوراً بے نظیر بھٹو کو جی ایچ کیو جا کر فوجی قیادت سے بریفنگ لینا پڑی تھی۔ اس کے دو ہی مطلب لیے جا سکتے تھے۔ برخود غلط عسکری قیادت سیاسی قیادت پر اپنی برتری جتانا چاہتی تھی یا یہ کہ ملک کی منتخب وزیر اعظم کو قومی سلامتی کے حساس معاملات پر اعتماد کے قابل نہیں سمجھا جا رہا تھا۔ اس کا انجام سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی کتاب ”چاہ یوسف سے صدا“ میں ملاحظہ کریں :
”انیس سو نوے میں بے نظیر بھٹو نے اپنی رہائش گا ہ پر کور کمانڈروں کے اعزاز میں عشائیہ دیا۔ انہوں نے ہر کور کمانڈر کے ساتھ اپنا ایک وزیر بٹھا دیا۔ مجھے وزیر اعظم کی طرف سے چٹ موصول ہوئی کہ آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل حمید گل سے حکومت کی کارکردگی کے بارے میں دریافت کروں۔ حمید گل نے کہا کہ آپ کی حکومت پر بد عنوانی کے کئی الزامات ہیں اور آپ کے برے دن آنے والے ہیں۔ اسی سال 6 اگست کو پیپلز پارٹی کی حکومت برطرف کر دی گئی“ ۔
سوال یہ ہے کہ آئی ایس آئی کے سربراہ کو یہ کیسے معلوم تھا کہ قومی اسمبلی میں اکثریت کی حمایت رکھنے والی بے نظیر بھٹو کو برطرف کیا جا رہا ہے۔ بے نظیر کو برطرف کرنے کے بعد نئے انتخابات کا ڈول ڈالا گیا جن میں جنرل اسد درانی کے مطابق آئی جے آئی کے رہنماؤں میں خفیہ فنڈ سے کروڑوں روپے تقسیم کیے گئے تھے۔ (اس اعتراف کے بارے میں ائر مارشل اصغر خان کی آئینی درخواست 1996 ء سے سپریم کورٹ میں انصاف کی منتظر تھی۔ 2010 ء میں بالآخر اس مقدمے کا نامکمل فیصلہ سامنے آیا تو پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا تھا۔
اتنے ارمانوں سے نواز شریف کو اقتدار میں لانے کے بعد بھی یہ گتھی سلجھ نہیں سکی۔ واقعہ یہ ہے کہ سیاسی قیادت اور پیوستہ مفادات کی حامل ہیئت مقتدرہ کا تضاد شخصی ٹکراؤ نہیں ہوتا۔ بات یہ ہے کہ آئین میں فوج کے کسی سیاسی کردار کا کوئی ذکر نہیں ہے بلکہ فوجی اہلکاروں کے لیے سیاست میں دخل اندازی کی کڑی ممانعت ہے۔ دوسری طرف وزیر اعظم کو صدر مملکت پر ادارہ جاتی بالا دستی حاصل ہے۔ جب آئین کے اس منشا کو مسخ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو سیاسی بحران جنم لیتے ہیں۔ سیاسی خربوزے اورعسکری چھری کے ٹکراؤ میں خربوزے کا نقصان ہوتا ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ الزام بھی خربوزے ہی پر دھرا جاتا ہے۔
1993 ء میں غلام اسحاق خان نے نواز شریف کو برطرف کیا لیکن سپریم کورٹ نے ان کی حکومت بحال کر دی۔ تاہم نواز شریف پارلیمنٹ اور عدلیہ کی حمایت کے باوجود اقتدار پر اپنی گرفت قائم نہیں رکھ سکے۔ غلام اسحاق خان کے پاس جادو کی وہ کون سی چھڑی تھی جس کی مدد سے وہ جاتے جاتے نواز شریف کو بھی لے ڈوبے۔ جادو کی یہ چھڑی جنرل وحید کاکڑ کے پاس تھی جو 1993 ء میں فوج کے سربراہ تھے۔ ایک مرتبہ پھر بے نظیر برسراقتدار آئیں۔ اس موقع پر فوج کے اثرو رسوخ کی جھلک بھی یوسف رضا گیلانی کی زبانی ملاحظہ کریں۔
انیس سو ترانوے میں گیلانی سپیکر قومی اسمبلی منتخب ہوئے تو رکن اسمبلی نواب اکبر بگتی نے بلوچی زبان میں خیر مقدمی تقریر کی جس پر ایک رکن نے اعتراض کیا جسے نو منتخب سپیکر نے یہ کہہ کر رد کر دیا کہ جذبات کی بہتر ترجمانی مادری زبان ہی میں ہو سکتی ہے۔ اس واقعہ کے حوالے سے وہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں ”جب میں اپنے چیمبر میں پہنچا تو فون کی گھنٹی بجی اور دوسری طرف سے گرجدار لہجے میں کہا گیا کہ سپیکر صاحب! آپ نے بگتی کو بلوچی زبان میں تقریر کرنے کی اجازت کیوں دی؟ فوج نے اس کا سخت برا مانا ہے“ ۔ گیلانی کہتے ہیں کہ اس سے پہلے کہ وہ کوئی جواب دیتے فون بند ہو چکا تھا۔
گیلانی مزید لکھتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کی حکومت کی برطرفی سے ایک رات قبل جنرل جہانگیر کرامت نے ایک عشائیے پر ان سے بات کرتے ہوئے صدر لغاری اور وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے درمیان ضامن بننے کی پیشکش کرتے ہوئے بتایا کہ چند دن پہلے نواز شریف کی ایک فون کال ٹیپ کی گئی ہے جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ صدر نے اسمبلی تحلیل کرنے اور نئے انتخابات کرانے کا وعدہ کیا ہے۔ گیلانی نے جہانگیر کرامت کی پیشکش کے بار ے میں بے نظیر بھٹو کو آگاہ کیا تو ان کا جواب تھا ”مجھے شرم آتی ہے کہ میں اپنے ہی صدر کی ضمانت آرمی چیف سے لیتی پھروں“ ۔
اس سارے عرصے میں بے نظیر ہوں یا نواز شریف، انہیں نادیدہ ہاتھوں نے چین سے کام نہیں کرنے دیا۔ آئے روز ایک نیا بہانہ، ہر روز ایک نیا بحران، ذرائع ابلاغ میں اشقلے، بین الاقوامی سطح پر ایسی پالیسیاں جنہیں سیاسی قیادت نگل سکے نہ اگل سکے۔ بالآخر 12 اکتوبر 1999 ء کو پرویز مشرف نے درشنی جھروکے کا پردہ ہٹا کر جلوہ انوارکو ارزاں کر دیا۔ پرویز مشرف کی فوجی حکومت میں سیاست دانوں اور سیاسی قیادت پر جو الزام دھرے گئے، وہ سب کے سامنے ہیں۔ جنرل مشرف نے سیاسی عمل اور جمہوری حکمرانی پر زبان طعن دراز کرنے میں کیا کسر چھوڑی۔ جمہوریت کو محض ایک ’لیبل‘ یا مہر قرار دیا، آئین، جمہوریت اور عوامی دانش کی سرعام توہین کی، سیاسی قیادت کو بدعنوان اور نا اہل قرار دیا، اپنی خود ساختہ پارلیمنٹ کو گنواروں کے اجڈ ہجوم کا خطاب دیا، قومی اسمبلی میں صدر کے آئینی خطاب کے بعد حزب اختلاف پر مکے لہرائے۔ حتیٰ کہ اپنی تصنیف لطیف میں پاکستان کی اس سیاسی قیادت کو بھی نہیں بخشا جو 1971 ء میں اس وقت بچے کھچے پاکستان کی کرچیاں سمیٹ رہی تھی جب پرویز مشرف 28 برس کی عمر میں فوجی میجر کے عہدہ جلیلہ پر فائزتھے۔ لیکن اس لاحاصل مشق کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستانی عوام نے 18 فروری 2008 ء کے انتخابات میں ایک بار پھر فوجی قیادت اور اس کے خوان نعمت کے خوشہ چینوں کو بری طرح رد کر دیا۔
سوال یہ ہے کہ آخر ایک ہی قوم سے تعلق رکھنے والے دو مختلف اجزا میں کشمکش کی یہ نوبت کیوں آتی ہے۔ اس کا سادہ جواب یہ ہے کہ فوج اور معاشرہ اپنی نوعیت، کردار اور طریقہ کار کے حوالے سے دو مختلف مظاہر ہیں۔ جو مہارتیں اور طریقہ کار فوج میں اختیار کیے جاتے ہیں، انہیں معاشرے پر لاگو کیا جائے تو معاشرہ تباہ ہو جاتا ہے۔ ادھر جو مہارتیں اور عملی اصول معاشرے کے لیے کارآمد ہیں انہیں فوج میں رائج کیا جائے تو فوج اپنے فرائض منصبی ٹھیک طریقے سے ادا نہیں کر سکتی۔
فوج میں تمام کارروائیوں کو خفیہ رکھا جاتا ہے۔ انہیں نہ صرف یہ کہ دشمن سے پوشیدہ رکھا جاتا ہے بلکہ غیر متعلقہ افراد کو بھی لاعلم رکھا جاتا ہے۔ دوسری طرف سیاسی عمل میں پارلیمنٹ ہوں یا عدالتیں، ان کی کارروائیاں طے شدہ ضابطوں کے مطابق اور شفاف طریقے سے ظہور پذیر ہوتی ہیں۔ فوج میں قیادت کی وحدانیت کا تصور پایا جاتا ہے جس میں اختلاف رائے کی گنجائش نہیں ہوتی۔ دوسری طرف سیاسی عمل میں قوم کی اجتماعی فراست اور مشاورت کو بروئے کار لایا جاتا ہے۔ اختلاف رائے جو عسکری اداروں کے لیے زہر قاتل ہے، جمہوریت کے لیے لازمی امر ہے۔
اسی طرح فوجی کارروائی میں مخالف قوتوں کو حیران کرنے کی حکمت عملی اپنائی جاتی ہے تاکہ وہ اچانک حملے کی تاب نہ لا کر پسپا ہو جائیں، دوسری طرف سیاسی عمل میں ایک نامیاتی ارتقا پایا جاتا ہے جس میں تسلسل اور تواتر کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ سیاسی عمل میں حیران کرنے کی حکمت عملی عارضی جب کہ طے شدہ منزل کی طرف پیش قدمی تسلسل رکھتی ہے۔ ایک فوجی کمانڈر کو مخالف کی نیت پر شک کرنے کی تربیت دی جاتی ہے۔ اسے خود کو ہر طرح کی ہنگامی صورت حال کے لیے تیار رکھنا پڑتا ہے۔ دوسری طرف سیاست اعتماد کے پل باندھنے کا عمل ہے۔ مسلسل شکوک شبہات کی فضا میں سیاسی عمل فساد اور تفرقے کی طرف لے جاتا ہے۔ سیاست مختلف گروہوں، طبقات اور خطوں میں باہم اعتماد پیدا کرنے کا عمل ہے۔
فوجی حکمت عملی میں دو رخی چالوں کو بنیادی اہمیت حاصل ہے لیکن سیاسی عمل میں یہی دو رخی دھوکا دہی اور موقع پرستی شمار ہوتی ہے۔ ایک فوجی کمانڈر کے لیے اپنے ارادوں پر پردہ ڈالے رکھنا جائزہے لیکن سیاسی رہنما کو عوام کے سامنے اپنی رائے بیان کرنا ہوتی ہے۔ جنگ ایک ہنگامی صورت حال کا نام ہے لیکن کوئی صحت مند معاشرہ مستقل جنگ کو اپنا نصب العین قرار نہیں دے سکتا۔ سیاسی عمل کا نصب العین امن کا قیام ہے جب کہ عسکری قوتوں کا فرض جنگ کی تیاری ہے۔ عسکری قوت اپنے مقاصد کے حصول کے لیے قوت کے استعمال پر یقین رکھتی ہے جب کہ سیاسی عمل پیداوار، تجارت اور علم کے سہارے آگے بڑھتا ہے۔ فوجی ذہن اپنی فتح اور مخالف کی مکمل شکست کے سوا کچھ سوچنے کی صلاحیت نہیں رکھتا جب کہ سیاسی طریقہ کار ایسی حکمت عملی اختیار کرنے کا نام ہے جس میں جملہ فریقین کے مفادات کا زیادہ سے زیادہ تحفظ ممکن بنایا جا سکے۔ عسکری قوت اور سیاسی عمل ایک ہی دریا کے دو مختلف دھارے ہیں لیکن اس دریا کی روانی کا تقاضا ان دھاروں کو الگ الگ رکھنا ہے۔
چنانچہ جدید ریاست میں عسکری قوت کو سیاسی اداروں سے الگ رکھا جاتا ہے۔ علمی، تمدنی اور سیاسی قوتوں کو فوج پر بالا دستی دی جاتی ہے اور قومی سطح پر یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ فوج جغرافیائی سرحدوں کی محافظ ہے، قوم کے سیاسی نصب العین، تمدنی رجحانات اور معاشی امکانات کی محتسب نہیں۔ جن قوموں میں سیاسی اور جمہوری قوتیں یہ اصول نافذ کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں، وہ معاشرے جمہوریت اور ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو جاتے ہیں۔ جن معاشروں میں سیاسی قیادت کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر عسکری قوت اپنی بالا دستی قائم کر لیتی ہے وہ معاشرے مستقل بحران، پسماندگی اور اجتماعی ناکامی کی راہ پر چل نکلتے ہیں۔
بشکریہ ہم سب
یہ بھی پڑھیے:
منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود
ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود
وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود
اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر