عثمان غازی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کتنے تعجب کی بات ہے کہ نو جماعتیں ایک طرف اور پاکستان پیپلزپارٹی دوسری جانب تاہم یہ نو جماعتیں مل کر بھی پاکستان پیپلزپارٹی کے بغیر 26 مارچ کو لانگ مارچ کرنے کے قابل نہیں!!
پی ڈی ایم کی پوری تحریک میں اب تک جو کامیابی ملی، اس کی وجہ صرف بلاول بھٹو اور پاکستان پیپلزپارٹی ہے، نو ضمنی انتخابات میں کامیابی ہو یا سینیٹ کے انتخابات — یہ سب پی پی کی تجویز پر استعفی نہ دینے کی وجہ سے ممکن ہوا۔
میاں نواز شریف اور مولانا فضل الرحمان انتہائی قابل احترام سیاسی لیڈران ہیں تاہم پاکستان پیپلزپارٹی کے بغیر لاہور، گوجرانوالہ اور پشاور کے جلسوں کے حال دیکھ لیں، ان جلسوں کی میزبان یہی سیاسی جماعتیں تھیں اور دوسری جانب مالاکنڈ سے کراچی تک پی پی کی میزبانی میں ہونے والے عوامی جلسے اور ریلیاں دیکھ لیں — بظاہر صرف پی پی پورے ملک میں عوام کو سڑکوں پر لانے کی قابلیت رکھتی ہے۔
اور جب اپوزیشن نے پارلیمان میں عمران خان کو اتنا زبردست نقصان پہنچایا، اس کے ووٹوں کی اکثریت کو چھ تک محدود کردیا، اس کی اخلاقی حیثیت کو صفر کردیا تو استعفے دینا کہاں کی دانش مندی ہے، جب یوسف رضا گیلانی اکثریتی ووٹوں سے انتخابات جیت سکتے ہیں تو عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کون سا مشکل کام ہے!!
اور اگر بیماری کے باوجود آصف زرداری جدوجہد کرسکتے ہیں تو میاں صاحب سے تو شاید عوام کی زیادہ توقعات ہیں، آج محترمہ مریم نواز صاحبہ کا بیان سن کر صدمہ ہوا کہ جان کے خطرے کی وجہ سے میاں صاحب کی واپس نہیں آسکتے تو مولانا فضل الرحمان جن پر تین تین قاتلانہ حملے ہوئے، ان کا کیا قصور ہے، یہ بھی ملک سے باہر چلے جائیں اور عوام کیوں گھروں سے نکلیں کہ جب لیڈر ملک سے باہر بیٹھا ہو — پاکستانی سیاست دان شہید ذوالفقار علی بھٹو تو نہیں بن سکتے تاہم ان کی نقل تو کرسکتے ہیں۔
ہم استعفے حکومت سے لینے آئے ہیں، پاکستان پیپلزپارٹی نے پی ڈی ایم اس لئے نہیں بنائی کہ حکومت کے بجائے اپوزیشن استعفے دیدے اور عمران خان کو اسٹبلشمنٹ کے ساتھ پوری طاقت مل جائے کہ وہ جو چاہے کرتا پھرے، دلچسپی کی بات یہ ہے کہ پی ڈی ایم کے قیام کے وقت جو مقاصد طے کئے گئے، ان میں یوں استعفے دینا شامل نہیں، استعفے ہمیشہ آخری آپشن ہوتے ہیں اور ان کو پہلے آپشن کے طور پر استعمال کرنا کسی میچیور سیاسی جماعت کا دانش مندانہ فیصلہ نہیں ہوسکتا۔
استعفے لانگ مارچ سے مشروط نہیں تھے، یہاں سوال اٹھ رہے ہیں کہ راتوں رات لانگ مارچ سے 10 روز قبل اچانک ایسا کیا ہوا کہ میاں صاحب اور مولانا صاحب نے فیصلہ کیا کہ دونوں نے مل کر لانگ مارچ سے قبل پی پی سے استعفے لینے ہیں — یہ کتنی امیچیورٹی ہے، بالفرض محال اگر اپوزیشن نے استعفے دیدیئے تو اس کے بعد کیا ہوگا؟ عمران خان ضمنی انتخابات کروائے گا اور اگر ڈسکہ جیسی صورت حال پیدا کی تو دھاندلی سے ہر اس جگہ سے جیتے گا جہاں آج اپوزیشن کے اراکین جیتے ہوئے ہیں۔
اچانک لانگ مارچ سے استعفوں کو نتھی کرنا کہیں اس بات کی کوشش تو نہیں تھی کہ جو کامیابیاں پی پی نے سمیٹی ہیں، ان کو سبوتاژ کیا جائے اور پی پی پی کے علاوہ کسی پارٹی کی لانگ مارچ کے حوالے سے تیاری نہیں تھی، یہ سوالات پی پی کے حلقوں میں اٹھ رہے ہیں، استعفوں کو لانگ مارچ سے نتھی کرکے بظاہر مسلم لیگ ن اور جے یو آئی نے خود لانگ مارچ کو ناکام بنانے کی کوشش کی ہے۔
اور اگر کسی ناہنجار کا خیال ہے کہ میاں صاحب اسپتال سے اٹھ کر لندن پہنچ گئے اور زرداری صاحب کو جیل میں ٹھنڈے پانی کا کولر تک نہیں دیا گیا اور ایسے میں پی پی نے اسٹبلشمنٹ سے ڈیل کرلی ہے تو ایسی خرافات پر ماتم ہی کیا جاسکتا ہے، تصور کریں کہ ابھی پی پی پارلیمان میں عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لے آتی ہے تو مسلم لیگ ن کہاں کھڑی ہوگی؟
جیالوں کے پاس حکومتوں سے لڑنے کا 50 سال کا تجربہ ہے، 1985 کے غیرجماعتی انتخابات کے بعد پی پی پی نے فیصلہ کرلیا تھا کہ پارلیمان پر سمجھوتہ نہیں کرنا، میاں صاحب ڈکٹیٹر ضیاء الحق کی 1985 کی اسمبلی سے ہی منتخب ہوئے تھے، انہیں شاید ابھی اندازہ نہیں ہے کہ میدان چھوڑنا کتنا خطرناک ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ 2007 میں میاں صاحب الیکشن کے بائیکاٹ کی رٹ لگائے ہوئے تھے اور پھر پی پی کے سمجھانے پر باز آئے، کل میڈیا والے آصف زرداری کی پی ڈی ایم سربراہی اجلاس کی گفتگو کو نشر کررہے تھے، اگر یہ گفتگو من وعن درست ہے تو ان کا ایک جملہ مجھے پسند آیا، انہوں نے کہا کہ ہم پہاڑوں سے نہیں بلکہ پارلیمان میں رہ کر لڑنے والے لوگ پیں۔
میاں صاحب اور مولانا صاحب
آپ دونوں کو بھی یہ بات سمجھنا ہوگی۔
یہ بھی پڑھیے:
پاکستان میں راجہ داہر اور محمد بن قاسم پر بحث خوش آئندہے۔۔۔ عثمان غازی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر