عثمان غازی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب پی ڈی ایم کا قیام ہوا تو ایک ایکشن پلان تیار کیا گیا جس میں استعفوں کا ایک آپشن تھا، اس آپشن کا استعمال کب کرنا ہے، یہ ایک ذیلی کمیٹی نے طے کرنا تھا تاہم ایسا کچھ بھی نہیں ہوا اور ایسے میں کہ جب پاکستان پیپلزپارٹی کے علاوہ لانگ مارچ کے لئے کسی کی تیاری نہیں تھی، اس لانگ مارچ سے 10 روز قبل میاں صاحب اور مولانا صاحب نے استعفوں سے لانگ مارچ کو مشروط کرکے فوری استعفے دینے کا مطالبہ کردیا-
یہ صورت حال انتہائی مضحکہ خیز تھی، صحافتی حلقوں کے مطابق مسلم لیگ ن اور جمعیت علمائے اسلام کے رہنما پہلے استعفوں سے متعلق یہ کہتے تھے کہ سینیٹ انتخابات سے قبل استعفے دئیے جائیں تاہم جب انہیں سمجھایا گیا کہ اس سے سینیٹ انتخابات پر کوئی فرق نہیں پڑے گا تو وہ خاموش ہوگئے اور بلاول بھٹو کی بات مان لی جس کا نتیجہ پارلیمان میں عمران خان کے خلاف بڑی کامیابیوں کی صورت میں سب کے سامنے ہے-
اب جب سینیٹ انتخابات ہوچکے ہیں تو استعفے دے کر کیا نتیجہ حاصل کرنا ہے؟ مولانا صاحب اور میاں صاحب شاید اپنے لوگوں کو بھی یہ بات سمجھا نہیں پارہے، استعفوں سے کوئی آئینی بحران پیدا نہیں ہونا بلکہ سیدھا سادھا ہر حلقے میں ہر ہفتے ضمنی انتخاب ہوں گے، کیا ضمنی انتخابات میں حصہ لینے کے لئے استعفے دینا احمقانہ فیصلہ نہیں؟
پی ڈی ایم کے جس اجلاس کے دوران اختلافات سامنے آئے، وہ اجلاس اعلان کے مطابق لانگ مارچ کے حوالے سے ہونا تھا تاہم لانگ مارچ کے ایجنڈے کے بجائے شاید نجانے کیوں استعفوں پر بات شروع کردی گئی، جب پی ٹی آئی نے 2014 میں نواز شریف حکومت کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے استعفے اسپیکر اسمبلی کو جمع کرائے تو کبھی پی ٹی آئی اراکین نے ان استعفوں کی اسپیکر کو تصدیق نہیں کی کہ کہیں یہ استعفے منظور نہ ہوجائیں کیونکہ انہیں بھی پتہ تھا کہ استعفے دے کر سسٹم سے آؤٹ ہوکر وہ اپنے حریف کو شکست دینے کے بجائے اسے مزید مضبوط کریں گے!!
بالفرض محال پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے متحدہ اپوزیشن استعفے دے دیتی ہے تو عمران خان کے پاس سادہ اکثریت پہلے سے موجود ہے، ایسے میں عمران خان 18ویں آئینی ترمیم کا خاتمہ بھی کردے گا اور صدارتی نظام بھی لاسکتا ہے، وہ اپنی مرضی کی انتخابی اصلاحات کرائے گا تاکہ آئندہ انتخابات بھی دھاندلی سے جیت جائے اور اپوزیشن کا مستعفی لشکر صرف غوغاں کرے گا-
آپ حیران ہوں گے کہ یہ کسی بچے کے بھی سمجھ آنے والی سادہ سی باتیں آخر میاں صاحب اور مولانا صاحب کی سمجھ کیوں نہیں آرہیں، مسلم لیگ ن کے اراکین کی یہ حالت ہے کہ جب انہوں نے اپنی قیادت کو استعفے جمع کرواکر ٹویٹر پر تصدیق کی تو اس تصدیق کو بنیاد بنا کر پی ٹی آئی نے ان کے استعفے منظور کروانےکی شرارت کی اور سب رونا شروع ہوگئے اور جلدی جلدی استعفے جمع کروانے کی تصدیق سے متعلق اپنے ٹویٹس ڈیلیٹ کئے۔
پاکستان پیپلزپارٹی پر 2014 میں پی ٹی آئی والے مسلم لیگ ن کی بی ٹی ہونے کا الزام لگایا کرتے تھے، آج 2021 میں پی پی پی پر مسلم لیگ ن کے حلقوں سے الزام لگ رہا ہے کہ پیپلزپارٹی پی ٹی آئی کی بی ٹیم ہے جبکہ 2014 میں بھی پی پی پی کا یہی مؤقف تھا کہ جو آج 2021 میں ہے کہ پارلیمان کے اندر رہ کر ہی جدوجہد کی جاسکتی ہے، ہم پہاڑوں پر چڑھ کر انقلاب لانے والے لوگ نہیں ہیں، ہم پارلیمنٹ میں رہ کر انقلاب لانے والے لوگ ہیں-
یہ ایک عجیب بات دہرائی جارہی ہے کہ نو جماعتیں ایک طرف اور پی پی پی دوسری جانب — کسی بھی اتحاد میں فیصلے اکثریت سے نہیں بلکہ مکمل اتفاق رائے سے ہوتے ہیں، سیاسی جماعتیں ڈائیلاگ کرتی ہیں، اپنے فیصلے مسلط کرکے اختلاف رائے کرنے والوں کو اسٹبلشمنٹ کا پٹھو قرار نہیں دیتیں تاہم بدقسمتی سے پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں بھی شاید مکالمے کی وہ جرات نہیں رہی جو کبھی ہمارے سماج کا خاصہ ہوا کرتی تھی-
یہ بھی پڑھیے:
پاکستان میں راجہ داہر اور محمد بن قاسم پر بحث خوش آئندہے۔۔۔ عثمان غازی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر