ملک سراج احمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوے کے عشرے میں ملک کی سیاست دو بڑی سیاسی جماعتوں پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے گرد گھومتی رہی۔یکے بعد دیگرے اقتدار حاصل کرنے والی جماعتوں نے اس دہائی میں جس کو گمشدہ عشرہ بھی کہا جاتا ہے میں مدت حکومت پوری نہیں کی۔مشرف کے اقتدار سنبھالنے کے بعد دونوں سیاسی جماعتوں کے قائدین ملک سے باہر چلے گئے۔اور جنرل مشرف نے ملک میں ان دو جماعتوں کی سیاست عملی طورپر ختم کردی ۔پیپلزپارٹی اور ن لیگ کی قیادت نے دوران جلاوطنی اپنی غلطیوں کا ادراک کرتے ہوئے اور جمہوریت کی بحالی اور بقا کی خاطر 2006 میں لندن میں میثاق جمہوریت جیسی اہم دستاویز پر دستخط کرکے بالغ نظری کا ثبوت دیا۔ میثاق جمہوریت کو اگر گزشتہ تین دہائیوں میں سب سے سنجیدہ سیاسی دستاویز کا درجہ دیا جائے تو بے جا نا ہوگا۔جمہوریت پسند جمہور نے میثاق جمہوریت پر سکھ کا سانس لیا کہ بالآخر دو بڑی سیاسی جماعتوں کے مابین جاری سیاسی محاز آرائی نا صرف رک جائے گی بلکہ ملک میں حقیقی معنوں میں سیاسی جمہوری کلچر کو فروغ ملے گا اور جمہوریت اور جمہوری ادارے مضبوط ہوں گے۔
2008کے عام انتخابات میں پاکستان پیپلزپارٹی مرکز اور سندھ میں اقتدار میں آئی اورن لیگ کو پنجاب میں اقتدار میں ملا۔تاہم میثاق جمہوریت کو پس پشت ڈالتے ہوئے ن لیگ کے قائد میاں نواز شریف اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے خلاف عدالت میں پیش ہوئے۔یہ میثاق جمہوریت معاہدے کی خلاف ورزی تھی۔پیپلزپارٹٰی کے دور اقتدار میں میمو گیٹ اسکینڈل منظر عام پر آیا توبھی ن لیگ نے اس موقع کو ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔یہی نہیں بلکہ معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سمیت اعلیٰ عدالتوں کے ججز کی بحالی اور آزاد عدلیہ کی خاطر چلائی جانے والی وکلا تحریک کی کمان جب میاں نوازشریف نے سنبھالی تو یہ میثاق جمہوریت کی خلاف ورزی کا نقطہ عروج تھا۔گوکہ یہ تحریک مشرف کے فیصلوں کے خلاف تھی تاہم اس کا نقصان بہرحال پیپلزپارٹی کی حکومت کو پہنچ رہا تھا۔بالآخر وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے ججز کو بحال کرکے ممکنہ سیاسی بحران کو حل کردیا۔
ان واقعات کے بعد پیپلزپارٹی کی ن لیگ سے دوریاں بڑھتی گئیں۔2013 کے عام انتخابات میں ن لیگ برسراقتدار آگئی ۔2014 میں تحریک انصاف نے دھاندلی کا الزام لگا کر ن لیگ کی حکومت کے خلاف اسلام آباد کے ڈی چوک پر دھرنا دے دیا۔ایسے میں ن لیگ اور پیپلزپارٹی کی دوریاں بھی حد سے زیادہ بڑھ چکی تھیں تو توقع کی جارہی تھی کہ شاید پیپلزپارٹی اپنےدیرینہ سیاسی حریف کو نووارد سیاسی حریف کے ہاتھوں زچ ہوتا دیکھتی رہے گی اور صورتحال مزید خراب ہوتی جائے گی۔عمران خان کے دھرنے کے باعث جب ن لیگ کی حکومت لڑکھڑا رہی تھی تو ایسے وقت میں اس وقت کی پیپلزپارٹی نے بالکل وہی فیصلہ کیا جو آج پی ڈی ایم کے اجلاس میں کیا گیا۔اس وقت پیپلزپارٹی نظام کے تسلسل، جمہوریت کی بقا اور پارلیمان کی بالادستی کی خاطر تمام تر ناراضگیوں کو بھلاتے ہوئے ن لیگ کی حمایت کا اصولی فیصلہ کیا۔یہ فیصلہ اتنا ہی غیر متوقع تھا جیسا کہ پی ڈی ایم کے حالیہ اجلاس میں اسمبلیوں سے مستعفی نا ہونے کا فیصلہ ہے۔
پی ڈی ایم کا آخری اجلاس اس قدر تناو میں ہوا کہ مریم نوازشریف اور زرداری کے مابین تلخ لہجے میں بات ہوئی اور زرائع کے مطابق اس نشست کے اختتام پر بلاول بھٹو نے جب مولانا سے پوچھا کہ یہ بتادیں کہ ہمیں پی ڈی ایم میں رکھنا ہے یا نہیں تو مولانا نے جواب دیا کہ اس کا فیصلہ آپ خود کرکے بتا دیں۔نشست ختم ہوئی تو مولانا نے شرکا کے بصد اصرار پر میڈیا کو مارچ ملتوئی ہونے کی اطلاع دی اور پریس کانفرنس چھوڑ کر چلے گئے جبکہ مریم نواز شریف نے میڈیا کے سوالوں کے جواب دئیے اور بات یہاں پر ختم ہوئی کہ پیپلزپارٹی نے سوچنے کاوقت مانگا ہے اس کے بعد فیصلہ ہوگا
اس کے بعد وہی ہوا جس کی توقع کی جارہی تھی کہ میڈیا اور سوشل میڈیا پر ایک طوفان آگیا۔ اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ زرداری نے پی ڈی ایم سے غداری کی ہے۔یہ شدید ردعمل شاید اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ پی ڈی ایم کی دیگر جماعتیں شاید یہ توقع کررہی تھیں کہ پیپلزپارٹی بھی استعفوں کے ایشو پر حامی بھرلے گی تاہم ایسا نہیں ہوا۔زرداری کا موقف یہ تھا کہ استعفوں سے عمران خان مضبوط ہوگا فی الوقت استعفوں کے معاملے کو رہنے دیں اور لانگ مارچ کریں۔جب مناسب وقت ہوگا استعفوں پر بات ہوگی۔اور یہی بات سب کو ناگوار گذری۔
سوال یہ ہے کہ کیا استعفے دینا مسائل کا حل ہے؟ بالفرض حکومت ضمنی انتخابات کے شیڈول کا اعلان کردیتی ہے تو پھر کیا ہوگا ۔محمود خان اچکزئی نے کہا کہ ضمنی الیکشن دوبارہ لڑ لیں گے اب اگر ضمنی الیکشن ہی دوبارہ لڑنا ہے تو پھر مستعفی کیوں ہورہے ہیں۔کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ استعفوں کا معاملہ بعد کے لیے اٹھا رکھتے اور فی الوقت ایک بھرپور لانگ مارچ کی تیاری کی جاتی۔ورکرز کوموبلائز کیا جاتا اور زیادہ سے زیادہ عوام کو لانگ مارچ میں شریک کیا جاتا۔
دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک پر پیتا ہے اور آصف زرداری جیسا زیرک سیاست دان محض دوسروں کی خواہش میں سندھ حکومت قربان کرکے سڑکوں پر کیوں آئے جب اس کو اتحادیوں میں سے چند پر اعتماد اور یقین نا ہو۔دوسری بات یہ کہ زرداری کی یہ بات کہ میری بیٹی مریم نواز شریف اور بہن فریال تالپور گرفتار رہی ہیں ہم کب تک جیلیں بھگتاتے رہے گے ایک پدرانہ شفقت سے بھرپور جذبے کی عکاسی کرتی ہے۔جبکہ حاصل غزل یہ بات رہی کہ میرا ڈومیسائل چھوٹے صوبے کا ہے اور بڑے صوبے کے ڈومیسائل کے حامل شخص کو عملی طورپر جدوجہد میں خود شریک ہونا چاہیے ۔ڈومیسائل والی بات پر اتنا عرض کرنا ہے کہ قائد اعظم ، فاطمہ جناح ، جی ایم سید سے لے کر محترمہ بے نظیر بھٹو تک سب کے ڈومیسائل چھوٹے صوبے کے تھے۔ایمبولینس کے ایندھن کے ختم ہونے سے لے کر انڈین ایجنٹ ، غدار ، پھانسی گھاٹ اور پھر لیاقت باغ کے باہر قاتلانہ حملہ بھی یہاں کی تاریخ ہے زرا ایک بار تاریخ کا پھر سے دیکھ لیا جائے تو اس بات کے معنی سمجھ آجائیں گے۔کوئی پاکستان کھپے کا نعرہ لگا کر زیرعتاب ہے اور کوئی ببانگ دہل کہتا ہے کہ پاکستان کھپے نہیں کہیں گے آزاد ہے۔وجہ یہ کہ ڈومیسائل کا فرق ہے
تحریر : ملک سراج احمد
براے رابطہ 03334429707
وٹس ایپ 03352644777یہ بھی پڑھیے:
ڈانسنگ ایلیفینٹ ۔۔۔ ملک سراج احمد
وہ لڑکی لال قلندر تھی ۔۔۔ملک سراج احمد
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو ۔۔۔ ملک سراج احمد
بے نظیر بھٹو کی پکار: الوداع پاپا ۔۔۔ملک سراج احمد
عوام کے حق حاکمیت کی فیصلہ کن جنگ۔۔۔ ملک سراج احمد
حضرت خواجہ غلام فرید ؒ – پیلوں پکیاں نی وے، آ چنوں رل یار ۔۔۔ ملک سراج احمد
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر