نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کوئی بھوکا نہ سوئے۔۔||شہریارخان

گردشی قرضے کا نوٹس لیا تو بات اربوں سے کھربوں میں پہنچ گئی۔ اور اب گردشی قرضہ ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے لیکن آپ نے گھبرانا نہیں ہے کیونکہ بندہ ایماندار ہے۔

شہریارخان

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک مستند ثاقب نثاری صادق اور امین صاحب کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ جس کام کے خلاف ہوں وہ ہی کرتے ہیں۔۔ حکمران بنائے جانے سے بھی بہت پہلے انہوں نے کہنا شروع کر دیا تھا کہ میں وزیر اعظم بنا تو کبھی قرض نہیں لوں گا، آئی ایم ایف کے پاس جانے سے پہلے خود کشی کر لوں گا۔ وہ وزیر اعظم بن گئے تو انہوں نے آئی ایم ایف سے نہ صرف ریکارڈ قرضہ لیا بلکہ آئی ایم ایف کے مختلف ممالک میں کام کرتے ہوئے حکام کو پاکستان بلانے کا سلسلہ شروع کر دیا۔

ایک صاحب جو ہر دور میں اپنا بریف کیس لے کر کہیں سے آتے ہیں اور وزیر خزانہ بن جاتے ہیں ان کو پہلے مشیر بنایا پھر وزیر بنوا لیا، ایک کو سٹیٹ بینک کا گورنر اور دوسرے کو ڈپٹی گورنر لگوا دیا۔ کہتے تھے کسی ملک سے پیسے مانگنے کا مطلب ہے کہ اس کے سامنے اپنی خود مختاری گروی رکھ دینا اس لیے کسی ملک سے بھی پیسے مانگ کر نہ خود شرمندہ ہوں گا نہ عوام کو کروں گا پھر یوں ہوا کہ سعودی عرب، ملائشیا، چین اور متحدہ عرب امارات کے سامنے اپنی خودمختاری کو گروی رکھا مگر الحمد للّٰہ خود شرمندہ ہوئے نہ عوام کو ہونے دیا۔ حکومت ملنے سے پہلے یہ بھی کہتے تھے کہ میٹرو بس بنتی ہے یا موٹر وے بنتی ہے تو اس میں کرپشن ہوتی ہے کِک بیکس لیتے ہیں حکمران۔۔

خود پشاور میں ایک میٹرو کا منصوبہ بنایا تو اس کا بجٹ پنجاب کی تین میٹرو کے مجموعی اخراجات سے بھی کہیں زیادہ ہو گیا۔ موٹر وے کے پرانے منصوبوں پہ اپنے نام کی تختی لگاتے بھی شرمندہ نہیں ہوئے بلکہ ان پہ ٹول ٹیکس کی شرح تین گنا کر دی، فخر کے ساتھ۔ یہ کہتے تھے پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ہو، بجلی، گیس کے نرخ بڑھیں تو حکمران چور ہوتے ہیں، آج صرف پٹرول پہ حکومت چالیس روپے فی لیٹر سے زیادہ لیوی (ٹیکس) وصول کر رہی ہے، بجلی اور گیس کے بلوں میں اندھا دھند اضافہ ہوا ہے لیکن اب یہ حکمرانوں کی چوری کو ظاہر نہیں کرتا بلکہ یہ سب عالمی سطح پہ ہونے والی تبدیلیوں کا نتیجہ ہوتا ہے۔ ڈالر پہ ایک روپے بڑھے تو اس کے نتیجہ میں حکمرانوں کی جیب میں اربوں روپے کرپشن کے چلے جاتے ہیں۔۔

الحمد للّٰہ تقریباً پچاس روپے ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہو چکا ہے لیکن اب بھی وہ پیسہ شاید سابق حکمرانوں کی جیب میں جا رہا ہے کیونکہ نئے سے نئے کیس صرف سابق حکمرانوں کے خلاف ہی بن رہے ہیں۔ پہلے کہتے تھے قطر سے مہنگی گیس خریدی ، ایران اور دیگر ممالک سے سستی ایل پی جی مل سکتی تھی۔۔ سابق حکمرانوں پر نیب کیس بنوائے اور ابھی تو ان کیسوں کی مٹی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ کرپشن کے خلاف عمران کی حکومت نے خود قطری گیس کا حلال معاہدہ کر لیا۔ پہلے یہ وزرا کی فوج کے خلاف ہوتے تھے آج الحمد للّٰہ کابینہ کی تعداد ففٹی کا ہدف عبور کر چکی ہے لیکن مجال ہے کہ کوئی گھبراہٹ ہوئی ہو۔

عمران خان اس بات کے سخت خلاف تھے کہ غیر منتخب لوگوں کو سرکاری عہدے دیئے جائیں آج ماشااللّہ عون عباس بپی، عثمان ڈار، فردوس عاشق اعوان، ابرار الحق سمیت ہر شعبہ میں ایسے ہی پارٹی کارکنوں کی بھرمار ہے لیکن ڈٹ کے کھڑا ہے کپتان۔ پہلے تو یہ صاحب( جب تک اپوزیشن میں تھے)، وزیر اعظم کو ملنے والے پروٹوکول کے بھی خلاف تھے لیکن اب انہیں معلوم ہو چکا ہے کہ وی آئی پی پروٹوکول کو سیکورٹی کہتے ہیں۔ یہ تو تھے وعدے، اب وزیر اعظم بننے کے بعد ناپسندیدہ کام ہونے پر اپنے وزیر اعظم صاحب نوٹس لیتے ہیں اور اللہ کا شکر ہے سبزی مہنگی ہونے کا نوٹس لیا تو اس کے بعد ایسی تبدیلی آئی کہ نوٹس لینے سے پہلے کی قیمتوں میں بھی پچاس فیصد کا اضافہ ہو گیا۔ آٹا اور چینی کا نوٹس لیا تو قیمتیں دوگنا ہو گئیں۔

گردشی قرضے کا نوٹس لیا تو بات اربوں سے کھربوں میں پہنچ گئی۔ اور اب گردشی قرضہ ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے لیکن آپ نے گھبرانا نہیں ہے کیونکہ بندہ ایماندار ہے۔ ستر سال کا گند دنوں میں تھوڑا ہی صاف ہو گا اس کے لیے ہمیں بھی ستر سال حکومت کرنے دو پھر بتاتے ہیں۔ ایک اور کمال یہ ہے کہ یہ چکن کی قیمت بڑھنے کا نوٹس لیں تو فردوس عاشق اعوان بتاتی ہیں کہ چکن کے ریٹ جیل میں بیٹھا حمزہ شہباز کنٹرول کرتا ہے ظاہر ہے جب یہ کنٹرول اپوزیشن کے پاس ہو تو حکومت کیا کر سکتی ہے؟۔لیکن کہتے ہیں کہ آپ نے گھبرانا نہیں ہے۔

لیکن سچی بات تو یہ ہے جناب کہ اب مجھے ڈر لگ رہا ہے کیونکہ وزیر اعظم نے نوٹس لے لیا ہے بھوک کا۔۔ اور نعرہ بھی رکھ لیا ہے کہ کوئی بھوکا نہیں سوئے گا۔ اب ٹریک ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ اب بھائی بھوکا سونے کے دن آ چکے ہیں۔ کیونکہ جب جب کپتان نے ایسا کوئی دعویٰ کیا ہے کچھ ہی عرصہ بعد اس کے برعکس ہوتا آیا ہے۔

اب اگر اس کا کہنا ہے کہ کوئی بھوکا نہیں سوئے گا تو کچھ تو گڑبڑ ضرور ہے صاحب، ویسے میری تو بائیں آنکھ ویسے ہی کافی عرصہ سے پھڑکنے کے کام پر لگی ہوئی ہے اور کوئی بھی خبر اب اچھی خبر نہیں رہی ہے اب مجھے لیکن یقین یہ ہو چلا ہے کہ صرف میری نہیں بلکہ بائیس کروڑ کا کہنا تو مبالغہ ہو گا۔۔ اکیس کروڑ اٹھانوے لاکھ پچاسی ہزار پاکستانیوں کی بائیں آنکھ تو آج کل باقاعدگی سے پھڑکتی ہو گی کیونکہ جس سے بھی بات کرو، اس کے حالات خراب ہی ہیں لیکن یہ سب ہمارے وہم ہی ہو سکتے ہیں ورنہ اپنے کپتان کا ویژن تو ہے ناں، اس کو معلوم تھا کہ اس کی حکومت میں آنے کے بعد عوام کے حالات کیا ہوں گے اس لیے اس نے پناہ گاہیں بھی بنا دیں اور لنگر خانے بھی بنا دئیے۔ جن لوگوں کی جائیدادیں نیلام ہوں وہ آرام سے پناہ گاہ میں سوئے اور صبح جا کر سیلانی صاحب کے لنگر خانہ سے بھوک مٹاﺅ پروگرام کے تحت روٹی کھائے اور وہ بھی بالکل مفت۔۔ اب وہ لوگ تو انتہائی متعصب ہوں گے جو کپتان کی عظمت کو سلام کرنے کے بجائے اس پر بھی تنقید کریں گے۔

اب سینیٹ الیکشن کو ہی لے لیں، پی ٹی آئی نے کہا بھی تھا کہ اوپن بیلٹ کروا لو لیکن پی ڈی ایم کے چور نہیں مانے اور یوسف رضا گیلانی کو سینیٹر بنوا لیا، اب سینیٹ چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخابات میں شبلی فراز نے جب کہا کہ ہر حربہ استعمال کریں گے تو کتنا ناراض ہوئے یہ سب لوگ۔۔ آج تاریخ گواہ ہے کہ عمران خان نے کرپشن کو مٹا دیا ہے۔۔وائٹ بورڈ پر کرپشن لکھا اور اسے مٹا دیا۔۔ پھر ہنستے رہے۔

صبح سینیٹ ہال سے کیمرے نکلے تو شبلی فراز نے آنکھیں نکالیں، جب ووٹ مسترد ہوئے تو دل کی بھڑاس نکالی بولے کیمرے والا ڈرامہ اپوزیشن کا تھا۔ اب دیکھئے اپنے مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ عبد الغفور حیدری غریب آدمی ہے اس کے مقابلہ میں ارب پتی تھا۔۔ تو اس کا آسان فارمولہ ہے جناب، عبد الغفور حیدری کو مفتی ابرار کی شاگردی میں دے دیں، پھر وہ بھی شاید ارب پتی ہو جائیں اور شاید پھر ڈپٹی چیئرمین کا الیکشن جیت لیںلیکن ایک بات جو شاہ محمود قریشی نے کی ہے وہ مجھے پسند آئی ہے کہ آج جمہوریت جیتی ہے اور ووٹ خریدنے والے ہار گئے ہیں، لگتا ہے وہ بہت شوق سے آفتا ب اقبال اور ارشاد بھٹی کے مزاحیہ پروگرام دیکھتے ہیں ورنہ اتنی اچھی جگت کہاں سے سیکھتے۔ پھر بھی قوم کو خوش ہونا چاہئے، میں تو ویسے ہی اس بات پر بہت خوش ہوں کہ ڈٹ کے کھڑا ہے کپتان۔۔ اور بہت جلد آپ گلی گلی میں پناہ گاہیں اور لنگر خانے دیکھیں گے اور ان سے فائدہ اٹھائیں گے اور خبردار ہے جو کسی نے بھوکا سونے کی کوشش بھی کی۔۔کپتان کسی کو بھوکا نہیں سونے دے گا۔

یہ بھی پڑھیے:

یارب مجھے صحافی کیوں بنایا؟۔۔۔ شہریارخان

مزید صحافتی حجام۔۔ شکریہ چوہدری صاحب۔۔۔ شہریارخان

م اور ش ۔۔ ف اور چ کی کہانیاں اور بااختیار وزیر اعظم۔۔۔ شہریارخان

بشکریہ روزنامہ کسوٹی پشاور

About The Author