نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

گل ودھ گئی اے مختاریا!|| شمائلہ حسین

"میرا جسم میری مرضی "کہنے کو تو یہ ایک جملہ ہے ایک نعرہ کہہ لیں یا ایک بات لیکن جب بھی بولا جاتا ہے سننے والے مخالف نظریے کے مالک لوگوں کو کسی چھیڑ کی طرح محسوس ہوتا ہے۔

شمائلہ حسین 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"میرا جسم میری مرضی "کہنے کو تو یہ ایک جملہ ہے ایک نعرہ کہہ لیں یا ایک بات لیکن جب بھی بولا جاتا ہے سننے والے مخالف نظریے کے مالک لوگوں کو کسی چھیڑ کی طرح محسوس ہوتا ہے۔ ادھر آپ کے منہ سے لفظ نکلے ” میرا جسم ” ادھر ان کے منہ سے گالیوں اور مغلظات کا طوفان ابل ابل پڑتا ہے۔
جسم کا لفظ آتے ہی شاید پورن ویڈیوز کے مناظر ان کے ذہن میں چلنے لگتے ہیں۔ جبکہ کہنے والے کیا کہنا چاہتے ہیں اس پر صفحوں کے صفحے لکھ دیے گئے ہیں لیکن یہ بھی ایسے دھن کے پکے ہیں کہ بپاشا باسو کی مووی یا سنی لیونی کے کریکٹر کو ہی سوچیں گے۔
لیکن مسئلہ صرف جسم اور مرضی کا نہیں ہے۔ یہ ہمیشہ سے مدمقابل شخص کی انفرادیت و اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے اسے اپنی سمجھ بوجھ کے حساب سے فیصلے لینے کی آزادی دینے کا معاملہ ہے۔
آپ سے تو اپنے خیالات کا اظہار کرتی ہوئی عورت بھی برداشت نہیں ہوتی۔
اور ہوتا یہ ہے کہ آپ خاتون ہیں ، سوشل میڈیا پر ایکٹو ہیں، منہ سر لپیٹے بغیر آپ کی تصویر ان کے سامنے ہے یہ آپ کی تحریر پڑھیں گے نہیں صرف شکل دیکھیں گے۔ نارسائی کا دکھ ٹھاٹھیں مارے گا اور چاہے بات ان کے حق میں کی گئی ہو۔ جاننے کی زحمت کیے بغیر گالیاں دیں گے ۔ اپنی فرسٹریشن نکالیں گے اور آگے بڑھ جائیں گے۔
انہیں اندازہ بھی نہیں ہوتا کہ خواتین کے حقوق کی بات کرنے والے اگر عشروں سے یہ سب نہ کرر ہے ہوتے تو ان کی عورتوں کو ووٹ کا حق، صحت کی سہولیات اور معاشی طور پر فعال ہونے کا حق بھی ان کے پرکھ دینے کو تیار نہ ہوتے۔
ان تک گھر بیٹھے جو دینی اور دنیاوی تعلیمات پہنچتی ہیں وہ بھی ممکن نہ ہوتا۔ ابھی یہ کووڈ کی صورت حال ہی دیکھ لیں جب ہر طرف معاشی بحران کی وجہ سے کاروبار بند اور ملازمتیں ختم ہوگئیں تو یہ عقل میں کم اور فرائض کے بوجھ تلے دبی صفر حقوق کے ساتھ والی عورت نے آن لائن بزنس شروع کیے ۔
کوئی کپڑے بیچ رہی ہے کوئی جیولری ،کوئی گھریلو استعمال کی چیزیں ، کسی نے کھانا پکانے کا چینل بنا لیا تو کسی نے میک اپ اور سیلف گرومنگ کے بارے میں معلومات دینا شروع کردیں۔
اس سے ہونے والی انکم کا فائدہ کیا صرف انہیں ہوا؟ کیا وہ گھر کی معاشی حالت کو سنوارنے میں مددگار ثابت نہیں ہوئیں؟ کیا وہ آپ کی پریشانیوں کو کم کرنے کا باعث نہیں بنیں۔
اب ذرا لمحہ بھر کو سوچیں۔ آپ انہیں جدید ٹیکنالوجی سے آگاہ نہ ہونے دیتے۔ انہیں بنیادی تعلیم میسر نہ ہونے دیتے۔ انہیں عورت ہو عورت رہو کہہ کر سوچنے سمجھنے اور کچھ کر گزرنے کی ہمت کرنے پر وہی رویہ رکھتے جو آپ دوسری نسبتاً زیادہ آزاد عورتیں کے لیے رکھتے ہیں۔ تو آپ اور آپ کے بچے اس مصیبت میں کیسے گزارا کرتے۔
اب آپ کو سمجھ آجانا چاہئے کہ میرا جسم اور میری مرضی صرف عورت کے جنسی فعل کی آزادی مانگنا نہیں رہا ۔ صرف حمل رکھنے اور گرانے تک بھی محدود نہیں ہے ۔ کپڑے پہننے نہ پہننے کی بات بھی نہیں۔ یہ تو آپ کے لیے بھی اتنا ہی اہم ہے کہ آپ مرد ہیں یا خواجہ سرا آپ کو کیوں کسی طاقت ور کے سامنے اپنا آپ سرینڈر کرنا پڑے۔ آپ اپنے پارٹنر کو کسی بھی طرح کے ماحول اور موڈ میں اگر منع کرتے ہیں تو وہ بھی اس انکار کا احترام کرے۔ آپ اگر دو بچوں سے زیادہ بچے پیدا کرنے کے حق میں نہیں ہیں تو معاشرے میں کسی کو یہ اجازت نہیں ہونی چاہئے کہ وہ آپ کو جوڑیاں پوری کرنے کے چکر میں دباؤ ڈالتا رہے۔
آپ داڑھی رکھیں یا کلین شیو رہنا چاہیں۔ آپ پینٹ شرٹ یا شلوار قمیض میں ملبوس رہنا چاہیں تو کوئی آپ کو ہر وقت یہ بتانے یا حکم چلانے کو موجود نہ ہو کہ یہ نہیں تو وہ کرو وہ نہیں تو یہ کرو۔ آپ کے جسم پر آپ کا ذاتی اختیار ہونا تو ضروری ہے نا۔ جب آپ ان باتوں سے ماورا ہوتے ہیں تو جو بھی کام کرتے ہیں زیادہ بہتر طور پر کرپاتے ہیں۔
یہ سب پڑھ کے اچھا لگا نا۔ بس ہم عورتیں بھی یہ ہی احساس چاہتی ہیں۔
آپ نے بھی مسئلہ جبر و اختیار کے حوالے سے وہ بات سن رکھی ہوگی جس میں حضرت علی کی دی ہوئی مثال سے یہ بتایا گیا کہ کیسے آپ کھڑے ہوتے ہوئے ایک پاؤں زمین سے اٹھا سکتے ہیں لیکن دوسرا اٹھائیں گے تو گر جائیں۔ انسان کا اختیار اپنے آپ پر اگر صرف اتنا ہے تو آپ عورت کا اتنا سا اختیار بھی قبول نہیں کرتے۔
آپ انسانی جسم پر خدا کی مرضی کی بات کرتے ہیں۔ لیکن غور فرمائیے کہ خدا کے نام پر آپ اپنی مرضی کو تھوپنا چاہتے ہیں۔ قدرت کے فیصلوں اور معاملات کو کس نے قبول نہ کرنے کی بات کی ہے ۔ ہم تو مردوں کی زبردستیوں اور زیادتیوں کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں۔
اور آپ کو لگتا ہے کہ آپ وہ نہیں ہیں جن کے مقابل ہم عورتیں آکھڑی ہوئی ہیں تو پھر آپ ہمیں گالیاں نہ دیں، ہمارا ساتھ دیں کہ یہ آپ کی بیٹیوں ،بہنںوں اور ماؤں کے بہتر سے بہتر مستقبل کی جدوجہد ہے۔ انہیں معاشی اور سماجی طور پر خود مختار کرنے کی جنگ ہی نہیں بلکہ یہ آپ کو بھی طاقت ور کے سامنے ڈٹ جانے اور اپنے حقوق حاصل کرنے کا سبق دینے کی کوشش ہے۔
بات اب جسم اور مرضی سے بہت آگے جا چکی ہے آپ اس لکیر کو پیٹتے رہیئے ہمارا قافلہ ملک و قوم کی مجموعی ترقی تک تھمنے کا نہیں۔
یہ بلاگ ڈی ڈبلیو پر شائع ہوچکا ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

About The Author