نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

منطقی انجام||محمد عامر خاکوانی

اسے اونچی گھاس میں چھپے پرندوں کو بوکھلا کر اڑانے کے لئے بھی استعمال کیا جاتا۔ بومرینگ کی خاص بات یہ ہے کہ اگر اسے ہنرمندی سے نہ برتا جائے تو پھینکے والا خود اس کا شکار ہوسکتا ہے۔

محمد عامر خاکوانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بومرینگ (Boomerang)ایک منفرد قسم کا ہتھیار ہے۔ آسٹریلیا کے قدیمی باشندے جنہیں گوروں نے مارمار کر تقریباً ختم کر دیا، اب وہ بمشکل لاکھ دو لاکھ ہی بچے ہوں گے، انہیں ایبورجینل Aboriginal کہا جاتا ہے، وہ بومرینگ کا ہتھیار استعمال کرتے ہیں۔
یہ مڑا ہوا ہتھیار ہے اور اسے خاص تکنیک اور قوت کے ساتھ بھیجا جائے تو لمباچکر لگا کرپھینکنے والے کی طرف واپس آتاہے۔قدیمی ابیوریجنل اسے شکار وغیرہ کے لئے استعمال کرتے تھے،آج کل تو خیر یہ ایک کھیل کے طور پر برتا جاتا ہے۔ آسٹریلین ابیوریجنل قبائلی پرندوں کے جھنڈ کو خوفزدہ کرنے کے لئے اسے ہوا میں پھینکتے ، جو سمجھتے کہ شائد عقاب نے حملہ کیا ہے اور یوں پرندے خوفزدہ ہوکر نیچے زمین کی طرف غوطہ لگاتے اور بچھائے گئے جال میں پھنس جاتے۔
اسے اونچی گھاس میں چھپے پرندوں کو بوکھلا کر اڑانے کے لئے بھی استعمال کیا جاتا۔ بومرینگ کی خاص بات یہ ہے کہ اگر اسے ہنرمندی سے نہ برتا جائے تو پھینکے والا خود اس کا شکار ہوسکتا ہے۔ چیئرمین سینٹ کے الیکشن میں یوسف رضا گیلانی کی شکست اور صادق سنجرانی کی فتح کے بعد بار بار اسی بومرینگ کا خیال آ رہا ہے۔ جو بومرینگ آصف زرداری صاحب نے حکمران جماعت کو شکار کرنے کے لئے پھینکا تھا، وہ یوں گھوم کر آیا کہ ان کے اپنے امیدوار یوسف رضا گیلانی کو لے ڈوبا۔ جو ڈرٹی گیم زرداری صاحب نے سینٹ انتخابات کے لئے شروع کی تھی، وہ اپنے منطقی انجام تک پہنچ گئی۔اب اپوزیشن جماعتیں کسی سے شکوہ یا برہمی کا اظہاربھی نہیں کر سکتیں۔ ان کے ساتھ جو کچھ ہوا، وہ ان کے اپنے اراکین اسمبلی نے کیا۔
صادق سنجرانی صاحب نے تقریباًوہی ووٹ لئے جو حکمران اتحاد کی تعدادہے ۔ یوسف رضا گیلانی کو بیالیس ووٹ ملے، آٹھ ووٹ مسترد ہوئے، اگر وہ گیلانی صاحب کو ملیں تو ان کے پچاس ووٹ ہوجائیں گے۔ پی ڈی ایم کا اندازہ یہی تھا کہ انہیں پچاس اکاون ووٹ ملیں گے جبکہ حکمران جماعت کو سنتالیس اڑتالیس ووٹ ملیں گے۔ نتیجہ تو وہی آیا، ایک فرق کے ساتھ کہ ان کے سات سینیٹرز نے یوسف رضا گیلانی کے نام کے آگے مہر لگانے کے بجائے نام پر مہر لگا دی جبکہ ایک نے رسک نہ لیتے ہوئے دو مہریں لگائیں تاکہ ووٹ مسترد ہونے میں کوئی کسر نہ رہ جائے۔
ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب میں البتہ واضح فرق پڑا۔ شائد اپوزیشن کے سینیٹرزکو ہوا کے رخ کا اندازہ ہوگیا۔ قومی اسمبلی میں یوسف رضا گیلانی کو حکمران جماعت کے کچھ ووٹ پڑے تھے، چند ایک مسترد ہوئے، جس کے نتیجے میں حفیظ شیخ ہار گئے اور گیلانی صاحب جیت گئے۔ تب پی ڈی ایم کے لیڈروں اور ان کے حامی میڈیا پرسنز اور کالم نگاروں نے یہ دلیل دی کہ یوسف رضا گیلانی زیادہ مقبول آدمی ہیں، انہوں نے ہر ایک کے ساتھ بنا کر رکھی ہوئی ہے ، لوگوں کے کام کرتے رہے ہیں جبکہ حفیظ شیخ غیر مقبول آدمی ہیں، اسی لئے تحریک انصاف اور ان کے اتحادیوں نے شیخ صاحب کے بجائے گیلانی صاحب کو ووٹ دیے۔
امید کرنی چاہیے کہ اپنی اسی دلیل کے مطابق جمعہ کی شام وہ جناب سنجرانی کی’’ خوش اخلاقی‘‘ اور’’ مقبولیت ‘‘کے قائل ہوگئے ہوں گے، جو گیلانی صاحب کی’’ کرشماتی‘‘ شخصیت پر غالب آ گئی؟ لیکن کیا واقعی ایسا ہی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ ہارنے والے امیدواروں کی ذات کا مسئلہ نہیں۔ ہمارے ہاں اتنے اہم مرحلوں میں اس بنیاد پر ووٹ نہیں ڈالے جاتے نہ ہی وفاداریاں تبدیل کی جاتی ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ کسی لیڈر کی سردمہری اور بے رخی اراکین اسمبلی کو خفا کر دیتی ہوگی ، مگر سیاستدانوں کی مٹی مختلف ہوتی ہے۔ آسانی سے جذبات اس میں سرائیت نہیں کرتے۔
ان کی بچپن سے تربیت ہوجاتی ہے کہ کس طرح اپنے جذبات اور محسوسات پر قابو پا کر ووٹروں کو ڈیل کرنا ہے۔ غصہ ، محبت، بے رخی، بیزاری، نفرت، وفاداری، بے وفائی … یہ سب ہمارے بیشتر روایتی سیاستدانوں کے لئے محض الفاظ ہیں۔ ان پر یہ کیفیات غالب آتی ہیں، مگر وقت، مصلحت اور حالات کا رخ دیکھ کر۔ جب حالات سازگار ہوں، مقتدر قوتوں کا اشارہ ہو تب ہی فارورڈ بلاک بنتا ہے۔ کبھی سوچیں کہ عام حالات میں، کسی لیڈر کے عروج میں اس کے خلاف فارورڈ بلاک کیوں نہیں بنتا؟ایک آدھ باغی بنے بھی تو اس کا انجام دیکھ کر باقی عبرت کا سبق سیکھ لیتے ہیں۔
میانوالی کے ایک معروف سیاستدان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انکے صاحبزادے کے انتقال پر محترمہ بے نظیر بھٹو نے تعزیت کا فون نہیں کیا تو وہ دلبرداشتہ ہو کر پیپلزپارٹی چھوڑ گئے اور جنرل مشرف کے ساتھی بن گئے، وزارت قبول کر لی۔ یقین سے تو خیر نہیں کہا جا سکتا،مگر محترمہ بے نظیر بھٹو اگر وزیراعظم ہوتیں تو شائد دلبرداشتہ ہونے کے باوجود اتنا بڑا فیصلہ لینا ممکن نہ ہوتا۔ ہمارے محترم ہارون الرشیدایک زمانے میں کوئٹہ کا ایک مقامی محاورہ اکثر اپنے کالم میں نقل کرتے کہ شف شف کیوں کرتے ہو، شفتالو کیوں نہیں کہتے ۔ بات پتے کی ہے۔
ہماری ناچیز رائے میں پوری یکسوئی کے ساتھ یہ کہنا چاہیے کہ جس کسی نے اپنی وفاداری تبدیل کی اور اپنی پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دیا، وہ بک گیا۔ اس نے کسی مفاد کے تحت ایسا کیا۔ سینٹ کے انتخابات میں ہمیشہ ایسا ہوتا رہا ہے۔کے پی اور بلوچستان کی صوبائی اسمبلیوں میں ایسے واقعات بہت بار ہوئے۔ ماضی میں پاکستان پیپلزپارٹی نے بھی اس کا فائدہ اٹھایا اور کے پی سے اپنی عددی نشستو ں سے کئی گنازیادہ سینٹر بنوا ڈالے۔ اس بار کے پی اور بلوچستان میں نتائج بہتر رہے ، پنجاب میں تو خیر مکمل انصاف سے ہر جماعت کو سیٹیں مل گئیں، سندھ سے پیپلزپارٹی نے ایک اضافی سیٹ لی اور وہاں ظلم یہ ہوا کہ اپوزیشن کے دو تین ارکان اسمبلی تو باقاعدہ اپوزیشن بنچیں چھوڑ کر حکمران جماعت کے ساتھ بیٹھنا شروع ہوگئے۔ یہ تو جمہوریت ، قانون اور آئین کے ساتھ کھلا مذاق ہی ہے۔ قومی اسمبلی سے یوسف رضا گیلانی کے سینیٹر منتخب ہونے کی کوئی تک اور منطق نہیں تھی۔
ان کی عدد ی اکثریت نہیں تھی اورووٹ خریدے بغیر ان کا جیتنا ممکن ہی نہیں تھا۔ گیلانی صاحب کے ماضی، بطور وزیراعظم ان کی غلطیوں اور ہار والے افسوسناک قصے کو ایک طرف رکھ دیا جائے، تب بھی حالیہ سینٹ انتخابات میں گیلانی صاحب نے جو کردار ادا کیا، اس کے بعد ان کے لئے حسن ظن باقی نہیں رہتا۔ اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کے ساتھ چیئرمین سینٹ اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخابات میں جو کچھ ہوا، وہ اس کی خود ذمہ دار ہے۔ انہیں سینٹ میں بدترین شکست اور ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ گیلانی صاحب کو ووٹ خرید کر سینیٹر بنا لینے سے پی ڈی ایم کے قائدین خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے۔
پیپلزپارٹی والے ایک زرداری سب پر بھاری کے نعرے لگا رہے تھے تو جناب مولانا فضل الرحمن بھی اپنی بے پناہ مسرت نہیں چھپا رہے تھے۔ مریم نواز شریف اسے ضمیر کی فتح قرار دے رہی تھیں۔ اب سنجرانی صاحب اور مرزا آفریدی صاحب کی فتح کے بعد ان سب کے لئے کہنے کو کیا بچا ہے؟ پی ڈی ایم کے لئے سنہری موقعہ تھا کہ سینٹ انتخابات سے پہلے حکومت کی جانب سے اوپن بیلٹنگ کی پیش کش آنے کو وہ سنہری موقعہ سمجھ کر آئینی ترمیم پر رضامند ہوجاتی۔ اس سے انہیں صوبائی اسمبلیوںاور قومی اسمبلی سے اپنی عددی اکثریت کے مطابق نشستیں مل جاتیں اور چونکہ ایک دو ووٹ سے ان کی اکثریت قائم ہوجانا تھی،اوپن بیلٹنگ سے وہ اپنی مرضی کا چیئرمین یا ڈپٹی چیئرمین بنوا لیتے۔ اضافی فائدہ یہ ہوجاتا کہ سینٹ انتخابات شفاف طریقے سے ہونے کے بعد ایک نئی جمہوری روایت قائم ہوجاتی ۔
یہ تاثر پیدا ہوتا کہ سیاسی جماعتیں اپنے شدید اختلافات کے باوجود جمہوریت اور سسٹم کو بچانے کے لئے اکٹھے ہوجاتے ہیں۔ افسوس کہ اس اہم موقعہ کو اپوزیشن نے گنوا دیا۔ سینٹ کے انتخابات میں اتنا گند پڑا کہ جمہوریت اور سیاست کا چہرہ ہی دھندلا گیا۔ میں نے بہت سے لوگوں کو یہ کہتے سنا کہ جو مرضی جیتے، ہمیں کوئی دلچسپی نہیں کہ دونوں طرف ایک ہی طرح کے حربے آزمائے جا رہے ہیں۔ یہ تاثر قائم ہونا سیاستدانوں کے مفاد میں نہیں۔ اس سے صرف اسٹیبلشمنٹ ہی کو فائدہ پہنچتا ہے۔پی ڈی ایم چونکہ آئین، اصولوں اور جمہوریت کی علمبردار ہے، اس لئے اس پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔پی ڈی ایم نے اپناتمام اثاثہ اس الیکشن میں لٹا دیا۔ اب ان کے پاس جذباتی طعنوں اور کھوکھلے فقروں کے سوا کچھ نہیں بچا۔
پی ٹی آئی جیت گئی، مگر اسے بھی کچھ خاص حاصل نہیں ہوا۔عمران خان کو البتہ چند ماہ کا وقت ضرور مل گیا ہے ۔ وہ کتنا فائدہ اٹھا سکتے ہیں، یہ ان پر منحصر ہے۔ پنجاب میں کچھ کرنے کے لئے البتہ چہرے کی تبدیلی ضروری ہے۔ وقت تیزی سے گزرتا ہے۔ ڈھائی سال بیت گئے، چند ماہ کی مہلت بھی جلد ختم ہوجائے گی۔ وقت کا دھارا معاملات پھر اپنے منطقی انجام کی طرف لے جائے گا۔

یہ بھی پڑھیے:

عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

About The Author