وسعت اللہ خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ آٹھ کون ہیں جنھوں نے یوسف رضا گیلانی کے نام کے آگے مہر لگانے کے بجائے نام کے اوپر یا پھر صادق سنجرانی اور گیلانی کے ناموں کو الگ کرنے والی لکیر پر مہر لگا کے ووٹ ضائع کیا اور پھر انھی آٹھوں نے ڈپٹی چیرمین کے انتخاب کے لئے جاری ہونے والے بیلٹ پیپر پر اپنے امیدوار مولانا غفور حیدری کے نام کے اوپر مہر لگانے کے بجائے مخالف امیدوار مرزا آفریدی کے نام کے آگے ٹھیک ٹھیک مہر لگائی۔
دونوں بار ایک ہی نتیجہ نکلا۔ سرکار جیت گئی اور اپوزیشن بظاہر عددی اکثریت کے باوجود خفیہ بیلٹ ہار گئی۔
بجائے ان آٹھ کو تلاش کرنے کے اپوزیشن پریزائڈنگ افسر کو کوس رہی ہے، کبھی سینیٹ کے سیکرٹری پر مکے تان رہی ہے، کبھی اس سکینڈل کو عدالت میں چیلنج کرنے کی بھبکی دے رہی ہے تو کبھی پولنگ سے پہلے برآمد ہونے والے جاسوس کیمروں پر مذمتی توانائی صرف کر رہی ہے۔
یعنی جہاں سوئی گری اپوزیشن اس مقام پر سوئی ڈھونڈنے کے بجائے اگلی گلی میں سوئی ڈھونڈھ رہی ہے۔
بلاول بھٹو کا یہ کہنا کہ انھیں اپنے اور اپنی اتحادی جماعتوں کے سینیٹرز کی نیت پر کوئی شک نہیں، ایسا ہی ہے جیسے وزیرِ اطلاعات شبلی فراز کا یہ کہنا کہ سینیٹ ہال میں خفیہ کیمرے دراصل اپوزیشن نے لگوائے تھے۔
جس طرح سینیٹ میں دو برس قبل چیئرمین کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد میں صادق سنجرانی کو ووٹ دینے والے چودہ مخالف سینیٹرز کو کوئی بھی اپوزیشن جماعت اپنی صفوں میں نہ ڈھونڈھ پائی، اسی طرح انشااللہ تازہ ترین آٹھ ’غداروں‘ کا بھی پتہ نہیں چل پائے گا۔
نہ ہی پی ٹی آئی کے ان 16 ارکانِ قومی اسمبلی کا پتہ چل پائے گا، جنھوں نے بقول عمران خان ضمیر بیچ کر حکومتی امیدوار ڈاکٹر حفیظ شیخ کو ہروا کے یوسف رضا گیلانی کو سینٹر بنوایا اور پھر انھی 16 نے وزیرِاعظم کو تین روز بعد اعتماد کا بھرپور ووٹ بھی دیا۔
جو سرکار اتحادیوں کی بیساکھیوں پر کھڑی ہو وہ ہر بار بہت زیادہ اصول پسندی اور ایمانداری دکھانے کی لگژری افورڈ نہیں کر سکتی۔ (صوبائی ارکانِ اسمبلی کی پارٹی سے بے دخلی کا نقصان برداشت ہو سکتا ہے مگر قومی اسمبلی ایک الگ دنیا ہے۔ اس کا ریموٹ کنٹرول بھی الگ ہے۔)
رہی بات سینیٹ کے پولنگ بوتھ میں لگنے والے خفیہ کیمروں کی تو اگر اس سکینڈل کی چھان بین کرنے والی اپوزیشن اور حکومت کی چھ رکنی مشترکہ کمیٹی چاہے تو پولنگ سے چوبیس گھنٹے پہلے تک کی سی سی ٹی وی فوٹیج چھان کر با آسانی اس مستری کا پتہ چلا سکتی ہے جو تمام حفاظتی تدابیر کو دھوکہ دے کر سینیٹ ہال میں داخل ہوا اور کیمرے لگا کے چمپت ہو گیا۔
مگر اس کمیٹی کو اپنی تحقیقاتی رپورٹ کب تک جمع کرانی ہے؟ اس بارے میں کمیٹی تشکیل دینے والے پریزائڈنگ افسر مظفر حسین شاہ نے کمیٹی کو کسی حتمی تاریخ کا پابند نہیں کیا۔ نہ ہی اپوزیشن نے پریزائڈنگ افسر کو یہ خامی یاد دلائی۔ مطلب صاف صاف ہے کہ سب کو چور چور کا شور مچانے میں دلچسپی ہے، چور پکڑنے میں ہرگز نہیں۔
ویسے بھی آٹھ ووٹ اس نئے پولنگ بوتھ میں ضائع یا ادھر سے ادھر ہوئے جس میں کوئی خفیہ کیمرہ نہیں تھا۔
برطانوی پارلیمانی ڈکشنری میں ایک اصطلاح ہے ’ہز میجسٹیز لائل گورنمنٹ اور ہز میجسٹیز لائل اپوزیشن۔‘ اگر اس اصطلاح کے عملی معنی کسی کو سمجھنے ہوں تو فی زمانہ اسلام آباد کی پارلیمانی راہداریوں سے بہتر کوئی جگہ نہیں۔
روم میں تو صرف ایک بروٹس تھا۔ اسی لیے غریب بدنام بھی ہو گیا۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)
یہ بھی پڑھیں:
قصور خان صاحب کا بھی نہیں۔۔۔وسعت اللہ خان
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر