دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

لسبیلہ میں جعلی ہاؤسنگ اسکیمز کی بھرمار||عزیز سنگھور

پلاٹوں پر زبردستی قبضہ کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ اصل مالک کو زور زبردستی اس کی جائیداد سے بے دخل کیا جاتا ہے۔ بات نہ ماننے پر دھمکیاں دی جاتی ہے۔ اگر پھر بھی بات نہ بنی کو جان سے مارنے کی بھی رپورٹیں ملتی رہتی ہیں۔

عزیز سنگھور

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ضلع لسبیلہ میں جعلی رہائشی اسکیموں کی بھرمارہوگئی ہے۔ مقامی افراد کی جدی پشتی اراضی پر قبضہ کرنے کاسلسلہ جاری ہے۔ بلڈر مافیاز کو متعلقہ افسران کی سرپرستی حاصل ہے۔ جبکہ ان کے مسلح افراد دن دھاڑے لوگوں کی اراضی کو گن پوائنٹ کے ذریعے قبضہ کررہے ہیں۔ پیرکس روڈ، بھوانی، حب بائے پاس،ساکران روڈ سمیت دیگر علاقوں میں رہائشی اسکیموں نے ایک سونامی کی صورت اختیار کرلی ہے۔ جگہ جگہ سائن بورڈز آویزہ کردیئےگئےہیں ۔ لسبیلہ کے مقامی قبائل کی اراضی محفوظ نہیں ہیں۔جن میں سیاہ پاد، موٹک، گجر، منگیانی سمیت دیگرقبائل شامل ہیں۔ لسبیلہ میں جس کی لاٹھی اس کی بھنس کا قانون رائج ہے۔ بلڈر مافیاز سرکاری اراضی پر بھی رہائشی اسکیمیں بنا رہے ہیں جبکہ متعلہ حکام خا مو ش تما شائی بنے ہوئے ہیں۔
مقامی افراد نے لینڈ مافیا کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ضلعی انتظامیہ پر الزام عائد کرتے ہوئے کہاکہ انتظامیہ بااثر لینڈ کی پشت پناہی کر رہی ہے۔ تحصیل حب میں وڈیرہ امید علی مو ٹک گوٹھ پیر کس بھوانی میں جگہ جگہ مسلح افراد انتظامیہ کی ایما پر قدیمی گوٹھوں پر چڑھائی کر کے علاقے میں خو ف و حراس پھیلا رہے ہیں۔ لینڈ مافیا طاقت کے ذریعے صدیوں سے آباد گوٹھوں کے کھیل کے میدانوں پر قبضہ کررہے ہیں۔ بچوں کے کھیلوں کے میدانوں پر قبضہ کیا جارہا ہے۔ علاقے میں سرکاری اسکول کی اراضی کوبھی نہیں بخشا جارہا ہے۔ بچے تعلیم کی زیور سے محروم ہورہے ہیں۔ بچوں کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ کیا جارہا ہے۔ تعلیمی اداروں پر قبضہ کرنے کا مقصد بچوں کو تعلیم سے دور رکھنا ہے۔ ویسے بھی علاقے میں تعلیم کا فقدان ہیں۔ اوپر سے لینڈ مافیا کے کارندے ان کے اسکولوں پر قبضہ کررہے ہیں۔ علاقے میں زندہ لوگوں کے ساتھ مردوں کو بھی نہیں چھوڑا جارہا ہے۔ علاقے کے قبرستانوں کو مسمار کیاجارہا ہے ۔ سرکاری عملداری کا نام و نشان تک نہیں جبکہ احتجا ج کر نے والے مقامی افراد کو جان سے ما رنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ ان کی جان و مال محفوظ نہیں ہیں۔ لوگوں کی زندگیاں اجیرن کی جارہی ہے۔
ضلع لسبیلہ کے قدیم آبادی کے لوگوں نے ضلعی انتظامیہ سمیت دیگرمتعلقہ حکام کو متعدد بار عرضیاں پیش کی ہیں کہ علاقے میں غیر قانونی اقدامات کو روکا جائے۔ علاقے کی زرعی اراضی، ندی نالے اور پہا ڑ غیر قانونی طو ر پر پیسے کے زور پررویژن الاٹمنٹ کئے گئے ہیں۔ ان لینڈ مافیا نے کبھی بھی ان علا قوں میں قد م تک نہیں رکھا اور نہ کبھی ایک بیج بویا ، اور آج وہ مافیا اس سرکا ری اراضی پر سوسائٹیاں بنا رہے ہیں، یہ کس قانون میں ہے کہ لیز پر لی گئی زرعی زمینوں کو فروخت کیا جا سکےیا سوسائٹیا ں بنائی جا سکیں، ضلع میں اندھیر نگری چوپٹ راج قائم ہے، متعلقہ افسران پیسے کے عوض تمام غیر قانونی کام کر نے پر تیا ر ہیں، اس طر ح کی من مانی سے قدیمی گوٹھوں میں آباد لو گ خوف و حراس میں مبتلا ہیں ، لو گ خو د کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں۔ مقامی افراد کا کہنا ہے کہ ان کی جا نوں کو خطر ہ لاحق ہے ،لینڈ ما فیا کی جانب سے انہیں دھمکیا ں مل رہی ہیں۔ علاقے کے مکین لینڈ مافیا اور اسکے مسلح گماشتوں کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ مقامی افراد کا کہنا ہے کہ لینڈ مافیا اور ان کے مسلح گماشتے ان کی جدی پشتی اراضی پر قبضہ کررہے ہیں۔ متعلقہ حکام لینڈمافیا کے وفادار بن چکے ہیں۔لوگوں نے حکومت بلوچستان سے مطالبہ کیا کہ ان کی جدی پشتی اراضی اور سرکاری زمینوں کو بااثر لینڈمافیا کے قبضے سے نجات دلائی جائے۔
بلوچستان حکومت کی خاموشی سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ سرکاری سرپرستی میں منظم اور سوچی سمجھی سازش کے تحت یہاں جدی پشتی اصل زمینداروں کی زمینیں ان سے جبراً چھیننے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ حکومتِ بلوچستان کو چاہیئے ضلع لسبیلہ کے مقامی زمینداروں کو تحفظ فراہم کیا جاۓ اور غیر قانونی الاٹمنٹ کو فوری منسوخ کیا جاۓ۔سی پیک اور دیگر ترقیاتی منصوبوں کی آمد سے علاقے میں اراضی کی قیمتیں آسمان پر پہنچ چکی ہے۔ طرح طرح کے بہانوں سے مقامی افراد کی زمینوں پر قبضہ کیا جا رہا ہے ۔
ضلع لسبیلہ کے مشہور علاقوں میں حب، سونمیانی، وندر، گڈانی، کنڈ ملیر اور کنڈ حب شامل ہیں۔ اس کی آبادی تقریباً سات لاکھ کے لگ بھگ ہیں۔ ضلع کے تمام تحصیلوں میں قبضہ مافیا سرگرم عمل ہیں۔جن میں تحصیل حب،تحصیل لاکھڑا، تحصیل بیلا، تحصیل دریجی، تحصیل اوتھل شامل ہیں۔ ضلع بھر میں رہائشی اسکیموں کی بڑھتی ہوئی تعمیرات میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ جس سے ڈیموگرافک تبدیلی آرہی ہے۔ لسبیلہ میں ڈیموگرافک تبدیلی کی وجہ سے ضلع بھر کی سیاسی، سماجی اور ثقافتی تعلقات تیزی سے تبدیل ہورہی ہیں۔ نئے اور پرانے لوگوں میں سماجی دوریاں شروع ہوگئیں۔ جس سےسماجی رشتے کمزور پڑ رہے ہیں۔ لسبیلہ کاسیاسی ڈھانچہ بھی کمزور پڑ رہا ہے۔ جس سے مثبت سیاست میں منفی رجحانات بڑھ رہے ہیں۔ معاشرے میں سیاسی اور سماجی کمٹمینٹ آہستہ آہستہ ختم ہورہا ہے۔ ہر شخص اپنے ذاتی مفادات کو ترجیح دینے میں مصروف نظر آتا ہے۔ جس کی وجہ سے سماج سے انسان کی وفاداریوں کا فقدان پایا جارہا ہے۔ جو کسی بھی معاشرے کے لئے ایک بھیانک عمل ہے۔ علاقے کے
پلاٹوں پر زبردستی قبضہ کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ اصل مالک کو زور زبردستی اس کی جائیداد سے بے دخل کیا جاتا ہے۔ بات نہ ماننے پر دھمکیاں دی جاتی ہے۔ اگر پھر بھی بات نہ بنی کو جان سے مارنے کی بھی رپورٹیں ملتی رہتی ہیں۔ اس طرح لوگوں کے ذاتی املاک بھی غیر محفوظ ہیں۔
کسی زمانے میں ضلع لسبیلہ، بلوچستان کا ایک پرامن ضلع ہوا کرتا تھا۔ اب صورتحال تیزی سے تبدیل ہورہی ہے۔ آبادی بڑھنے سے جرائم میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ کرائم رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ امن و امان کی صورتحال ابتر ہورہی ہے۔ لسبیلہ کی پرامن فضا ایک بار پھر پرتشدد ہونے جارہی ہے۔ سی پیک کے منصوبے کی وجہ سے لینڈ مافیا کی نظریں ضلع لسبیلہ کی اراضی پر لگی ہوئی ہیں۔ بعض علاقوں میں لوگوں کو پیسے کا لالچ دے کر اراضی حاصل کی جارہی ہے ۔ جس کی وجہ سے بعض خاندان آپس میں دست گریبان بھی ہورہے ہیں۔ لوگوں میں ناچاقیاں بڑھ رہی ہیں۔ ذاتی دشمنیوں میں اضافہ ہورہاہے۔ خونی رشتے کمزور پڑ رہے ہیں۔ پیسے کی بنیاد پر سماجی ڈھانچہ تشکیل پارہا ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

مسنگ سٹی۔۔۔عزیز سنگھور

گوادر پنجرے میں۔۔۔عزیز سنگھور

ڈرگ مافیا کا سماجی احتساب۔۔۔عزیز سنگھور

کرپشن اور لوٹ مار کے خلاف ماہی گیروں کا احتجاج۔۔۔عزیز سنگھور

سندھ پولیس کا بلوچستان کے عوام کے ساتھ ناروا سلوک۔۔۔عزیز سنگھور

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بشکریہ ،روزنامہ آزادی، کوئٹہ

About The Author