عثمان غازی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پرانے زمانے کے یورپ میں ترقی پسند اور روشن خیال عورتوں پر جادو ٹونہ کا الزام لگا کر انہیں قتل کردیا جاتا تھا، آج کل پاکستان کی ترقی پسند اور روشن خیال عورتوں پر مذہب دشمنی کی تہمت دھر کر ان کی آوازوں کے قتل کی راہ ہموار کی جارہی ہے-
عورت جب آزادی کا نعرہ لگاتی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ رشتوں کے بندھن سے آزاد ہوکر کسی سیکس فری سوسائٹی کی حامی ہے، آزادی کے یہ تعبیر تنگ نظر سوچ کے مردوں کی جانب سے بیان کی جارہی ہے، مطالبات عورت کررہی ہے اور ان مطالبات پر بیمار سوچ کے نیم مذہبی مردوں کی تعبیر کو تسلیم کرکے عورتوں پر لعن طعن نامناسب عمل ہے، آج کی ترقی پسند عورت کم عمری میں شادی، تشدد، جائیداد میں حصہ نہ دینے اور اس بات سے آزادی مانگ رہی ہے کہ وہ کوئی سیکس پراڈکٹ ہے-
مذہب فروش پوری قوت سے عورتوں کی آواز دبانے کے لئے میدان میں اترچکے ہیں، عورت مارچ کے پلے کارڈز کے مواد کو ایڈیٹ کرکے توہین آمیز مواد میں بدلا جارہا ہے، ویڈیوز کو ایڈیٹ کرکے نعروں میں مذہب دشمنی کا مواد شامل کیا جارہا ہے، عورت نیم مذہبیوں کے لئے بڑا خطرہ بن چکی ہے اور وہ کسی بھی سطح پر گرنے کو تیار ہیں، کچھ سادہ مزاج عورتیں ان نوسربازوں کے بہکاوے میں بھی آچکی ہیں، جماعت اسلامی کے گماشتے تو باقاعدہ عالمی یوم خواتین پر برقعے میں جکڑی بے بس عورتوں کو ریلیوں میں ہنکا کر پہنچاتے ہیں جہاں یہ بیچاریاں انہی کے بنائے ہوئے پلے کارڈ لہرا کر خود ہی مذاق بن جاتی ہیں، ان کے مطالبات کچھ ایسے ہوتے ہیں کہ مرد ان کے آقا ہیں اور انہیں دل و جان سے غلامی قبول ہے، یہ عورتیں اتنی مجبور ہوتی ہیں کہ ان بنیادی حقوق کا بھی سرعام مطالبہ نہیں کرسکتیں جو اسلام نے انہیں دیئے ہیں-
روایت پسند مردوں کو عورت کا ایک ہی روپ پسند ہے کہ وہ گھر میں ایک مخصوص وضع قطع میں بیٹھ کر ان کی خدمت کرے تاہم جونہی عورت گھر سے باہر نکلتی ہے اور مخصوص وضع قطع کو ترک کرتی ہے تو وہ مذہب دشمن بھی ہوجاتی ہے اور غیرملکی ایجنٹ بھی — نام نہاد مولوی ایسی عورت کو سماج کے لئے خطرہ بنا کر پیش کرتے ہیں جبکہ اصل خطرہ ان کے جابرانہ نظام کو ہے-
ممکن ہے کہ کسی کو عورتوں کی جانب سے مساوی حقوق مانگنے کے کسی انداز سے شکوہ ہو تاہم جب تبدیلی کروٹ لیتی ہے تو اس سے بہت سی سلوٹیں بھی جنم لیتی ہیں، حقوق مانگنے کی جرات کرنے والی عورتیں صدیوں سے مسلط جابرانہ نظام کے خلاف میدان میں آئیں ہیں، ان کے لہجے میں تلخی اور کرواہٹ ہوسکتی ہے مگر ان کی منزل غلط نہیں ہوسکتی-
یہ بھی پڑھیے:
پاکستان میں راجہ داہر اور محمد بن قاسم پر بحث خوش آئندہے۔۔۔ عثمان غازی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر