نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کسی غریب کوٹکٹ نہیں ملا||ظہور دھریجہ

دوسری جانب پیپلز پارٹی نے 8نئی نشستیں جیتی ہیں جن میں سے 7سندھ سے اور ایک اسلام آباد کی نشست شامل ہے اس طرح پرانی 12نشستوں کو ملا کر 20سیٹوں کے ساتھ پیپلز پارٹی ایوان کی دوسری بڑی پارٹی ہے

ظہور دھریجہ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے الیکشن کا مشکل مرحلہ بھی مکمل ہو ا، ۔سینیٹ میں کامیاب ہونیوالے 48امیدواروں میں سے کوئی غریب نہیں ، تمام پارلیمانی جماعتوں نے غریب ورکروں کو نظرانداز کیا ،سینیٹ کے الیکشن پر حکومت خصوصاً وزیر اعظم عمران خان کو سخت تحفظات ہیں ۔ اُن کا کہنا ہے کہ حالیہ سینیٹ الیکشن جیسے انتخابات کے مزید متحمل نہیں ہو سکتے۔
اُن کا کہنا ہے کہ الیکشن کے موقع پر ووٹوں کی خرید و فروخت ہوئی ، کابینہ کے اجلاس میں وزیر اعظم نے یہ بھی کہاکہ نواز شریف اور زرداری نے غریبوں کا پیسہ چوری کرکے امیر ملکوں کو بھیجا۔وزیر اعظم عمران خان کے خیالات درست ہیں اور کرپشن کے ذریعے غریبوں کے خون پسینوں کی کمائی کسی صورت باہر نہیں جانی چاہیے ۔اور غریبوں کا پیسہ واپس آنا چاہیے مگر عمران خان کو بھی غریبوں کا خیال کرنا چاہیے ۔
موجودہ مہنگائی اور کرپشن نے بھی غریبوں کا بیڑہ غرق کر کے رکھ دیا ہے ، سب سے اہم یہ کہ سینیٹ الیکشن میں جہاں زرداری اور نواز شریف نے اپنی جماعتوں کے غریب ورکروں کو نظر انداز کیا وہاں خود عمران خان نے بھی اسی عمل کو دہرایا۔
میں نے عرض کیا کہ تمام جماعتوں نے اپنے غریب کارکنوں کو نظر انداز کیا ، کامیاب ہونے والے 48امیدواروں میں ایم کیو ایم کے فیصل سبزواری آف کراچی، پی پی کے جام مہتاب ڈاہرآف ڈہرکی،پی پی کی شیریں مزاری آف کراچی ،ن لیگ کی سعدیہ خاقان عباسی ،پی ٹی آئی کے اعجاز چوہدری ،پی ٹی آئی کے فیصل واوڈا ، تحریک انصاف کے سیف اللہ سرور نیازی ،سندھ سے سلیم مانڈی والا، فارو ق ایچ نائیک، ملتان سے عون عباسی بپی ، کراچی سے تاج حیدر ،عرفان صدیقی ،ساجد میر ، اعظم نذیر تارڑ، بیر سٹر عل ظفر ،فوزیہ ارشد، ڈاکٹر زرکا تیمور،ثمینہ ممتاز ،ذیشان خانزادہ ،نسیم احسان، دوست محمد مسعود،قاسم رونجھو،فیصل سلیم، دنیش کمار ،گرودیپ سنگھ،عبدالقادر، ہدایت اللہ خان،پرنس آغا عمر ڈاکٹر ہمایوں مہمند، عمر فاروق، پرنس آغا عمراحمدزئی،لیاقت خان ترکائی، کامران مرتضی، مولانا عطاء الرحمن ،منظور احمد کاکڑ، محسن عزیز، شبلی فراز، سعید احمد ہاشمی، پلوشا خان، سرفراز بگٹی،خالدہ اطیب، فلک ناز چترائی، سیف اللہ ابڑو، ثانیہ نشتر ، شہادت اعوان کے ساتھ ساتھ سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے امیدوارمولانا غفور حیدری اور سید یوسف رضا گیلانی کا تعلق امیر طبقے سے ہے۔
اسی بنا پر دیکھا جائے تو تمام جماعتوں نے غریب ورکروں کو نظر انداز کیا کہنے کو یہ تمام جماعتیں غریبوں کا دم بھرتی ہیں ، مگر یہ سب کچھ زبانی کلامی ہوتا ہے۔اگر ہم سینیٹ کی پارٹی پوزیشن پر غور کریں تو وہ اسی طرح بنتی ہے کہ جیسا کہ میں نے عرض کیااس بار سینیٹ کی 48 نشستوں پر انتخابی دنگل سجا۔ فاٹا کی چار نشستوں پر الیکشن نہیں ہوئے ، جس کے باعث الیکشن کے بعد پارٹی پوزیشن کے مطابق پاکستان تحریک انصاف ایوان بالا کی سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آئی ہے ۔ 25 فروری 2021ء کو پنجاب کی 11نشستوں پر بلا مقابلہ امیدوار منتخب ہوئے تھے جن میں سے پاکستان تحریک انصاف نے 5،پاکستان مسلم لیگ ن نے نشستیں حاصل کی تھیں۔
افسوس کہ کسی جماعت کی کسی غریب ورکرکو ٹکٹ نہ ملا ۔ اور بات کو آگے بڑھائیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ باقی 37نشستوں کے انتخابی نتائج کے مطابق 37میں سے تحریک انصاف نے 13نشستوں پر کامیابی حاصل کی ۔ ان میں سے خیبر پختونخواہ سے 10، سندھ سے 2اور اسلام آباد سے ایک نشست اپنے نام کی اور پنجاب کی 5نشستیں بھی شامل کر لی جائیں توں پی آئی کی مجموعی نشستیں 18ہو جاتی ہیں ۔
اسی طرح نئی 18اور 8نشستوں کے ساتھ تحریک انصاف 26نشستوں کے ساتھ ایوان بالا کی سب سے بڑی پارٹی بن گئی ہے۔ بلوچستان عوامی پارٹی نے 6نشستیں جیتیں اور یہ تمام سیٹیں بلوچستان سے جیتی ہیں جس کے بعد 6پرانی نشستوں کے ساتھ اس کی 12نشستیں ہو گئی ہیں۔ایم کیو ایم نے 2نشستیں حاصل کیں اور پرانے ایک سینیٹر کے ساتھ 3ممبر ہو گئے ہیں۔مسلم لیگ ق کو سینیٹ کی ایک نشست ملی ہے۔
دوسری جانب پیپلز پارٹی نے 8نئی نشستیں جیتی ہیں جن میں سے 7سندھ سے اور ایک اسلام آباد کی نشست شامل ہے اس طرح پرانی 12نشستوں کو ملا کر 20سیٹوں کے ساتھ پیپلز پارٹی ایوان کی دوسری بڑی پارٹی ہے۔ مسلم لیگ ن نے پنجاب سے 5نئی نشستیں حاصل کی ہیں جس کے بعد 13 پرانی نشستوں کے بعد ن لیگ کی ایوان میں 18 نشستیں ہیں اور اب سینیٹ میں تیسرے نمبر پر چلی گئی ہے۔ مذہب کا نام لیوا جماعتیں بھی غریب ورکروں کو نظر انداز کرتی آ رہی ہیں۔جمعیت علمائے اسلام نے 3نشستیں حاصل کی ہیں ان میں سے 2نشستیں بلوچستان اور ایک کے پی سے جیتی ہیں اور 2پرانی نشستوں کے ساتھ جے یو آئی کی 5نشستیں ہو گئی ہیں۔
سینیٹ الیکشن 2021ء میں 46نشستوں میں سے پی ٹی آئی اور اتحادیوں کی مجموعی طور پر 28نشستیں ملی ہیں جب کہ پی ڈی ایم کو مجموعی طور پر 20نشستیں حاصل ہوئی ہیں۔قومی و صوبائی اسمبلی کے ٹکٹ کی بات آتی ہے تو یہ بہانہ بنایاجاتاہے کہ الیکشن دھن دولت کاکھیل ہے ۔اس لئے غریب ورکرکو ٹکٹ نہیں دیا جاتا۔ جبکہ سینیٹ میں تو جو جماعت جس غریب ورکرکو چاہے وہ ایوان میں لے آ سکتی ہے۔
ایک مسئلہ ایوان بالا میں صوبوں کی نمائندگی کی بھی ہے کہ 62فیصد آبادی کے ایک صوبے کو محض 25 فیصد اور 38فیصد آبادی کے 3صوبوں کو 75 فیصد نمائندگی حاصل ہے۔پنجاب میں تاریخی ، ثقافتی اور جغرافیائی بنیادوں پر سرائیکی اور پوٹھوہار صوبے کا قیام ضروری ہے تاکہ سینیٹ کا توازن درست ہو سکے ۔ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ جیسے قومی اسمبلی کو پنجاب ہائوس کا نام دیا جاتا ہے اسی طرح سینیٹ بھی پشتون ہائوس بنی ہوئی ہے اور اگر فاٹا کو آئینی صوبے کی حیثیت حاصل ہوتی ہے تو سینیٹ میں پشتون سب سے زیادہ ہوں گے ، ان تمام مسائل کو بصیرت کے ساتھ فوری حل کرنا چاہیے۔

 

یہ بھی پڑھیں:

ایک تاریخ ایک تہذیب:چولستان ۔۔۔ظہور دھریجہ

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

About The Author