وسعت اللہ خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ جو کہتے ہیں کہ کوئی اخبار یا چینل بنا اشتہارات محض قاری یا ناظر کے بل بوتے پر ایک دن بھی نہیں چل سکتا۔ یہی اصول ریلوے پر بھی لاگو ہوتا ہے۔
اس سلسلہِ مضامین کی پہلی قسط میں بتایا گیا تھا کہ دنیا کا کوئی بھی ریلوے نظام محض مسافروں کو ٹکٹ بیچ کر نہیں چل سکتا جب تک کہ اس کے پاس کم ازکم ساٹھ فیصد کارگو ٹریفک نہ ہو۔ پاکستانی ریلوے بھی تب تک منافع بخش رہا جب تک اس کی آمدنی کا ستر فیصد کارگو سے حاصل ہوتا رہا۔ آج پاکستان ریلوے سے سالانہ چار کروڑ مسافر سفر کرتے ہیں۔
غالباً اس وقت پاکستان ریلوے دنیا کا واحد ادارہ ہے جو اپنی چھیانوے فیصد کمائی کے لئے مسافروں پر تکیہ کرتا ہے۔ اس کا مطلب مستقل خسارہ ہے۔ مگر یہ خسارہ قدرتی نہیں بلکہ مرحلہ وار لادا گیا اور ریلوے کو پٹڑی سے اتار کر سڑک پر کھڑا کر دیا گیا۔
یہ بات ہے 1978ء کے مارشل لا دور کی۔ کراچی پورٹ پر یکدم درآمدی مال کا اتنا بوجھ پڑ گیا کہ بندرگاہ کا ہینڈلنگ نظام بیٹھ گیا۔ ہنگامی طور پر عسکری مدد طلب کی گئی۔ فوجی ٹرکوں نے دن رات لگا کے مال کی ترسیل کا راستہ کھولا اور معمول کی بندرگاہی سرگرمیاں دوبارہ بحال کرنے میں مدد دی۔
اس عارضی بحران نے یہ سوچ پروان چڑھائی کہ کیوں نہ یہی کام مستقل بنیادوں پر ایک مربوط جدید ادارے کی شکل میں کیا جائے۔ چنانچہ سولہ اگست 1978ء کو نیشنل لاجٹسک سیل کا جنم ہوا۔ اس کا بنیادی مینڈیٹ یہ تھا کہ زمینی نقل و حمل کا ایسا ڈھانچہ بنایا جائے جس کی مدد سے کسی بھی قدرتی و انسانی ایمرجنسی (زلزلہ، سیلاب، ہڑتال، وبا، جنگ وغیرہ) کے دوران اور حسبِ ضرورت عسکری اثاثوں کی کسی بھی جگہ تیزی سے منتقلی ممکن ہو سکے۔
پھر یہ ہوا کہ این ایل سی کو خود کفیل ادارہ بنانے کے لئے کمرشل ٹرانسپورٹ سرگرمیاں شروع ہو گئیں۔ این ایل سی کے قیام سے پہلے بندرگاہ سے گندم، خام تیل، کھاد، پام آئیل، افغان ٹرانزٹ ٹریڈ اور ہلکی بھاری صنعتی مصنوعات کی باربرداری کا بنیادی ذمہ دار ادارہ ریلوے تھا۔ رفتہ رفتہ این ایل سی ان تمام شعبوں میں آگے بڑھتا چلا گیا۔ چنانچہ اپنے قیام کے دو برس کے اندر ہی یہ ادارہ خود کفیل ہو گیا۔ دس سالہ افغان جنگ کے دوران بھی این ایل سی نے ترسیلی کام میں کلیدی کردار ادا کیا۔
آج صورت یہ ہے کہ بالائی عہدوں کو چھوڑ کے این ایل سی کا تقریباً آٹھ ہزار سویلین عملہ قومی کارگو ٹرانسپورٹ کا دس فیصد کنٹرول کرتا ہے۔ آٹھ سو سے زائد جملہ اقسام کے کمپیوٹرائزڈ مانیٹرنگ سسٹم سے لیس جدید ٹرک اور ٹرالرز کے بیڑے نے اسے سب سے بڑا قومی کارگو ٹرانسپورٹر بنا دیا ہے۔ این ایل سی لگ بھگ تمام کلیدی بین الاقوامی کارگو کنٹینر کمنپنیوں اور بیشتر سرکاری اداروں کو اپنی خدمات فراہم کرتا ہے۔
آئل فیلڈز اور بندرگاہ سے ریفائنریز تک خام تیل، فرنس آئیل اور خوردنی تیل کی ترسیل سمیت مائع کارگو کا چھپن فیصد شئیر این ایل سی کے پاس ہے۔ کام زیادہ ہو تو نجی شعبے سے مال بردار گاڑیاں مستعار بھی لی جاتی ہیں۔ غرض کراچی تا گلگت، واہگہ، طورخم، چمن اور تافتان تک این ایل سی کی رسائی ہے۔ اس کا اپنا تقسیم کار اور ذخیرہ کرنے کا نظام اور اپنی وہیکل اینڈ اسیٹس ٹریکنگ کمپنی ہے۔
تازہ ترین کام درآمدی گندم کی ترسیل ہے۔ اکتوبر 2020ء سے اب تک ساڑھے دس لاکھ ٹن سے زائد گندم این ایل سی کے ذریعے ملک کے کونے کونے میں بھیجی گئی ہے۔ یعنی روزانہ دس سے پندرہ ہزار ٹن۔ بہت پہلے یہ کام روایتی طور پر ریلوے کے ہاتھ میں تھا۔ گذشتہ برس پنجاب سے سندھ کو ساڑھے تین لاکھ ٹن گندم کی ترسیل بھی این ایل سی نے بخیر و خوبی کی۔
2009ء سے این ایل سی نے ریلوے کارگو بزنس میں بھی قدم جمانے شروع کئے اور این ایل سی ایکسپریس فریٹ ٹرین چلانے کا تجربہ کیا۔ 2014ء میں این ایل سی نے دس جدید کوریائی لوکوموٹیوز خرید کر ریلوے کو دس سال کی ویٹ لیز پر دئیے۔ ویٹ لیز کا مطلب ہے کہ ان لوکوموٹیوز کی دیکھ بھال اور رواں رکھنے والا عملہ بھی این ایل سی کی جانب سے فراہم کیا جاتا ہے۔
این ایل سی پولیمر پلانٹ ربڑ کی جملہ صنعتی مصنوعات بھی تیار کرتا ہے۔ ریلوے بھی یہ مصنوعات خریدتا ہے۔ این ایل سی کے اپنے اسفالٹ اور بیچنگ پلانٹ ہیں جن میں شاہراہوں، پلوں اور گوداموں کا تعمیری میٹریل تیار ہوتا ہے۔
این ایل سی نے ہر نئے دن کے ساتھ مثالی ترقی کی۔ اب کارگو ٹرانسپورٹ این ایل سی کے وسیع نیٹ ورک کا صرف ایک شعبہ ہے۔ ایک شعبہ این ایل سی انجنیرنگ کے نام سے کام کرتا ہے۔ جو ہائی ویز، فلائی اوورز، پل، ریلوے کراسنگ، اوورہیڈ پلیٹ فارمز، دفاتر، تعلیمی اداروں اور اسپتالوں کی عمارات، رہائشی منصوبوں، لینڈ ڈویلپمنٹ، غلے کے گودام، تیل کے ذخائر کے تعمیراتی ٹھیکے لیتا ہے۔ سی پیک کا ویسٹرن روٹ بھی این ایل سی تعمیر کر رہا ہے۔ بیشتر ڈرائی پورٹس، بارڈر ٹرمنلز اور ہائی ویز پر ٹول ٹیکس کا انتظام و انصرام بھی اسی کے ذمے ہے۔
آج این ایل سی کا کاروباری مدِ مقابل نہ سرکاری سیکٹر میں ہے نہ پرائیویٹ سیکٹر میں۔ ٹرانسپورٹ کے شعبے سے وابستہ 79 فیصد مالکان کے پاس ایک سے پانچ ٹرک ہیں۔ زیادہ تر فرسودہ ہیں۔ بیس فیصد کارگو کمپنیوں کے پاس دس سے زائد اور محض ایک فیصد کے پاس سو سے زائد ٹرکوں کا بیڑہ ہے۔ نجی شعبے میں محض تین کمپنیاں ایسی ہیں جن کے پاس پانچ سو سے ڈھائی سو کے درمیان ٹرک ہیں۔ زیادہ تر چھوٹی کارگو کمپنیاں اوور لوڈنگ کے زریعے منافع کماتی ہیں۔ اور اوورلوڈنگ کا خمیازہ سرکاری پیسے سے تعمیر ہونے والی سڑک بھگتتی ہے۔
دوسری جانب ریلوے کا یہ حال ہوا کہ 2003ء میں چین کی ڈونگ فینگ الیکٹرک کمپنی سے 69 لوکوموٹیوز کا سودا کیا گیا کیونکہ وہ یورپی اور امریکی ساختہ لوکوموٹیوز کے مقابلے میں سینتیس فیصد کم قیمت پر مل رہے تھے۔ جلد ہی ان سستے لوکوموٹیوز کے پلیٹ فارمز میں مینوفیکچرنگ نقائص سامنے آنے لگے۔ چینی کمپنی نے کچھ لوکوموٹیوز کی مرمت بھی کی۔
بالاخر ان میں سے بتیس لوکوموٹیوز اسکریپ کرنے پڑے۔ یہ سودا مشرف دور میں 2000ء سے 2002ء تک رہنے والے وزیرِ ریلوے جاوید اشرف قاضی کے دور میں ہوا تھا۔ ان کے بعد 2006ء میں وزیرِ ریلوے بننے والے شیخ رشید احمد نے چینی لوکوموٹیوز کے ناکارہ ہونے کا سبب خراب اور جعلی موبل آئیل کے استعمال کو قرار دے دیا۔
پیپلز پارٹی کے چوتھے دورِ حکومت میں غلام احمد بلور نومبر 2008ء سےمارچ 2013ء تک پانچ برس وزیرِ ریلوے رہے۔ ان کا دور پاکستان ریلوے کی تاریخ میں زوال کا عروج ثابت ہوا۔
2010ء سے 2013ء کے درمیان ریلوے کے لگ بھگ پونے چار سو پینسٹھ لوکوموٹیوز میں سے صرف 120 اس قابل رہ گئے کہ ٹرین کھینچ سکیں۔ 2011ء میں خانیوال لاہور روٹ پر بجلی سے چلنے والے لوکوموٹیوز کی سروس معطل ہو گئی۔ کیونکہ کئی مقامات پر بجلی کے تار چوری ہو گئے۔ تاریں بحال کرنے کے بجائے الیکٹرک لوکوموٹیوز ہی اسکریپ کر دئیے گئے۔ اس سیکشن کے اسکریپ کی مارکیٹ ویلیو پانچ ارب روپے کے لگ بھگ بتائی گئی۔ مگر اسی دور میں تین سو ملین روپے کا ایک اسکریپ اسکینڈل سامنے آیا (اس کی تفصیلات اگلے مضمون میں)۔
دورِ بلور میں حال یہ ہو گیا کہ چلتی ٹرینیں صرف اس لئے جنگل میں کھڑی ہونے لگیں کیونکہ لوکوموٹیو کا کوئی کل پرزہ بیچ سفر میں خراب ہو گیا یا ڈیزل ختم ہو گیا۔ مسافروں نے سفر کرنا ترک کر دیا۔ ریلوے اسٹیشنوں پر جنات بسیرا کرنے لگے۔ پاکستان اکنامک سروے کے مطابق 2012ء سے 2013ء کے عرصے میں روزانہ پسنجر ٹرین سروس 230 ٹرینوں سے گھٹ کے بانوے تک پہنچ گئی۔ جبکہ کارگو ٹرین سروس 96 سے کم ہو کر ایک ٹرین تک آ گئی۔ محمود غزنوی نے سومنات کے ساتھ اور نادر شاہ نے دلی کے ساتھ کچھ نہیں کیا جو اس دور میں اپنوں کے ہاتھوں ریلوے کے ساتھ ہوا۔ اس لوٹ مار کی چند اور جھلکیاں اور اس سوال کا جواب کہ کیا ریل میں اب بھی اتنا دم خم ہے کہ وہ اکیسویں صدی میں پھر سے اپنے بل پر کھڑی ہو سکے؟
( قصہ جاری ہے )
بشکریہ ایکسپریس نیوز
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)
یہ بھی پڑھیں:
قصور خان صاحب کا بھی نہیں۔۔۔وسعت اللہ خان
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر