وسعت اللہ خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان میں اس وقت تین اداروں پی آئی اے، اسٹیل ملز اور ریلوے کو سفید ہاتھی کہا جاتا ہے ۔ تینوں ادارے کبھی خودکفیل و خوشحال کماؤ پوت ہوا کرتے تھے۔ رفتہ رفتہ انھیں قومی بھکاری میں بدل دیا گیا۔ اب کہا جا رہا ہے کہ یہ ملکی خزانے پر بھاری بوجھ ہیں لہٰذا جو بھی پہلا رشتہ ملے اس سے ان کا بیاہ کر کے جان چھڑائی جائے۔
لیکن جن پالیسی ساز افلاطونوں نے ایک زمانے تک فخر پاکستان کہے جانے والے ان تینوں خوشحال اداروں کو کوٹھی سے اٹھا کے کوٹھے پر بھٹا دیا ان کا گریبان پکڑنے کی نہ کسی میں جرات ہے اور نہ صلاحیت۔
جب تک یہ ادارے مالی و انتظامی اعتبار سے سرخ و سفید تھے ہر کوئی ان کی شانداریت کا کریڈٹ لیتا رہا۔ مگر بیمار اور کھوکھلا کرنے کے بعد سب قصور تن تنہا ان اداروں کا ہی قرار پایا۔ اور اب ان کے بارے میں ویسے ہی سوچا جا رہا ہے جیسے مرغی یا بکری بیمار ہو جائے تو ہر طرف سے آواز آتی ہے کہ چھری پھیر دو۔ مر گئی تو گوشت بھی حرام ہو جائے گا۔
پی آئی اے اور اسٹیل ملز پر آئے دن لکھا اور بولا جاتا ہے۔ ریلوے کو کوسا تو بہت جاتا ہے البتہ محکمہ تعلیم اور فوج کے بعد سب سے زیادہ نوکریاں دینے والے اس ادارے کے بھکاری بننے کی نوبت کے بارے میں نسبتاً کم بات ہوتی ہے۔
تقسیم برصغیر تک سو برس پرانی ریلوے برٹش انڈیا کا سب سے بڑا سویلین محکمہ تھا۔ اس کا اندازہ بٹوارے کے اعداد و شمار سے ہو سکتا ہے۔ بھارت کے حصے میں سات ہزار دو سو اڑتالیس انجن ( لوکو موٹیوز ) آئے اور پاکستان ( ویسٹرن اور ایسٹرن ریلوے ) کو تیرہ سو انتالیس لوکوموٹیو الاٹ ہوئے۔ بھارت کے حصے میں بیس ہزار ایک سو اکسٹھ اور پاکستان کے حصے میں چار ہزار دو سو اسی مسافر کوچیں آئیں۔ بھارت کو دو لاکھ دس ہزار ننانوے اور پاکستان کو چالیس ہزار دو سو اکیس کارگو ویگنیں ملیں۔ بھارت کے حصے میں ستاون ہزار کلومیٹر ریلوے ٹریک اور پاکستان کے حصے میں گیارہ ہزار ایک سو تینتیس کلومیٹر ریلوے ٹریک آیا۔
آج پاکستان کے پاس گیارہ ہزار آٹھ سو اکیاسی کلو میٹر ریلوے ٹریک ہے۔ گویا ہم تقسیم کے وقت ملنے والے ریلوے ٹریک میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی تک کے اکیس برس کے دوران صرف سات سو اڑتالیس کلومیٹر کا اضافہ کر سکے۔ مشرقی پاکستان کے جانے کے بعد مغربی پاکستان میں جو ریلوے ٹریک رہ گیا۔ اس وقت مین اور برانچ لائنوں اور کراچی سرکلر ریلوے کو ملا کے سات ہزار سات سو اکیانوے کلو میٹر بنتا ہے۔ یہ بھی پورا فعال نہیں ہے۔ کیونکہ رفتہ رفتہ کئی برانچ لائنوں بشمول سرکلر ریلوے کو بند کر دیا گیا۔ کئی مقامات پر ٹریک اکھاڑ کے اسکریپ میں نیلام کر دیا گیا اور کچھ ٹریک چوری بھی ہو گیا۔
کراچی سرکلر ریلوے سروس انیس سو چونسٹھ میں شروع ہوئی اور انیس سو ننانوے میں بند ہو گئی۔ پچھلے سولہ برس سے اسے زندہ کرنے کی امید دلائی جاتی ہے مگر یہ امید ہر بار دم توڑ جاتی ہے۔ اس منصوبے کے ساتھ ہونے والے فلرٹ پر آگے چل کے بات ہو گی۔
اسی طرح انیس سو چھیاسٹھ میں جب دو سو چھیاسی کلومیٹر طویل خانیوال لاہور سیکشن پر بجلی کی مدد سے ٹرین سروس شروع کی گئی تو جاپان سمیت ایشیا کے دو تین ممالک میں ہی یہ سروس موجود تھی۔ مگر جیسے جیسے اس کی افادیت کھلنے پر باقی دنیا میں بجلی سے ٹرین چلانے کا ماحول دوست اور ڈیزل کے مقابلے میں سستا طریقہ مستعمل ہوتا چلا گیا۔ ہم نے اس نیٹ ورک کو وسیع کرنے کے بجائے دو ہزار دس میں یہ سروس ہی بند کر دی۔
انتیس کے انتیس الیکٹرک انجن اسکریپ کر دیے گئے۔ سروس بند کرنے کی وجہ لوڈ شیڈنگ، انجنوں کی دیکھ بھال کے لیے بجٹ کی عدم دستیابی اور کئی مقامات پر ریلوے ٹریک کے اوپر لگے تانبے کے تاروں کی چوری بتایا گیا۔
جب انیس سو سینتالیس میں انگریز نے برصغیر چھوڑا تب تک سو برس پرانا پچاس فیصد ریلوے ٹریک ویسے ہی فرسودہ ہو چکا تھا۔ کیونکہ سڑکوں کا نیٹ ورک محدود اور پسماندہ ہونے کے سبب دو عالمی جنگوں میں رسد لانے لے جانے کے لیے ریلوے کو بے تحاشا استعمال کیا گیا۔
انگریز نے چونکہ رخصتی کے لیے سامان باندھ لیا تھا۔ لہٰذا اسے آخری برسوں میں ریلوے سمیت کسی بھی ذریعہ آمدورفت کی جدت کاری اور دیکھ بھال سے دلچسپی نہ رہی۔ اس کے باوجود ریلوے تقسیم کے ستائیس برس بعد تک پاکستان کے لیے کماؤ پوت بنا رہا۔
انڈین ریلوے کی کمائی اتنی تھی کہ اس کا بجٹ انیس سو چوبیس میں لیجسلیٹو کونسل میں قومی بجٹ سے علیحدہ پیش کرنے کی روایت شروع ہوئی۔ پاکستان میں قومی اسمبلی میں آخری ریلوے بجٹ انیس سو ستتر میں بھٹو حکومت کے آخری وزیر ریلوے چوہدری غلام حسین نے پیش کیا۔ ضیا دور سے یہ بجٹ قومی بجٹ تقریر میں ضم کر دیا گیا۔ کیونکہ ریلوے کی آمدنی خسارے میں بدلنا شروع ہو گئی تھی اور یہ کماؤ پوت غریب تر ہوتا جا رہا تھا۔
بھارت میں ریلوے بجٹ الگ سے پیش کرنے کی روایت دو ہزار سولہ تک برقرار رہی۔ اس کے بعد مودی حکومت نے اسے قومی بجٹ کا حصہ بنا دیا۔ حالانکہ بھارت میں محکمہ ریلوے منافع بخش ادارہ ہے۔
دنیا بھر میں ریلوے کبھی بھی صرف ٹکٹ بیچ کر آسودہ نہیں رہا۔ ریلوے کی اصل آمدنی مال ڈھونے کی صلاحیت سے پیدا ہوتی ہے۔ اگر آپ دنیا کے دس بڑے ریل اداروں کی امارت کا مطالعہ کریں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اوسطاً پینسٹھ سے ستر فیصد آمدنی کارگو کی ترسیل سے پیدا ہوتی ہے اور تیس سے پینتیس فیصد آمدنی مسافر ڈھونے سے حاصل ہوتی ہے۔
مثلاً دو ہزار انیس کو ہی اگر مثال بنالیں تو جرمنی کے ڈوئچے بہان ریل نیٹ ورک نے اڑتالیس بلین ڈالر کمائے۔ اس میں سے پینسٹھ فیصد آمدنی کارگو کی مرہون منت تھی۔ دو ہزار انیس میں ڈوئچے بہان کا نیٹ منافع سات سو سینتیس ملین ڈالر تھا۔ جو کہ گزشتہ برس سے چھبیس فیصد زائد تھا۔
فرانس کی ایس این سی ایف قومی ریلوے کی دو ہزار انیس کی آمدنی انتالیس بلین ڈالر تھی۔ اس کا پینسٹھ فیصد کارگو بزنس سے حاصل ہوا۔ رشین ریلوے نے اسی برس بتیس بلین ڈالر کمائے۔ اس میں کارگو کا حصہ ستاون فیصد تھا۔ انڈین ریلوے کی آمدنی چھبیس بلین ڈالر رہی۔ اس میں کارگو ٹرانسپورٹیشن سے پینسٹھ فیصد پیسہ حاصل ہوا۔
اسی طرح شمالی امریکا کی یونین پیسفک ریلوے اور سی ایس ایکس، کینیڈین نیشنل ریلوے، ایسٹ اینڈ سینٹرل جاپان ریلوے کمپنیوں کی آمدنی میں کارگو کا حصہ پینسٹھ فیصد سے اوپر تھا۔
یہی فارمولا اچھے دنوں کی پاکستان ریلوے پر بھی لاگو رہا۔ انیس سو ساٹھ تک ریلوے کی کمائی کا تہتر فیصد کارگو ہینڈلنگ سے آتا رہا۔ انیس سو چوہتر تک یہ کم ہو کر پچاس فیصد تک آ گیا۔ اسی برس ریلوے پہلی بار منافع سے خسارے کی حدود میں داخل ہوا۔ پھر تو ایسی نظر لگی کہ آج ریلوے کی آمدنی کا محض پانچ سے چھ فیصد کارگو سے اور چورانوے فیصد مسافروں سے حاصل ہوتا ہے۔
یعنی ریل کیا نہائے کیا نچوڑے۔ ظاہر ہے اسے بھکاری اور ملکی خزانے پر بوجھ ہی بننا تھا۔ یہاں تک بھی قابل برداشت تھالیکن جب کرپشن، بدانتظامی، سیاسی مداخلت، اور ٹرانسپورٹ سیکٹر کے معاملے میں سرکاری ترجیحات بدلنا شروع ہوئیں تو ریلوے کا وہ حال ہوا کہ آج اس کا سانس چلنا بھی معجزے سے کم نہیں۔
ہماری ریل پر رحمت خدا کی
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
ریلوے کے منہ سے نوالہ کس نے چھینا اور پھر اسے سڑک پر کیسے لا کھڑا کیا۔ اگلے مضمون میں دیکھیں گے۔ (قصہ جاری ہے )
بشکریہ ایکسپریس نیوز
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)
یہ بھی پڑھیں:
قصور خان صاحب کا بھی نہیں۔۔۔وسعت اللہ خان
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر