گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج میری ملاقات مقیم شاہ کے رہایشی نوجوان روزی خان سے ہوئ جو مجھے ڈھونڈتے ڈھونڈتے یونائٹڈ بک سنٹر آ پہنچا ۔ یہ میرے فیس بک فرینڈ ہیں مگر ہم پہلے بار بالمشافہ ملے ۔ مختصر سے ملاقات سے دل باغ باغ ہو گیا کہ ہمارا آج کا نوجوان وقار اور شائستگی کا نمونہ ہے۔ پھر مقیم شاہ گاٶں سے تعلق مجھے اس لیے اچھا لگا کہ میں خود گاٶں میں پلا بڑھا اور مجھے ہر گاٶں سے گہری محبت ہے۔
ہر انسان کے اندر محبت کا ایک سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ھوتا ھے لیکن تربیت اور رہنمائی کی کمی کی وجہ سے وہ انسان محبت کی پیاس میں صحرا بن جاتا ھے مگر محبت کے سمندر سے فاعدہ نہیں اٹھا سکتا۔۔۔ ایک دوسرے سے میل جول یا انٹر ایکشن محبت کی شاھراہ کا موٹروے ھے۔ جس سے انسان کے مَن کے اندر خوشی اور سکون کا چشمہ پھوٹ پڑتا ھے اور پھر یہ چشمہ محبت کی بارش بن کر دوسرے لوگوں پر رم جھم کی طرح۔۔۔۔ برسنا شروع کر دیتا ھے۔ محبت کی یہ بارش ہر شخص پر بلا امتیاز برستی ھے چاھے وہ اجنبی ہو۔مسافر ہو۔ہم سفر و ہم نشین ھو۔بچہ ھو یا بڑا۔۔اکثر لوگ اس شاہراہ پر سفر کرتے ہیں جسے وہ محفوظ سمجھتے ہیں ۔یہ سفر خوف کے زیر اثر ہوتا ھے۔ ہمیشہ اس راستے کا انتخاب کریں جس پر چلنے کے لئیے محبت ۔خوشی اور دل آپ کو مجبور کرے۔ جنون آپ کوچلنے کا کہے۔قلب کو اطمینان حاصل ہو۔
بے لوث دوستی کی محبت کی لہریں ڈیرہ اسماعیل خان سے محبت کے مدو جذر کی طرح کبھی اسلام آباد سے ٹکراتی ہیں کبھی پشاور سے۔ کبھی وزیراستان کے پہاڑوں کو ٹچ کرتی ہیں کبھی لاھور ملتان کراچی بلوچستان سندھ گلگت بلتستان کشمیر جا پہچتی ہیں۔ بے لوث دوستی محبت آخرکارپیار۔خوشی۔مسرت۔اتحاد۔ڈسپلن اور قومی وقار کا ساگر بن جاتی ھے۔ ۔ ڈیرہ اسماعیل خان جو پہلے پھلاں دا سہرا کہلاتا تھا ۔اب پیار کا ساگر بنتا جا رہا ھے۔۔ ؎؎
جیوت سے جیوت جگاتے چلو۔۔۔
پریم کی گنگا بہاتے چلو۔۔۔۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر