اسلم اعوان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک ایسے وقت میں جب ٹیکنالوجی کی ترقی کے باعث ابلاغ کے وسائل کو بے پناہ وسعت مل رہی ہو اورسوشل میڈیا کے ذریعے ہر شخص کو اپنی بات کہنے کی آزادی ہو تو ایسے میں آزادی اظہار کے محدود ہو جانے کی گونج بظاہر عجیب سی معلوم ہوتی ہے ۔
تاہم امر واقعہ یہی ہے کہ جُوں جُوں ہمارے سوچ کے افق محدود ہوئے تُوں تُوں ہماری فکری اور ذہنی آزادیاں بھی سکڑتی گئیں۔تین دن قبل پاکستان انسٹیٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز،(PIPS) نے اِسی موضوع پہ یہاں ڈیرہ اسماعیل خان میں ورکشاپ منعقد کرائی جس میں گومل یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغ عامہ کے سٹوڈنٹس کے علاوہ مختلف شعبہ ہائے تعلیم سے وابستہ مسلم اور غیر مسلم طلبہ کی قابل لحاظ تعداد شریک ہوئی،اس منتخب اجتماع میں معروف صحافی اور تجزیہ کارعامر رانا،مرتضی راٹھور اور سبوخ سید نے بین المذاہب ہم آہنگی،گل نوخیز اختر نے آزدای اظہار،میڈیا اور طبقاتی محرومیت کی تفہیم کر کے زندگی کے تضادات کو واضح کیا،جبکہ معروف کالم نگار یاسر پیززادہ نے تنقیدی شعور کے موضوع پہ مفصل لیکچر دینے کے علاوہ نوجوانوں کے سوالات کے جوابات دیکر ایک غیر مختتم مگر دلچسپ بحث کا دروازہ کھولا۔
بلاشبہ،یہ نشست اس لحاظ سے ایسی بامقصد مساعی اور صحتمند مشق تھی جس میں ہمیں گراں قدر معلومات کے علاوہ خود انسانی سوچ کے تنوّع اور اپنی سماجی زندگی کی بوقلمونی کو سمجھنے کا موقع ملا،خاص طور پہ تنقید کی صلاحیت،اسلوب،ہیت اور معیار کے حوالہ سے پیش کی جانے والی تکنیکی معلومات نہایت اہمیت کی حامل تھیں ۔اس ورکشاپ کے دوران یونیورسٹی سطح کے طلبہ کی استعدادِ ذہنی کے عیاں ہونے کے علاوہ انتہا پسندی کے اُس خوف کی کچھ پردہ کشائی بھی ہوگئی جس نے ہمارے سماج کے اعلی و ادنی طبقات سے سوچنے اور سوال کرنے کی صلاحیت سلب کر لی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمیں اپنی یونیورسٹیز کے تعلیمی معیار کو مزید بہتر بنانے کے علاوہ اعلی تعلیمی اداروں کے اس مجموعی ماحول کو ازسر نو سنوارنے کی اشد ضرورت ہے،جس میں معاشرے کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے نوعمر طلبہ کی ذہنی نشوونما ہوتی ہے۔ہرچند کہ ہماری مملکت نے لاکھوں سکولز،ہزاروں کالجز اور سینکڑوں یونیورسٹیز بنا لیں اور ان اداروں کو ریگولیٹ کرنے کے لئے درجنوں پیچیدہ قوانین تشکیل دیئے لیکن اس پوری مساعی کے دوران علم کی اس شمع فروزاں کا نور کہیں معدوم ہوتاگیا جس کی تلاش و جستجو میں تشنگان علم،ان درسگاہوں کا رخ کرتے ہیں۔
اس گداز بحث میں یہ بھی واضح ہوا کہ ہماری مسائل کی جڑیں علم کی کمی میں پیوست ہیں،اس لئے پہلا سوال یہی بنتا ہے کہ تعلیم مستقبل کے دبستانوں کو روشن بنانے کی بجائے ہمیں خوف اور بے یقینی کی تاریکیوں میں کیوں دھکیل رہی ہے؟۔
یورپ کے اہل دانش کہتے ہیں”علم مختلف طریقہ ہائے عمل کی یادگار ہے،جتنا زیادہ ہمارا علم ہو گا،اتنے زیادہ ہم دوراندیش ہوں گے،جتنے زیادہ ہم دور اندیش ہوں گے، اُتنا زیادہ ہماری آزادی کا دائرہ وسیع ہو گا،لاریب، یہ علم ہی تھا جس نے ابتدائی انسان کو خوف سے نجات دلائی،ہم اپنے حافظہ،تخیل اور عقل کے ذریعے غیردانشمندانہ افعال پہ قابو پا کر کس قدر کامیابی کے ساتھ اپنے آخری نصب العین کا اظہار کرتے ہیں،آزادی بھی عقل کی طرح ایک”دیرآید“ عمل ہے“۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ معاشرے میں کارفرما منفی عوامل اور قانون کی تادیب ہماری آزادی نہیں چھین رہی بلکہ ہمارے اذہان کا بے ضرر تساہل ہی اس کا ذمہ دار ہے،اگر ہماری نوخیز نسلیوں کے دل ودماغ نور علم سے معمور ہوتے تو ہماری اجتماعی زندگی پہ دوراندیشی سایہ فگن رہتی اور ہمارا سماج فکری ،ذہنی،سیاسی اور مذہبی آزادیوں سے لطف اندوز ہوسکتا،گویا اصل مسلہ علم کی کمی اور ذہن کے جمود و ارتقاءسے جڑا ہوا ہے۔
چنانچہ اب ہماری نئی نسلیں آئین سازوں کی بجائے اچھے اساتذہ مانگتی ہیں انہیں تنظیم سے زیادہ علم کی ضرورت ہے اور وہ قانونی تشدد سے نہیں بلکہ ذہانت کی وسعت کے ذریعے نظم و نسق اور امن قائم کریں گے۔بلاشبہ اس نظم و ضبط کا بیشتر حصہ،جوانسانیت پہ حاوی ہے،قانون کا رہین منت نہیں بلکہ اس کا سرچشمہ زندگی کے اجتماعی اصول اور انسان کی فطرت ہے،جب حکومتیں نہیں تھیں تو سماجی نظم و نسق نشو ونما پا رہا تھا اور اب اگر ریاست معدوم ہو جائے تو بھی انسان باہمی احتیاج اور فطری تنوع کے ذریعے سوسائٹی کو ریگولیٹ کر لے گا۔
بلاشبہ،جس ذہنی آزادی کو ہم اکیسویں صدی کی پُرہجوم تنہائی میں ڈھونڈتے پھرتے ہیں،اس کی جڑیں دراصل ہمارے اپنے فکر و خیال کی حدود میں پنہاں ہیں،حیرت انگیز طور پہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس عہد میں جہاں لوگوں کو ہر بات کہنے کی سہولت ملی وہاں وہ آزادی اظہار کا حق مانگ رہے ہیں،کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم خود باہم ایک دوسرے کے کہنے کے حق کو برباد کرنے کے ذمہ دار ہوں؟
شاید سچ یہی ہو کیونکہ اگر پلٹ کے دیکھیں تو ہمیں ریاستی قوانین سے زیادہ معاشرے کے ان عناصر سے خوف آتا ہے جو ہمہ وقت اختلاف رائے کو بداخلاقی اور تشدد کے ذریعے کچلنے پہ کمربستہ دیکھائی دیتے ہیں،امر واقعہ بھی یہی ہے کہ اختلاف رائے ہی انسان کے فکری ارتقاءکا زینہ اور زندگی کی تزائین و آرائش کا بنیادی محرک ہے،اگر باہمی انتقادہ کے اس گداز عمل کو کند کر دیا جائے تو سماج میں ایسا خلاءپیدا ہو جاتا ہے جسے پُر کرنا ممکن نہیں رہتا،جن ملکوں میں استبدادی حکومتوں نے آزادی اظہار اور اختلاف رائے کے رجحان کی حوصلہ شکنی کی وہاں فکری،سیاسی اور سماجی ارتقاءمنجمد ہوتا گیا اور ان کی نوخیز نسلیں تیزی کے ساتھ کنفیوژن اور تشدد کی طرف مائل ہوتی گئیں جس سے ان کے منضبط معاشرے شورشوں اور خانہ جنگیوں کی لپیٹ میں آتے گئے،ہرچند کہ کسی بھی معاشرے میں تبدیلی کا وسیلہ نوجوان بنتے ہیں لیکن سوسائٹی کا سب سے زیادہ خطرناک گروہ بھی یہی نوجوان ہوتے ہیں جو اگر بگڑ جائے تو معاشرہ برباد ہو سکتا ہے ۔
ہم تاریخ کے جھروکوں میں جھانکیں تومغربی تہذیب کے ارتقاءکی اساس فرانسیسی دانشور والٹیئر کے اس نظریہ پر استوار ہوئی ،جس میں وہ کہتے ہیں کہ”اگرچہ مجھے آپ کے ہر لفظ سے اختلاف ہے لیکن آپ کے اسی بات کو کہنے کی حق کی خاطر میں اپنی جان دے دوں گا“۔
نہایت سادہ الفاظ میں آزادی اظہار کی تعریف تو یہی تھی کہ کسی فرد یا گروہ کے لئے حکومتی سنسرشپ کے بغیر اپنے افکار،خیالات اور عقیدے کے اظہار کی صلاحیت کو بروکار لانا تھا“ اگرچہ اصولی طور پر پوری انسانیت نے شخصی اظہار رائے کے حق کو تسلیم کیا اور اس مقصد کے حصول کی خاطر کئی عالمی معاہدات بھی کئے گئے،سنہ1966 میں طے پانے والے،شہری و سیاسی حقوق کے عالمی معاہدہ (ICCPR)کے آرٹیکل18 کے تحت دنیا بھر میں شہریوں کے اظہار رائے کے حق کو تحفظ دیا گیا،خود ہمارے آئین کی شق19 میں وطن سے سلامتی اور مذاہب کی حرمت کی شرط کے ساتھ اظہار رائے کی آزادی کا حق دیا گیا لیکن سیاسی اشرافیہ کی خوف سے مملو نفسیات اور ہماری سماجی رواداری میں کچھ نقائص کی وجہ سے ہم شہری آزادیوں کے اُس آئینی حق کو پوری طرح بروکار نہیں لا سکے جو چار ہزار سالوں پہ محیط پیچیدہ انسانی جدوجہد کا محاصل تھا۔
اختلاف رائے کے رجحان کی افزائش رک جانے اور ذہنی آزادیوں کو محدود کر دینے کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی الجھنوں نے ہمارے معاشرے کوجس قسم کی مذہبی،نسلی،لسانی اورعلاقائی عصبیتوں میں منقسم کر کے ہمیں انتہا پسندی اور تشدد کی طرف دھکیلا،اسے سنبھالنے کی سکت بھی ہم کھو رہے ہیں اور شاید اسی مخمصہ کی بدولت یہاں مذہبی،سیاسی اور سماجی دائروں میں وہ محروم طبقات پیدا ہوئے جن کی بحالی کی تگ و دو میں سرگرداں میڈیا کو بھی ریاستی جبر اور مختلف پریشر گروپوں کی طرف سے دباو کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔عظیم مورخ ول ڈیورانٹ نے مجموعی انسانی ترقی کو جن دس ادوار میں تقسیم کیا ان میں پہلا مرحلہ انسان کا بولنے کی صلاحیت حاصل کرنے پہ محمول تھا اور دسواں یعنی آخری،تحریر،طباعت و اشاعت، کا سنہرہ عہد تھا جس میں انسان نے ترقی کر کے اپنے ماحول پہ تصرف پا لیا۔
اگر ہم غور کریں تو انسانی ارتقاءکے پہلے اور اس آخری عہدکا تعلق ابلاغ کی ابتداءاور عروج کے ساتھ منسلک نظر آتا ہے،اگر انسان بولنا نہ سیکھتا تو علم و فلسفہ کا شکوہ پیدا ہوتا نہ شاعری کی غنائیت،کبھی سقراط،افلاطون اور ارسطو جیسے نابغہ روزگار نمودارہوتے نہ غزالی،ابن رشد اور بوعلی سینا نفس انسانی میں جھانکتے نظر آتے۔ہماری روح کے اندر حافظ شیرازی،غالب اور جان کیٹس کی گداز شاعری گونجتی نہ ایلیٹ،اقبال اورٹالسٹائی کا ادبی شعور جگمگاتا دکھائی دیتا،یہ قوت گویائی ہی تھی جس نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا،(تاہم اناطول فرانس، انسان کو اشرف المغمومات کہتے ہیں ) تحریر و طباعت نے اُسے طاقتور حکمرانوں اور ریاستی مقتدرہ پہ اثر انداز ہونے کی قوت عطا کی،بیشک، آزادی اظہار ہی شرف آدمیت کی روح اور جوہر انسانیت ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
کشمیریوں کا مستقبل۔۔۔اسلم اعوان
اپوزیشن جماعتوں کی آزمائش۔۔۔اسلم اعوان
پیراڈائم شفٹ میں ہم کہاں کھڑے ہیں؟۔۔اسلم اعوان
افغانستان کا بحران عالمی ایشو نہیں رہا۔۔۔اسلم اعوان
عورتوں میں ہم جنس پرستی پر یہ مشہور کہانی لکھنے والی عصمت چغتائی۔۔۔اسلم ملک
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر