دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

یوسف رضا گیلانی بمقابلہ عبدالحفیظ شیخ|| اعزاز سید

یوسف رضاگیلانی متاثر کن ہیں مگر اس سب کے باوجود اگر سپریم کورٹ کی طرف سے ووٹنگ خفیہ بھی قرار دے دی جائے تو اسٹیبلشمنٹ کبھی غیر جانبدار نہیں ہوگی۔ اسکی غیر جانبداری دراصل اپوزیشن کی جانبداری ہوگی۔

اعزاز سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گیلانی صاحب ، اگر سینٹ انتخابات میں اسلام آباد کی نشست سے آپ حصہ لیں تو پارٹی کے لیے ہی نہیں بلکہ ساری اپوزیشن کے لیے بھی اچھا ہوگا۔ ہمیں یقین ہے کہ حکومت کے کچھ لوگ بھی آپ کو ووٹ دیں گے، نتیجے میں آپ سینیٹر بن جائیں گے۔

اگرسینیٹر بن گئے تو ممکن ہے اپوزیشن سے چیئرمین سینیٹ کے امیدوار بھی آپ ہوں ،ایسے میں چیئرمین سینیٹ نہ بھی بن سکے تو سینیٹ میں لیڈر آف دی اپوزیشن تو آپ ہی بنیں گے ۔ پیپلز پارٹی کے نوجوان سینیٹر مصطفی نواز نے فون پر سابق وزیراعظم یوسف رضاگیلانی سے بات کی اور پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی خواہش کا اظہار کیا۔

پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما یوسف رضا گیلانی نے سوچ بچار اور قریبی ساتھیوں سے مشورے کے بعد اسلام آباد سے سینیٹ الیکشن میں حصہ لینے کیلئے ہاں کردی۔ اس دوران ن لیگ کے چیدہ رہنمائوں شاہد خاقان عباسی اورپرویز رشید کے ذریعے مریم نواز کو بھی اعتماد میں لیا گیا۔

اس بار یوسف رضاگیلانی سینیٹ انتخابات میں حصہ نہیں لے رہے تھے بلکہ ان کے بیٹے حیدرگیلانی اور قاسم گیلانی نے سینیٹ کی نشست پر پنجاب سے نظریں جما رکھی تھیں۔ پیپلز پارٹی کی طرف سے یوسف رضا گیلانی کو اسلام آباد سے سینیٹ انتخابات لڑوانے کی تدبیر نے سارا منظر نامہ بدل ڈالا۔

یوسف رضاگیلانی ملک کے سابق وزیراعظم ہی نہیں بلکہ وہ ملکی سیاست کا خوشگوارچہرہ ہیں۔ ان کا یہی پس منظر سینیٹ میں اسلام آباد کی نشست سے انہیں ایک طاقتور امیدوار بنا تا ہے۔ مگر یہ سوال ابھی برقرار ہے کہ آیا وہ سینیٹ الیکشن جیتیں گے یا نہیں؟سینیٹ کا اسلام آباد سے رکن منتخب ہونے کے لیے اس وقت قومی اسمبلی کے 342 ارکان اسمبلی نے ووٹ ڈالنا ہے۔

سرکاری طورپرحکومت کے پاس تمام اتحادیوں کو شامل کرکے 180ووٹ ہیں جبکہ اپوزیشن 160ووٹوں کی حامل ہے۔اپوزیشن کے متفقہ امیدوار یوسف رضا گیلانی کو سینیٹر بننے کیلئے اپنے مدمقابل پر برتری کیلئے مجموعی طورپر11ووٹ درکار ہیں۔

اپوزیشن کا خیال ہے کہ وہ حکومت میں شامل جی ڈی اے کے تین ارکان قومی اسمبلی ، 2 آزاد ارکان ، جمہوری وطن پارٹی کے شاہ زین بگٹی اور 12کے قریب ان ارکان قومی اسمبلی کی حمایت حاصل کرلے گی جو حکومت میں رہتے ہوئے حکومت سے نالاں ہیں۔

بلاول بھٹو اور یوسف رضاگیلانی کی 25فروری کو لاہور میں مریم نواز سے ملاقات کے دوران مسلم لیگ ن کو 9کے قریب حکومتی ارکان قومی اسمبلی کی فہرست بھی دی گئی۔ یہ وہ حکومتی ارکان ہیں جو آئندہ عام انتخابات میں ن لیگ کی طرف سے ٹکٹ کی یقین دہانی پر سینیٹ میں اپنا ووٹ اپوزیشن کو دینے کیلئے تیار ہیں۔ ن لیگ سے تحریک انصاف کے بعض ارکان الگ سے براہ راست رابطے میں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ن لیگ پیپلزپارٹی کے سابق وزیراعظم کے لیے قومی اسمبلی کی اپنی اتنی نشستوں کی قربانی کیوں دے گی ؟ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یوسف رضا گیلانی کا جہانگیر ترین سے بھی گہرا تعلق ہے۔

جہانگیر ترین کی اہلیہ آمنہ ترین یوسف رضا گیلانی کی ماموں زاد ہیں، اس لیے ترین اس موقع پر یوسف رضا گیلانی کی مدد کرکے عمران خان سے اپنا بدلہ بھی لے سکتے ہیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ جہانگیر ترین اتنا بڑا رسک کسی ہلہ شیری کے بغیر لے سکتے ہیں۔

یوسف رضاگیلانی متاثر کن ہیں مگر اس سب کے باوجود اگر سپریم کورٹ کی طرف سے ووٹنگ خفیہ بھی قرار دے دی جائے تو اسٹیبلشمنٹ کبھی غیر جانبدار نہیں ہوگی۔ اسکی غیر جانبداری دراصل اپوزیشن کی جانبداری ہوگی۔

اگر یوسف رضا گیلانی سینیٹ کا انتخاب جیت گئے تو جیت کے فوری بعد اپوزیشن جماعتیں وزیراعظم عمران خان کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد لائیں گی۔ کیا موجودہ نظام ایسی اپوزیشن کے ہاتھ دینے کا رسک لیا جاسکتا ہے جس پر اسٹیبلشمنٹ اعتماد کرنے کے لیے تیار نہیں ؟ نہیں ایسا نہیں ہوسکتا کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کے بڑوں کا مستقبل بھی اسی حکومت کے فیصلہ سازوں سے جڑا ہوا ہے۔

یوسف رضا گیلانی کے مدمقابل سندھ سے تعلق رکھنے والے مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ ہیں۔ شیخ صاحب کا اسٹیبلشمنٹ سے بڑا گہرا تعلق ہے۔ اسی تعلق کے باعث انہیں موجودہ حکومت میں وزارت خزانہ کی کنجی دی گئی اور وہ سینیٹ کے میدان میں بھی اتارے گئے۔

شیخ صاحب کو انتخابی دنگل میں اتارنے والے پوری سپورٹ فراہم کررہے ہیں اور اپوزیشن کے بعض ارکان سے بھی رابطے کیے گئے ہیں۔ ڈر تو یہ ہے کہ حکومت کی بجائے اس باربھی اپوزیشن کے ووٹ کم نہ ہوجائیں۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے ڈسکہ میں عام انتخابات ملتوی کرنے کے فیصلے اور حمزہ شہباز کی ضمانت سے ماحول میں حکومت کے خلاف ایک ارتعاش ضرور پیدا ہوا ہے تاہم حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ایک دوسرے سے پرے نہیں ہوئے۔ موجودہ حکومت کا تحفظ اسٹیبلشمنٹ کا اپنا تحفظ ہے۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ غیر جانبدار ہے یا ہوتی ہے وہ شاید حقائق کا درست ادراک نہیں رکھتے۔ ایسا ماضی میں بھی کبھی نہیں ہوا اور آئندہ بھی نہیں ہوگا۔

یہ بھی پڑھیے:

کیا اپوزیشن کامیاب ہوگی؟۔۔۔ اعزاز سید

خادم رضوی کی وفات کے بعد جماعت کا مستقبل ؟۔۔۔اعزازسید

وزیراعظم کے پرنسپل سیکریٹری اعظم خان کون ہیں؟—اعزازسید

پی ڈی ایم کی تشکیل سے قبل ایک اہم سرکاری اجلاس میں کیا ہوا؟۔۔۔اعزازسید

About The Author